آج کی تاریخ

آئی ایم سے نیا قرضہ لینے کا چیلنج

رمضان پیکج

نگران حکومت نے رمضان پیکج کا آغاز 4 مارچ سے کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ یعنی رمضان شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل تمام رعایتی اشیاء یوٹیلٹی اسٹورز پر دستیاب ہونے کو یقینی بنایا جائے گا- منتخب حکومت جو 4 مارچ سے پہلے تشکیل پانے کی امید کی جا رہی ہے ان کی کوشش ہوگی کہ وہ اس کا اعلان کریں- لیکن انہیں اس سے جڑے دو عوامل کی یاد دہانی بہت ضروری ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان میں چاہے جمہوری حکومت ہو یا فوجی حکومت ، یہ معمول رہا ہے کہ وہ بجٹ میں رمضان پیکج کے لیے رقم مختص کرتے ہیں- موجودہ مالیاتی سال کا بجٹ سابقہ قومی اسمبلی نے 23 جون 2023ء کو منظور کیا تھا جبکہ 29 جون 2023ء کو پی ڈی ایم کی حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ایک اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت 3 ارب ڈالر کے قرض کا معاہدہ کیا جس کی بنیاد کئی ایک سخت شرائط پر تھیں اور اس کے مطابق بجٹ میں پہلے سے کئی ترامیم کی جاچکی تھیں- اور اس ترمیم شدہ بجٹ کی کو پی ڈی ایم جماعتوں کی حمایت حاصل تھی- پی ٹی آئی کے اراکین اس کے پابند نہ تھے کیونکہ وہ استعفے دے کر جاچکے تھے۔
ترمیمی بجٹ میں رواں مالیاتی سال کے لیے رمضان پیکج کی مد میں 5 ارب روپے رکھے گئے تھے- اور اتنی ہی رقم ایک سال پہلے کزشتہ بجٹ میں خرچ کی جا چکی تھیں- لیکن بجٹ میں مختص کردہ رقم کے برعکس نگران وزیر خزانہ کی صدارت میں اقتصادی تعاون کمیٹی / ای سی سی نے 19 بنیادی اشیائے ضرورت پر 7 ارب 49 کروڑ 20 لاکھ روپے کی سبسڈی دی جانے کی منظوری دے ڈالی جوکہ بجٹ میں مختص کردہ رقم سے 2 ارب 49 کروڑ 20 لاکھ روپے زائد ہے۔ اور یہ رقم یوٹیلٹی اسٹورز کے زریعے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ان رجسٹرڈ خاندانوں کو قاغدہ پہنچانے میں خرچ ہوگی جن کا غربت انڈیکس میں پی ایم ٹی 60 یا اس سے کم ہے۔
بجٹ میں مختص رقم سے زیادہ رقم کی وجہ شاید بلند افراط زر ہے جو بجٹ کی مںطوری کے وقت 21 فیصد تھا اور جب اضافے کا فیصلہ ہوا تو اس وقت حساس قیمتوں کا انڈیکس 36ء6 فیصد اور کنزیومر پرائس انڈیکس 28ء3 فیصد تھا-
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ پچھلی منتخب حکومتوں، بشمول سولہ ماہ طویل مخلوط حکومت اور نگرانوں نے مہنگائی کی مسلسل بلند شرح کا الزام یا تو اپنے سیاسی مخالفین یا آئی ایم ایف پروگرام پر ڈالا ہے، خاص طور پر جس میں اتفاق کیا گیا تھا۔ 2019 جس نے پچھلے پروگراموں کی طرح یوٹیلیٹی کمپنیوں کی مکمل لاگت کی وصولی کو پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا، لیکن، پچھلے پروگراموں کے برعکس، فنڈ نے مزید مرحلہ وار طریقہ کار پر اتفاق کرنے کی حکومت کی درخواست سے انکار کر دیا کیونکہ فنڈ کے ساتھ متفقہ ساختی اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے پاکستان کی ساکھ تھی۔ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.
پریشان کن بات یہ ہے کہ انتظامیہ کے بعد انتظامیہ یوٹیلیٹی ریٹ میں اضافے کے ساتھ ساتھ یوٹیلٹیز پر بھاری ٹیکس لگا کر فنڈ کی طرف سے مقرر کردہ ریونیو کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسے بے بس عوام پر منتقل کر کے مکمل لاگت کی وصولی کا مقصد حاصل کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ ساختی اصلاحات کو نافذ کرنے کے بجائے، خاص طور پر گورننس اصلاحات جن کا مقصد بدعنوانی اور نااہلی کو کم کرنا ہے، یہ رجحان آج تک جاری ہے۔ اس کے علاوہ نگراں حکومت نے اپنے منتخب پیشروؤں کی طرح مقامی مارکیٹ سے قرض لینے پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے جس کی وجہ سے: (i) نمو پر منفی اثرات کے ساتھ نجی شعبے کے قرضے لینے سے باہر نکلنا، اور (ii) دوبارہ انجکشن قرضہ لیا گیا پیسہ اپنے موجودہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے معیشت میں واپس لایا جاتا ہے، جس کی پشت پناہی پیداوار میں اضافے سے نہیں ہوتی، یہ ایک انتہائی افراط زر کی پالیسی ہے۔
جب کہ کوئی حکومت پر زور دے سکتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے چوکس رہے کہ رمضان پیکج کی سبسڈی غریب بی آئی ایس پی مستفیدین کے لیے ہی رہے گی اور معاشرے کے امیر طبقوں کے ذریعے اسے ہائی جیک نہیں کیا جائے گا، پھر بھی ایک زیادہ مشورہ دینے والی پالیسی موجودہ اخراجات میں کمی کے ذریعے مہنگائی کو کم کرنا ہو گی۔ کسی بھی رمضان سبسڈی سے کہیں زیادہ مہنگائی کے مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرکے عوام کو فائدہ پہنچانا۔

اسد طور کی گرفتاری: صحافت پابند سلاسل کب تک

اسلام آباد میں مقیم صحافی اسد طور کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے 5 روزہ جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی تحویل میں دے دیا- ایف آئی اے پی ٹی آئی کی انتخابی نشان سے محرومی کے خلاف عدالت کو دی گئی درخواست مسترد ہونے کے بعد سماجی رابطے کی ایپ ‘ایکس’ پر چلنے والی عدلیہ کی کردار کشی کی مبینہ مہم بارے تحقیقات کررہی ہے – اس سلسلے میں درج ایک مقدمے میں بطور ملزم صحافی اسد طور کو بھی نامزد کیا گیا تھا-
صحافی اسد طور کی ایف آئی اے نے جن حالات میں گرفتاری کی اس نے ایف آئی اے کی جانب سے شفاف تحقیقات بارے شبہات بڑھ گئے ہیں اور اس سے یہ تاثر بھی ملا ہے جیسے نادیدہ طاقتور حلقے ایف آئی اے پر دباؤ بنائے ہوئے ہیں کہ وہ اختلافی آواز کے حامل صحافیوں کو چپ کرانے کے لیے اقدامات اٹھائے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایف آئی اے نے صحافی اسد طور کو تفتیشش کے بہانے بلا کر گرفتار کیا جبکہ اٹارنی جنرل پاکستان نے گزشتہ ماہ سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ جب عام انتخابات کا پراسس مکمل نہیں ہوجائے گا تب تک جن صحافیوں کو مذکورہ مقدمے میں نوٹس بھیجے گئے ہیں ان کے خلاف ایف آئی اے ایکشن نہیں لے لے گی اور اس پر عدالت نے درخواست کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی تھی- ان کی وکیل اور اہل خانہ کے مطابق اٹارنی جنرل پاکستان کی طرف سے سپریم کورٹ کو یا تو غلط یقین دہانی کرائی یا پھر ایف آئی اے نے عدالت کو کرائی یقین دہانی کا احترام کرنا ضروری نہ سمجھا- یہ بات بھی مد نظر رہے کہ صحافی اسد طور ایف آئی اے کے سمن جاری کرنے پر لاہور ہائیکورٹ سے ایک حکمنامہ لیکر آیف آئی اے کے دفتر گئے جس میں ایف آئی اے کو صحافی ہراساں کرنے سے روکا گیا تھا- لیکن ایف آئی اے نے بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے ہائی کورٹ کی واضح ہدایات کو بھی نظر انداز کردیا- اس ساری تفصیل سے اسد طور سمیت جن صحافیوں کے خلاف ایکس ایپ پر عدلیہ کے خلاف مہم چانے کے الزام میں مقدمہ غیر شفاف اور ان میں ایک صحافی کی گرفتاری کے لیے جس طرح سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے احکام کو پس پشت ڈالا اور انہیں بلاکر جیسے گرفتار کیا گیا اس سے پاکستان میں صحافت کو مزید جکڑنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
ہم یہاں پر بخوبی سمجھتے صحافیوں کو اسد طور کی گرفتاری اور اور ان کا 5 روز کا جسمانی ریمانڈ آزادی صحافت پر حملہ ہے۔ اسد طور کو ایف آئی اے نے پہلی بار گرفتار نہیں کیا ہے – وہ اس پہلے بھی گرفتاری دے چکے ہیں – پہلی بار ان کی گرفتاری کے وقت بھی ایف ائی اے کو ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا تو وہ انہیں رہا کرنا پڑا تھا-
پاکستان میں صحافیوں کو ایسی خبروں کو فائل کرنے ، سوالات اٹھانے اور آواز بلند کرنے سے روکنے کے لیے ریاستی مقتدرہ میں اہم عہدوں پر بیٹھے لوگ ماضی میں بھی ایسے روکنے کی کوشش کرتے رہے جس سے ایسا سچ عیاں ہورہا ہوتا جسے مقتدرہ چھپانے کی خواہش مند تھی- آج بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔
اسد طور کی گرفتاری اور جسمانی ریمانڈ ایسے موقعہ پر رونما ہونے والے واقعات ہیں جب ملک میں عام انتخابات کا اگلا مرحلہ شروع ہے اور انتقال اقتدار کے آحری لمحات سر پر آن پہنچے ہیں- لیکن ایسے واقعات سے ایسے لگ رہا ہے جیسے ہائبرڈ سسٹم میں غیر منتخب مقتدرہ ابھی طاقت ور ہو اور ایسے غیرمتوازن نطام میں انتخابات سے قانون کی حکمرانی کی امید کرنا عبث ٹھہرگیا ہو۔
اسد طور کی گرفتاری جن حالات و واقعات میں ہوئی اس نے انسانی حقوق کے انتہائی موقر اداروں کو بھی اظہار تشویش کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے اس طرح کی گرفتاریوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور ساتھ ہی جس ایکٹ کے تحت یہ گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے اسے پریشان کن ایکٹ قرار دیتے ہوئے اس ایکٹ کی گئی ایک شقوں میں بدلاؤ لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے قائم عالمی تنظیم سی پی جے نے گرفتاری کی مذمت کی اور اسد طور کو فی الفور گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان بھی اس طرح کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے آزادی صحافت پر براہ راست حملے سے تعبیر کیا ہے۔
پاکستان میں دن بہ دن یہ تاثر بڑھتا جا رہا ہے کہ یہاں آئین و قوانین کے اندر دی گئی نقل و حمل کی آزادی، رائے کے اظہار کی آزادی، پرامن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جلسے جلوس کرنے کی آزادی جیسے بنیادی انسانی حقوق کی آئینی و قانونی ضمانتوں کے دائرےسے ایسے صحافیوں، سیاسی کارکنوں ، سماجی کارکنوں اور ادیبوں کو خارج قرار دیا جارہا ہے جو سٹیٹس کو پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ایسی منحرف آوازوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا۔ جمہوریت پسند سیاسی حلقوں کو سوچنا پڑے گا کہ آیا کہ وہ پریس کو یونہی ڈر اور خوف کے ماحول میں سانس لینے دیں یا اسے جبر و استبداد سے نجات دلانے میں اپنا سا کردار ادا کریں۔

آئی ایم سے نیا قرضہ لینے کا چیلنج

بلومبرگ نے نام ظاہر نہ کرنے والے حکام کے حوالے سے گزشتہ ہفتے رپورٹ کیا کہ پاکستان اپنی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت آئی ایم ایف سے تین سال کی مدت کے لیے 6 بلین ڈالر کا نیا قرض حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ نئی سہولت پر قرض دہندہ کے ساتھ بات چیت مارچ یا اپریل میں شروع ہونے کی توقع ہے، جاری نو ماہ کے تین بلین ڈالر
اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے آخری جائزے کی تکمیل کے بعد۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مؤخر الذکر انتظامات، جو جلد ختم ہونے والا ہے، نے گزشتہ موسم گرما میں ملک کو ڈیفالٹ سے بچنے میں مدد فراہم کی تھی۔ تاہم، پاکستان کے دیگر قرض دہندگان – کثیر جہتی، دو طرفہ، اور تجارتی شامل ہیں – اس طرح موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود، اس کے سکڑتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے اور اس کے بیرونی شعبے کے نقطہ نظر کو بہتر بنانے میں قوم کی مدد کرنے سے گریزاں ہیں۔ ان کی ہچکچاہٹ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ موجودہ مالی سال کے پہلے سات مہینوں میں جنوری سے لے کر جنوری تک صرف 6.3 بلین ڈالر، یا 17.6 بلین ڈالر کے سالانہ بجٹ ہدف کا 35.75 فیصد حصہ ہی پورا ہوا ہے۔ لیکن یہ غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ غیر ملکی قرض دہندگان منتخب حکومت کے تحت درمیانی سے طویل مدتی اصلاحات کی پالیسی کی وضاحت کے لیے اسلام آباد اور فنڈ کے درمیان بڑے اور طویل انتظامات کا انتظار کر رہے ہیں۔ تین سرفہرست عالمی درجہ بندی کرنے والی ایجنسیوں میں سے دو، موڈیز اور فِچ نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ ایک بڑاچیلنج ادائیگیوں کے توازن کے لیے ائی ایم ایف سے ہٹ کر بھی 22 سے 25 ارب ڈالر دیگر عالمی ڈونرز سے لینے کی ضرورت کا ہے۔
آئی ایم ایف کے ایک ترجمان نے حال ہی میں کہا کہ فنڈ، اگر درخواست کی جائے تو، پاکستان کے مالیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک نئے انتظام کے ذریعے انتخابات کے بعد کی حکومت کی مدد کے لیے تیار ہے۔ اس کے باوجود، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حکام نے عالمی قرض دہندہ کے ساتھ اس معاہدے کے تیزی سے نتیجہ اخذ کرنے کے لیے اپنا ہوم ورک کرنا شروع کر دیا ہے – جس کا بل موجودہ سے زیادہ سخت ہے۔ حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ جاری قرض کے تحت آئی ایم ایف کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے عوامی اخراجات میں کمی، کارپوریٹس اور تنخواہ دار افراد پر اضافی ٹیکس عائد کرنے، قرض لینے کے اخراجات میں اضافہ، توانائی کی شرحوں میں اضافہ وغیرہ کے لیے متعدد اقدامات سے اتفاق کرے۔ ڈالر کے بہاؤ کو روکنے کے لیے غیر اعلانیہ درآمدی کنٹرول کے ساتھ مل کر، ان اقدامات نے معیشت کو سکڑایا اور قیمتوں میں افراط زر کو برقرار رکھا، جس سے کم متوسط آمدنی والے گھرانوں کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آنے والا اقلیتی سیٹ اپ آئی ایم ایف کے فنڈز حاصل کرنے کے لیے کس حد تک تیار ہوگا۔ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ملک کی کمزور بیرونی پوزیشن اور معیشت کو مستحکم کرنے اور بڑھنے کے لیے اپنے کثیرالجہتی اور دوطرفہ شراکت داروں سے مالی اعانت حاصل کرنے کی ضرورت کے پیش نظر، آخری حربے کے قرض دہندہ کے ساتھ نمٹنے کے لیے اس کے پاس ہتھکنڈوں کی زیادہ گنجائش نہیں ہوگی۔ اس کے بڑھتے ہوئے قرض پر نادہندہ ہونے سے بچیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ نئی حکومت کے پاس مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا، چاہے سیاسی قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں