آج کی تاریخ

ریاستی رٹ یا ریاستی غفلت؟

جعفر ایکسپریس پر حملہ، بولان ایکسپریس کے قریب ہونے والا دھماکہ، گوادر میں مزدوروں کے کیمپ پر دہشت گردوں کا حملہ — یہ سب صرف خبروں کی سرخیاں نہیں بلکہ پاکستان کے عام شہریوں کی روزمرہ زندگیوں میں شامل ہوتا ہوا مسلسل خوف ہے، جس سے نہ صرف عوامی سلامتی خطرے میں ہے بلکہ ریاست کی رٹ پر بھی سنگین سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
حالیہ دنوں میں پیش آنے والے ان واقعات نے اس حقیقت کو مزید واضح کیا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے کئی علاقے رات کے وقت ریاستی عملداری سے خالی ہو چکے ہیں۔ وفاقی وزیرِ داخلہ محسن رضا نقوی کا یہ اعلان کہ زمینی راستے سے زائرین کو عراق اور ایران نہیں جانے دیا جائے گا کیونکہ ان کی سلامتی خطرے میں ہے، اس بات کا اعتراف ہے کہ ریاست خود ان علاقوں میں اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتی۔
بلوچستان میں رات کے اوقات میں مسافر بسوں کی آمدورفت پر پابندی، اور خیبر پختون خوا کے کئی اضلاع میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا رات کو اپنی چھاؤنیوں تک محدود رہنا — ان سب کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ان علاقوں میں ریاستی عملداری جزوی نہیں بلکہ مکمل طور پر معدوم ہو چکی ہے۔ ان حالات میں یہ سوال عوام کے ذہنوں میں شدت سے ابھرتا ہے کہ جس ریاستی قوت کا بے دریغ استعمال احتجاجی مظاہرین، صحافیوں، طلبہ تنظیموں، اور ہیلتھ ورکرز کے خلاف کیا جاتا ہے، وہی قوت ان شدت پسند گروہوں کے خلاف اتنی غیر مؤثر کیوں ثابت ہو رہی ہے؟
گزشتہ دنوں خیبر کے علاقے تیراہ میدان میں پانچ شہری سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے، ایک کم سن بچی جان سے گئی، اور اے این پی کے رہنما کی دن دیہاڑے ٹارگٹ کلنگ ہوئی جس کے قاتل آج تک گرفتار نہیں ہو سکے۔ یہ واقعات نہ صرف ان علاقوں کے لوگوں میں بلکہ ملک بھر میں حکومت کے رویے پر غصّے اور مایوسی کو ہوا دے رہے ہیں۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی تحفظ دینے میں ناکام ہے تو پھر اس کی رٹ کا مطلب کیا رہ جاتا ہے؟
بلوچستان لبریز ہے دکھوں سے، اور خیبر پختون خوا میں عدم تحفظ روز کا معمول بنتا جا رہا ہے۔ بی ایل اے اور تحریک طالبان پاکستان جیسی تنظیمیں ایک منظم حکمت عملی کے تحت نسلی اور مذہبی بنیادوں پر عوام کو تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کا بلوچستان میں قتل، اور پشتون و بلوچ شہریوں کی جبری گمشدگیاں اس تقسیم کو گہرا کر رہی ہیں۔ ریاستی اداروں کی مبینہ زیادتیوں اور عدم توجہی نے قومی اتحاد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
اس وقت جب اسلام آباد میں لاپتا بلوچ شہریوں کے اہل خانہ مسلسل چودہ دنوں سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں، وفاقی حکومت کی خاموشی اور پولیس کا غیر انسانی رویہ خود ایک اعلان ہے کہ ریاست ان مظلوموں کی فریاد سننے کو بھی تیار نہیں۔ اس ساری صورت حال کا انجام ایک مزید خطرناک سیاسی و سماجی بحران کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے، جسے صرف سیکورٹی آپریشن سے نہیں بلکہ سیاسی فہم و فراست سے ہی روکا جا سکتا ہے۔
بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے حالات محض سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں رہے، بلکہ یہ اب مکمل سیاسی بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ جس “ریاستی رٹ” کے تحفظ کے لیے اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز، پاور لومز کے مزدوروں اور حزبِ اختلاف کے کارکنوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، اسی رٹ کا مکمل فقدان ان علاقوں میں نظر آتا ہے جہاں دہشت گرد گروہ کھلے عام مسلح کارروائیاں کر رہے ہیں اور ریاستی ادارے ان کے سامنے پسپا دکھائی دیتے ہیں۔
صورت حال کا المیہ یہ ہے کہ ریاستی ردِعمل کا مرکز وہ طبقے بن چکے ہیں جو پُرامن احتجاج کرتے ہیں، جبکہ اصل خطرہ بننے والے عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی صلاحیت یا تو ناپید ہو چکی ہے یا جان بوجھ کر مؤخر کی جا رہی ہے۔ خیبر پختون خوا میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور بلوچستان میں بی ایل اے کی متواتر کارروائیوں نے نہ صرف عوام کو عدم تحفظ کا شکار کر دیا ہے بلکہ یہ تاثر بھی گہرا کر دیا ہے کہ یہ علاقے ریاست کے کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، خاص طور پر رات کے وقت۔
یہ صورت حال اس وقت اور بھی خطرناک ہو جاتی ہے جب قومی سطح پر سیاسی اتفاقِ رائے مکمل طور پر مفقود ہو۔ وفاقی حکومت نہ صرف حزبِ اختلاف کے ساتھ کسی قسم کی سیاسی مشاورت یا مفاہمت کے لیے تیار نہیں بلکہ بدترین سیاسی انتقام کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درجنوں رہنما دہشت گردی کے مقدمات میں سزائیں بھگت رہے ہیں، سینئر قیادت جیل میں ہے، اور پارٹی چیئرمین عمران خان کے خلاف ممکنہ ملٹری ٹرائل کی خبریں گردش میں ہیں۔
اس صورتحال میں وفاقی حکومت کا طرزِ عمل شدید بے حسی اور بے اعتنائی کا عکاس بن چکا ہے۔ 5 اگست سے پی ٹی آئی کی جانب سے عوامی احتجاج کا اعلان ملک کو مزید عدم استحکام کی طرف لے جا سکتا ہے۔ یہ وقت ملک کے اندر سیاسی انتشار بڑھانے کا نہیں بلکہ اسے ختم کرنے کا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت نے حزبِ اختلاف سے مذاکرات کا وہ دروازہ ابھی تک نہیں کھولا جس کے ذریعے ایک قومی بیانیہ ترتیب دیا جا سکتا ہو — ایسا بیانیہ جو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی بنیاد بن سکے۔
ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف اس وقت مؤثر ہوتی ہے جب قومی سطح پر سیاسی ہم آہنگی موجود ہو۔ 2014 میں اے پی ایس حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان اسی سیاسی یکجہتی کا نتیجہ تھا۔ آج اگر اسی نوعیت کا اتفاق پیدا نہ کیا گیا، تو ملک کی سلامتی صرف عسکری یا پولیس آپریشنز سے یقینی نہیں بنائی جا سکتی۔
ملک اس وقت صرف دہشت گردی کے خطرے سے نہیں، بلکہ ایک خاموش مگر تباہ کن داخلی تقسیم سے دوچار ہے۔ بلوچ، پشتون، پنجابی، سرائیکی، سندھی — یہ سب محض ثقافتی شناختیں نہیں، بلکہ اب ان کی بنیاد پر سیاسی محرومیاں، سماجی شکوے اور عدم اعتماد پروان چڑھ رہا ہے۔ جب بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جب خیبر پختون خوا میں پشتون نوجوانوں کو لاپتا کیا جاتا ہے، جب بلوچوں کی لاشیں ویران میدانوں سے برآمد ہوتی ہیں اور جب اسلام آباد میں بلوچ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا دھرنا چودہ دنوں سے جاری ہو اور ان سے کوئی حکومتی نمائندہ ملاقات کے لیے نہ آئے — تو یہ سب کچھ ایک نیا المیہ جنم دیتا ہے: پاکستان کے شہریوں کے درمیان اعتماد کا انہدام۔
ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ریاست کا رویہ شہریوں کے درمیان درجہ بندی پر مبنی ہو چکا ہے۔ ایک جانب ملک کے طاقتور مراکز میں بیٹھے حکمران قانون و انصاف کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف وہی قانون ملک کے کمزور اور محروم طبقات پر استحصالی انداز میں لاگو ہوتا ہے۔ اسلام آباد پولیس کی جانب سے بلوچ مظاہرین کے ساتھ روا رکھا گیا رویہ محض بدنظمی نہیں، یہ ایک پیغام ہے — کہ اس ریاست میں کچھ آوازیں سنی جاتی ہیں اور کچھ کو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔
یہ صورتحال بی ایل اے، ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے بیانیے کو مضبوط کرتی ہے، جو ریاست کے خلاف نفرت کو منظم انداز میں پھیلا رہی ہیں۔ ان کا مقصد صرف عسکری فتح نہیں، بلکہ نسلی اور جغرافیائی بنیادوں پر قوم کو تقسیم کرنا ہے۔ اور بدقسمتی سے، ریاست کی بے حسی، عدم شفافیت اور سیاسی انتشار اس ایجنڈے کو سہارا دے رہا ہے۔
ایسے میں سب سے اہم سوال یہی ہے: کیا وفاقی حکومت اب بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف بندوقوں سے نہیں جیتی جا سکتی؟ کیا وہ یہ ماننے کو تیار ہے کہ جب تک بلوچ، پشتون، سرائیکی، سندھی اور دیگر محروم طبقات کو سیاسی، سماجی اور آئینی دائرہ کار میں باعزت مقام نہیں ملے گا، تب تک یہ جنگ داخلی طور پر ہی ہاری جاتی رہے گی؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی سطح پر فوری طور پر ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے، جس میں ان علاقوں کے عوامی نمائندوں، دانشوروں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو شامل کر کے ایک نیا قومی بیانیہ تشکیل دیا جائے۔ لاپتا افراد کے مسئلے کو فوری، شفاف اور انسانی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ طاقت کے استعمال کی پالیسی کو صرف اس وقت استعمال کیا جائے جب باقی تمام راستے ناکام ہو جائیں — نہ کہ بطورِ اوّلین حربہ۔
پاکستان کی بقا صرف سرحدوں کی حفاظت سے نہیں، اندرونی زخموں کے علاج سے ممکن ہے۔ اگر آج ہم نے یہ سچ نہ جانا اور اس پر عمل نہ کیا، تو وہ خلا جو ریاست نے پیدا کیا ہے، وہ دہشت گرد، علیحدگی پسند اور انتہا پسند قوتیں پُر کرتی رہیں گی۔ ریاستی رٹ بندوقوں سے نہیں، عدل، انصاف اور برابری سے قائم ہوتی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ یہ سچ سمجھ لیا جائے — اس سے پہلے کہ یہ تقسیم ناقابلِ واپسی ہو جائے۔

پاکستان کا صحت کا بحران: لاپروائی کی وہ قیمت جو جانیں لے رہی ہے

پانچ برس پہلے سندھ کے ضلع رتوڈیرو سے آنے والی خبر نے پورے ملک کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ سینکڑوں بچے ایچ آئی وی جیسے مہلک وائرس کا شکار ہو چکے تھے — اور اس وبا کا ماخذ ایک مقامی کلینک اور ایک لاپرواہ ڈاکٹر کی وہی پرانی عادت تھی: ایک ہی سرنج کا بار بار استعمال۔ وہ سانحہ نہ صرف ایک انسانی المیہ تھا، بلکہ ہماری صحت عامہ کی نظامی تباہی کا عریاں ثبوت بھی۔ تب امید کی گئی کہ ریاست سنجیدہ اقدامات کرے گی — کہ اسپتالوں میں اصلاحات ہوں گی، نگرانی کا نظام مضبوط ہو گا، اور صحت کے بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا جائے گا۔ لیکن پانچ سال بعد ہم ایک اور زیادہ ہولناک بحران کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی سنگینی حال ہی میں شائع ہونے والی گلوبل فنڈ کی رپورٹ سے سامنے آئی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، 2021 سے 2023 کے درمیان پاکستان میں ایچ آئی وی سے ہونے والی اموات میں 400 فیصد اضافہ ہوا — یعنی 2,200 سے بڑھ کر 11,000 تک پہنچ گئیں۔ پانچ برس میں نئے ایچ آئی وی کیسز میں 64 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، اور پچھلے سال تقریباً 70 فیصد ڈَرگ-ریزسٹنٹ ٹی بی کے کیسز کا سراغ ہی نہیں لگایا جا سکا۔ یہ اعداد و شمار محض تشویش ناک نہیں بلکہ ریاستی ناکامی کا ایک بےرحم فرد جرم ہیں۔
اس سے بھی بڑھ کر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے 2003 سے اب تک بیماریوں پر قابو پانے کے لیے عالمی اداروں سے 1.1 ارب ڈالر سے زائد امداد حاصل کی۔ یہ رقم ان ہی امراض — ایچ آئی وی، ٹی بی، ملیریا — کی روک تھام، تشخیص اور علاج کے لیے دی گئی تھی۔ لیکن یہ وسائل یا تو بدعنوانی کی نذر ہو گئے یا کمزور ادارہ جاتی نظام اور غیر مربوط پالیسیوں میں گم ہو کر بے اثر ہو چکے۔ کئی منصوبے بڑے دعوؤں سے شروع ہوئے، مگر نتائج صفر۔ مہنگا طبی آلات اسپتالوں میں بغیر تربیت یافتہ عملے کے پڑے خاک کھا رہا ہے، جان بچانے والی دوائیں دستیاب نہیں، اور بعض دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کو اب بھی ایک ہی سرنج سے مریضوں کو انجیکشن دینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے — وہی عمل جو پانچ سال پہلے سندھ میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا سبب بنا تھا۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ محض بجٹ یا وسائل کی کمی کا نہیں، بلکہ ریاستی ترجیحات کی ایک خطرناک ترتیب کا ہے، جس میں صحت ہمیشہ سب سے نیچے رہی ہے۔ دنیا جہاں تپ دق (ٹی بی) کو ختم کرنے کے قریب ہے، ہم اب بھی اس سے اموات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایچ آئی وی کی روک تھام جس سطح پر عالمی سطح پر پہنچ چکی ہے، پاکستان ابھی تک اس کی ابتدائی دیوار بھی کھڑی نہیں کر سکا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ صحت کے بحران کو محض وقتی پریشانی یا afterthought سمجھنے کے رویے کو دفن کر دیا جائے۔ صحت مند قوم ہی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے — اور جب کوئی ملک اپنی آبادی کو بیماریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے، تو وہ نہ معیشت سنبھال سکتا ہے، نہ تعلیم، نہ خارجہ پالیسی، نہ کچھ اور۔
جنوبی پنجاب، بالخصوص ڈیرہ غازی خان ڈویژن، اس وقت ایک خاموش مگر ہولناک صحت کے بحران کا سامنا کر رہا ہے، جس پر نہ میڈیا کی نظر پڑ رہی ہے، نہ ہی حکومت کی توجہ۔ اس علاقے میں کینسر اور ایچ آئی وی جیسے مہلک امراض میں مبتلا مریضوں، خاص طور پر بچوں، کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ لیکن نہ اعداد و شمار مکمل ہیں، نہ سہولیات موجود، اور نہ ہی صحت کے حکام کی جانب سے کوئی سنجیدہ ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے۔
ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفرگڑھ اور لیہ جیسے اضلاع میں غربت، ناخواندگی اور طبی سہولتوں کی قلت ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ لیکن اب اس کا نتیجہ جان لیوا بیماریوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ مقامی ہسپتالوں میں کینسر اور ایڈز کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود، نہ وہاں پر مناسب لیبارٹری سہولیات موجود ہیں، نہ ماہر ڈاکٹروں کی دستیابی، اور نہ ہی تشخیصی نظام ایسا ہے جو ان بیماریوں کا بروقت پتا لگا سکے۔
کئی علاقوں میں رپورٹ ہوئے کیسز میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بچوں کو بار بار ایک ہی سرنج سے انجیکشن لگایا گیا — وہی مجرمانہ غفلت جو رتوڈیرو جیسے سانحات کا سبب بنی۔ ان اضلاع میں بنیادی صحت کے مراکز (BHUs) اور دیہی مراکزِ صحت (RHCs) اکثر یا تو بند رہتے ہیں یا عملہ موجود ہونے کے باوجود غیر تربیت یافتہ ہوتا ہے۔ ویکسین ناپید، ادویات کا فقدان، اور مریضوں کا پرائیویٹ کلینکوں یا عاملوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جانا ایک معمول بن چکا ہے۔
سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں صحت کے معاملات کو اب بھی “مرکزی ایجنڈے” کا حصہ نہیں بنایا جا رہا۔ نہ صوبائی سطح پر اس بڑھتے ہوئے بحران پر کوئی جامع رپورٹ جاری کی گئی ہے، نہ ہی نیشنل ہیلتھ سروسز کی جانب سے کوئی ہنگامی اقدام سامنے آیا ہے۔ مقامی سطح پر نہ کوئی موبائل تشخیصی یونٹ موجود ہے، نہ کوئی جدید کینسر سینٹر یا ایڈز ٹریٹمنٹ فسیلٹی۔ اس خلا میں صرف بیماری پنپتی ہے، اور علاج محض خواب بن کر رہ جاتا ہے۔
یہ علاقہ پہلے ہی ماحولیاتی آلودگی، غذائی قلت، اور غیر معیاری پینے کے پانی جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ جب ان عوامل کے ساتھ صحت عامہ کے اداروں کی غفلت بھی جڑ جائے، تو پھر مہلک بیماریاں نہ صرف پھیلتی ہیں بلکہ نسل در نسل منتقل ہونے لگتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، بچوں میں خون کی کمی، جگر کے امراض اور جلدی بیماریاں بھی عام ہوتی جا رہی ہیں — جن کا تعلق نہ صرف غربت سے ہے، بلکہ ریاستی عدم توجہ سے بھی ہے۔
یہ صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جنوبی پنجاب کو فوری طور پر صحت عامہ کی ہنگامی مداخلت کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ یہاں ایڈز اور کینسر کے مریضوں کے درست ڈیٹا کے لیے ایک جامع سروے کیا جائے، اور فوری طور پر اسپیشلائزڈ مراکز قائم کیے جائیں جہاں مفت اور معیاری علاج کی سہولیات دستیاب ہوں۔ ساتھ ہی، عوامی آگاہی مہمات بھی ناگزیر ہیں تاکہ بیماریوں کی روک تھام ممکن ہو سکے۔
اگر یہ سب اقدامات نہ کیے گئے تو ہم آنے والے برسوں میں ایک ایسا انسانی بحران دیکھیں گے جس کا دائرہ صرف ڈیرہ غازی خان تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ صحت کا بحران سیاسی وعدوں سے نہیں، عملی اقدامات سے حل ہوتا ہے — اور اب وقت آ گیا ہے کہ جنوبی پنجاب کو بھی وہ توجہ دی جائے جو ایک ریاست اپنے محروم ترین شہریوں کو دینے کی آئینی اور اخلاقی طور پر پابند ہے۔
پاکستان کے صحت کے بحران کی شدت اب کسی ایک علاقے، ایک بیماری یا ایک واقعے تک محدود نہیں رہی — یہ ایک قومی المیہ بن چکا ہے۔ ایچ آئی وی، ٹی بی، ملیریا، کینسر، ہیپاٹائٹس، ڈینگی — ان سب امراض کی بڑھتی ہوئی شدت نہ صرف نظامِ صحت کی ناکامی کو بے نقاب کر رہی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کر رہی ہے کہ ہم اب بھی صحت کو قومی ترجیحات میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں صحت کے شعبے کو مستقل، سنجیدہ اور مربوط پالیسی کے تحت نہیں چلایا گیا۔ ہر حکومت نے وقتی اعلانات، وقتی اسکیموں اور فنڈنگ کے اعداد و شمار کو “ترقی” کے پردے میں پیش کیا، لیکن کوئی ایسا قومی لائحۂ عمل تشکیل نہیں دیا گیا جو بیماریوں کی روک تھام، تشخیص، علاج اور فالو اپ کے تمام پہلوؤں پر محیط ہو۔ نہ وفاقی سطح پر کوئی مستقل Public Health Authority مؤثر طریقے سے کام کر رہی ہے، نہ صوبوں میں صحت کی وزارتوں کے پاس وہ اختیارات، وسائل یا صلاحیت ہے جو اس بحران سے نمٹنے کے لیے درکار ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر: سیاسی قیادت کا عزم۔ جب تک وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، اور اسمبلی کے منتخب نمائندے صحت کو صرف ایک وزارت سمجھنے کے بجائے ایک قومی فریضہ نہیں بنائیں گے، تب تک اصلاحات کاغذوں میں رہیں گی اور اموات زمین پر۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ صحت صرف ایک شعبہ نہیں، بلکہ قومی بقا کی بنیاد ہے۔ ایک بیمار قوم نہ تعلیم حاصل کر سکتی ہے، نہ ترقی، نہ انصاف اور نہ ہی امن قائم رکھ سکتی ہے۔ جب ریاست ایک معمولی سی بیماری کا علاج فراہم کرنے سے قاصر ہو، تو وہ اپنے شہریوں کو تحفظ دینے کے دعوے کس منہ سے کرتی ہے؟
پاکستان آج جس موڑ پر کھڑا ہے، وہاں سے آگے صرف دو راستے ہیں: یا تو ہم فوری طور پر صحت کو قومی ایمرجنسی قرار دے کر عملی اقدامات کریں، یا پھر اس زوال کو معمول سمجھ کر وہ جانیں گنواتے رہیں جو بچائی جا سکتی تھیں۔
اب بھی وقت ہے — مگر وقت کم ہے۔

قرضوں کے سہارے معیشت: کب تک؟

پاکستان کی معیشت ایک بار پھر بیرونی قرضوں کے سہارے رواں مالی سال 2025 میں اپنی سانسیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اقتصادی امور ڈویژن (EAD) کی جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، جولائی 2024 سے جون 2025 کے دوران پاکستان کو بیرونی ذرائع سے 12.4 ارب ڈالر موصول ہوئے، جس میں صرف جون کے مہینے میں متحدہ عرب امارات اور چین کے کمرشل بینکوں سے حاصل کردہ 3.4 ارب ڈالر شامل ہیں۔ یہ صورتحال وقتی ریلیف تو فراہم کرتی ہے، لیکن معیشت کی طویل مدتی خودمختاری پر سنجیدہ سوالات اٹھاتی ہے۔
حکومت نے اس سال 3.77 ارب ڈالر کا بجٹ تخمینہ لگایا تھا، مگر 4.29 ارب ڈالر حاصل کیے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متوقع سے زیادہ قرضے لیے گئے، مگر تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ان قرضوں پر لاگو شرح سود اور ادائیگی کی مدت عوام سے خفیہ رکھی گئی ہے۔ اگرچہ ایک بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی کی جانب سے پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری آئی ہے، مگر آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ اندرونی و بیرونی خطرات پاکستان کی معاشی “مستحکم پیش رفت” کو تیزی سے ختم کر سکتے ہیں۔
نیا پاکستان سرٹیفکیٹ کے ذریعے 1.9 ارب ڈالر حاصل ہوئے، جبکہ مجموعی طور پر کمرشل قرضوں، دوطرفہ و کثیر الجہتی ذرائع اور سرٹیفکیٹس کے ذریعے 11.65 ارب ڈالر کی رقم سامنے آئی۔ تاہم EAD کی کل رقم 12.13 ارب ڈالر دکھائی گئی، جو کہ اعداد و شمار میں تضاد کو ظاہر کرتی ہے۔ وقتاً فوقتاً اس قسم کی غیر شفافیت پاکستان کے لیے قرض دہندگان کے اعتماد کو متزلزل کر سکتی ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں