آج کی تاریخ

رواں ماہ اوپرتلے ٹرین حادثات، ریلوے افسرشاہی کی کارکردگی پرسوالیہ نشان

ملتان(واثق رئوف)رواں ماہ اوپر تلے ٹرین حادثات نےلاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے والےریلوے افسر شاہی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان پیدا کردئیے ہیں۔ ماضی میں قومی بچت میں حصہ شامل کرنے والا ادارہ اس نہج کو پہنچ گیا ہے کہ رواں ماہ اگست کے دوران ایک مال برداراور4مسافر ٹرینیں حادثات کا شکار ہوچکی ہیں ۔حادثات میں ایک مسافر جاں بحق جبکہ 50کےقریب زخمی ہوئے ہیں۔کراچی سے پشاور ڈویژن تک حادثات کے پھیلائو نے مسافروں کو خوف زدہ کرکے رکھ دیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اگست کی پہلی تاریخ ہی ریلوے کےلئے اچھی ثابت نہ ہوئی یکم اگست کوکالا شاہ کاکو کے مقام پر لاہور سے راولپنڈی کے لئے جانے والی اسلام آباد ایکسپریس کی5بوگیاں ریلوے ٹریک سے اتر گئیں تھیں کروڑوں روپے بوگیوں کے نقصان کے ساتھ متعدد مسافر زخمی بھی ہوگئے تھے۔8اگست بھی لاہور ڈویژن پر بھاری ثابت ہوا فیصل آباد اسٹیشن پر مال بردار ٹرین حادثہ کا شکار ہوگئی متعدد بوگیاں ریلوے ٹریک سے اتر گئیں۔مذکورہ حادثہ کے صرف دو روز بعد ہی10اگست کو پشاور سے کراچی جانے والی عوام ایکسپریس کی دو بوگیاں خانپور ریلوے اسٹیشن پر ریلوے ٹریک سے اتر گئیں اگلے ہی روز 11اگست کولاہور سے ملتان کے لئے آنے والی موسی پاک کا انجن اور دو بوگیاں رائے ونڈ ریلوے اسٹیشن پر ریلوے ٹریک سے اتر گئیں جبکہ17اگست لودھراں میں پشاور سے کراچی کے لئے جانے والی عوام ایکسپریس حادثہ کا شکار ہوئی5بوگیاں ریلوے ٹریک سے اترنے کے بعد الٹ گئیں ایک مسافر جاں بحق جبکہ28کےقریب زخمی ہوگئے ریلوے زرائع کا کہنا ہے کہ ریلوے میں اس وقت ائیر کنڈیشن باتھ رومز، بلڈنگز،الیکٹرک سیڑھیاں بنانے پر تو توجہ دی جارہی ہے جبکہ آپریشنل انفراسٹرکچر ریلوے،ٹریکس،بوگیوں،سگنل سسٹم انجنوں پر توجہ نہیں دی جارہی ڈویژنل افسران میں اخلاقی جرت نہیں کہ ریلوے کے اعلیٰ افسران کے سامنے انفراسٹرکچر کی موجودہ صورتحال پر کھل کر اظہار خیال کر سکیں جس کی وجہ سے نوبت دن بہ دن مزید خراب ہورہی ہے۔افسران لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ اور مراعات کی مد میں وصول تو کر رہے ہیں مگر اپنی زمہ داریوں سے چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے حادثات کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے جبکہ رواں ماہ اگست میں صورتحال انتہائی خطرناک ہوگئی ہے۔اس صورتحال پر ریلوے مسافروں ریلوے ملازمین نے تشویش کا اظہار کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ 1980ء سے قبل یہی پاکستان ریلوے تھا جس سے حاصل آمدن قومی بچت کا حصہ بنتی تھی انہوں نے وفاقی حکومت اور دیگر زمہ داران سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر ریلوے کے آپریشنل انفراسٹرکچر پر توجہ دے کر اس سے اپ گریڈ کیا جائے تاکہ حادثات کا تدارک ہو سکے اور دوبارہ سے مسافروں کا اعتماد حاصل کیا جاسکے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں