

نوٹ: یہ کالم میں نے رفعت عباس کے سابق تحریک انصاف کی ایک ایسی حکومت کے دور میں صدارتی ایوارڈ لینے پر لکھا تھا جو عوام کے ووٹ کی توہین اور تذلیل کرکے بنائی گئی تھی جسے ‘آر ٹی ایس’ حکومت کہا جاتا تھا ۔ آج جو حکومت ہے وہ اس سے بھی گئی گزری ہے۔ نہ سابقہ حکومت کے کٹھ پتلی وزیراعظم عمران خان نے آج تک ‘جعلی’ اور ‘غیر منتخب ‘ حکومت قائم کرنے پر معافی مانگی لیکن وہ جاہتے ہیں کہ انھیں ‘عوام کو طاقت کا سرچشمہ ‘ ماننے والا واحد مزاحمتی ‘مہاتما’ مان لیا جائے۔ اور نہ ہی موجودہ حکومت کرنے والے اور اسے بیساکھیاں فراہم کرنے والے شرمندہ ہیں۔ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ انہیں جمہوریت اور عوامی بالادستی کے علمبردار مان لیا جائے۔ ادب و سیاست اور سماج کے سنجیدہ اور آزاد روش رکھنے والے طالب علم کے لیے سب سے مشکل اور انتہائی کٹھن مرحلہ اپنے محبوب و ممدوح شاعر، ادیب، سیاست دان اور دانشور کی کج روئی پر تنقید کرنا ہوتا ہے۔ رفعت عباس کو آج بھی ان کے اپنے وسیب میں ‘اوسط ذہانت’ کے مالک شاعروں اور ادیبوں کی جانب سے ان ‘اوصاف’ کے سبب تنقید کا سامنا ہے جو اس کے وسیب کی عوام کے لیے باعث فخر ہونے بنتے ہیں- وہ سرائیکی وسیب کا شیخ ایاز ہے۔ اسے ہم بنگالی شاعر ‘نذر الاسلام’ کے برابر رکھ سکتے ہیں ۔ وہ سرائیکی خطے کے ‘ناظم حکمت’ ، ‘محمود درویش’ ،’پابلو نرودا’ کہے جاسکتے ہیں۔ (عامر حسینی )
مجھے “بھوندی بھوئیں تے” جیسی نظموں کے خالق کی بے وقت ادبی موت پر انتہائی دکھ اور ملال ہے جس نے اپنی ادبی موت سے پہلے اپنی شاعرانہ اور ادیبانہ روح پر ایک ایوارڈ سے قاتلانہ کارگر حملے کیے اور ان سب کو سنبھلنے کا موقعہ دینے سے پہلے فنا کے گھاٹ اتار دیا۔ میں پورے سرائیکی وسیب سے تعزیت کرتا ہوں۔ کل میں نے خواب میں شمیم عارف قریشی کو دیکھا وہ حزن و ملال کا پیکر بنے بیٹھے تھے اور مجھ سے کہنے لگے،”چلو مجھ میں تو حسن اور حکومت سے براہ راست لڑنے کی سکت نہ تھی مگر یہ رفعت عباس کو کیا ہوگیا؟”
اندرا گاندھی نے جب ایمرجنسی لگائی ، صحافت ، سیاست، جمہوریت ، تحریر و تقریر کی آزادی کو پابند سلاسل کیا تو کیفی اعظمی بیمار پڑے تھے ان تک جب یہ خبر پہنچی کہ کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کی قیادت نے اس اقدام کی حمایت کی ہے تو انہیں ایسے لگا جیسے انہیں زندہ گاڑ دیا گیا ہو – اس پرانہوں نے شعر کی زبان میں یوں کہا
بیلچے لاؤ ، کھولو زمین کی تہیں
میں کہاں دفن ہوں کچھ پتا تو چلے
میں نے جب پہلی بار وہ ویڈیو دیکھی تو پہلے پہل اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا- زور سے ہاتھوں سے آنکھیں ملیں اور ایک بار اپنے نظر کے چشمے کو بھی مخملیں کپڑے سے صاف کیا- امید تھی جو دیکھنے میں آرہا ہے وڈیو میں نظارہ وہ نہ ہو- لیکن منظر وہی تھا جو مجھے نظر آرہا تھا۔ آپ دربار میں کھڑے اور ایک جواز سے محروم حکومت کے بنائے صدر سے “حسن کارکردگی ” پر “صدارتی ایوارڈ” لے رہے تھے۔ زمین مجھے گھومتی محسوس ہورہی تھی ، مگر حرکت معکوس کے ساتھ ، اس طرح نہیں جیسے میں نے آپ کی نظموں کی کتاب “بھوندی بھوئیں تے” میں اسے گھومتے دیکھا – آپ والتئیرکو پیرس سے کھینچ کر ملتان لانا چاہتے تھے اور اسے ملتان کے درو دیوار دکھانا چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ وہ پیرس کے ریلوے اسٹیشن پر یا بندرگاہ سے نوآبادیاتی کالونیوں سے لوٹ مار کرکے لائے جانے والے مال کے پیچھے چھپے ان المیوں کو دیکھنے والی نظر پالے جو اس لوٹ مار کے دوران رونما ہوئے تھے – بلکہ آپ تو اسے مزید ہزاروں سال پیچھے لیجاکر ملتان کی قدامت اور اس پر حملہ آوری، قبضہ گیری ، قتلام ، بار بار جلائے جانے اور برہا و مونجھ میں ڈوبے اس کے باشندوں کے بار بار حیات نو پانے کے عمل کو دکھانے کے خواہش مند تھے۔ اور ہم سب خوش تھے کہ سرائیکی خطے کو اس کاایشوبے مل گیا ہے جو شاعری اور فکشن میں اس خطے کی صدیوں کی “ٹوٹ پھوٹ” کو ایک قصّے ، داستان، ناول ، نظم اور رمزیے کی شکل میں ہمیں سنارہا ہے۔ اور وہ خلق خدا اور ظالم کی حکومت کے درمیان فرق کررہا ہے۔ وہ عوام کے اندر “رب” کو واپس لانے کے لیے “کافیوں” کے منتر پڑھ رہا ہے – وہ رب کو بستی میں واپس لانے کے جتن کررہا ہے۔ “پروبھرے اک شہر اچوں” جیسی طویل نظم ، سرائیکی لوک حکایات کی تشکیل نو اور منور آکاش کے ساتھ مقامیت پر طویل مکالمے میں کیا کہہ رہا تھا؟ وہ آمروں، آمریت کے گملوں میں اگے سیاست دانوں، نوآبادیاتی باقیات /وردی بے وردی بابو شاہی ، سرکاری مذہب ، سرکاری ملاں، سرکاری دانشوروں ان سب کے گرد کھڑے عظمت کے مہابیانیوں کی ڈی کنسٹرکشن/رد تشکیل کررہا تھا- یہ ایک ایسی حسن کارکردگی تھی جس پہ وہ عوام سے داد کے مستحق تھے۔ خلق خدا کی تعریفوں کے مستحق تھے لیکن “صدارتی ایوارڈ ” لینا ہرگز نہیں بنتا تھا- یہ تو سیاسی جواز سے محروم ایک ایسی حکومت ہے جو فسطائی بننے کی پوری کوشش کرتی ہے جو طالبان، القاعدہ سمیت عالمی اور مقامی دہشت گردوں کے لیے عذر تلاش کرتی ہے اور نوآبادیاتی باقیات کے نوکر شاہی ڈھانچوں پر قابض گدھوں کے بوٹ چاٹتی ہے اگر آپ یہ ایوارڈ پی پی پی کے دور حکومت میں بھی لیتے اور ایوارڈ دینے والا کوئی پی پی پی کا ایسا جیالا کیوں نہ ہوتا جس نے ضیاء الحق کے مارشل لاء میں شاہی قلعے کی جیل کاٹی ہوتی ، کوڑے کھائے ہوتے یا فرض کرلیتے ہیں وہ صدرادریس طوطی یا ایاز سموں کی بہن ہی کیوں نہ ہوتی تب بھی میں آپ کو اس ایوارڈ لینے پر شرم دلاتا- کیوں ؟ کیا آپ “پوجا کماری ” کو نظر انداز کردیتے؟ کیا آپ آصف علی زرداری سے یہ سوال نہ اٹھاتے کہ بھئی یہ عبد الحفیظ بلوچ / دین محمد بلوچ/ شبیر بلوچ اور ان جیسے اور دیگر ہزاروں جبری گمشدہ وفاق میں آپ کی حکومت ہوتے ہوئے کیوں ہیں؟ اگرحامد میر کی جیو میں نوکری بحال ہوسکتی ہے تو پھر علی وزیر جیل میں کیوں بند ہے؟ ایک عوامی سیاست دان کے پاس ہزاروں حیلے اور ہزاروں جواز ہوتے ہیں لیکن ایک آزاد دانشور/ شاعر/ ادیب ان حقیقتوں کو سیاست دانوں کی طرح “مصلحت” کا تقاضا قرار نہیں دیتا – وہ یہ سوال اٹھاتا رہتا ہے۔ آپ کے پاس تو بہت آسان جواز تھا دربار سے ایوارڈ لینے سے انکار کرنے کا – آپ کہتے کہ جب تک آپ کے خطے کی قومی شناخت وفاق نہیں دیتا، آپ نے ایسے وقت میں اس حکومت سے یہ ایوارڈ لیا جس نے “پنجابی کلچر ڈے ” پورے بندوبست پنجاب میں سرکاری سطح پر منایا اور اس کلچر میں اس نے پورے سرائیکی خطے کے کلچر اور اس کی سرائيکی شناخت کو ضم کردیا- آپ اسے ہی ایوارڈ نا لینے کا بہانا بنا ڈالتے۔ اور کوئی حیلہ ہاتھ نہیں آیا تھا تو عارف علوی کے جاری کردہ “پیکا آرڈیننس ” کو ہی جواز بنالیتے۔ پشاور کوچہ رسالدار میں ہوئی شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی کو بہانہ بنالیتے۔ اور کچھ نہیں تو اس حکومت کی جنرل فیض حمید کے ہاتھوں پر بیعت کو عذر بنالیتے۔ سانحہ ساہیوال کے ذمہ داروں کو کیفردار تک نہ پہنچانے کو حیلہ بنالیتے۔ صدر عارف علوی کے سامنے شرط رکھ دیتے کہ وہ پہلے بلوچوں سے معافی مانگیں تب ان کے ہاتھوں سے ایوارڈ لینے کا سوچا جاسکتا ہے۔ تین ماہ سے بند تلیری نہر مظفرگڑھ کی بندش کو بہانہ بنالیتے- چولستان سمیت سرائیکی وسیب کی زمینوں پر ہونے والے قبضوں کو ایوارڈ نہ لینے کا جواز بنالیتے۔ بہت سارے راستے کھلے پڑے تھے اسلام آباد کے دمشق میں دارالامارات /ایوان صدر سے راہ فرار اختیار کرنے اور یوں آپ وقت کے ایک یزید سے ہاتھ ملانے کی بدعت سے بچ جاتے۔ آپ “مکھ آدم دا ” میں کہی ہوئی کافیاں بھول گئے؟ اور تو اور “نمک کا جیون گھر” ناول کے کردار “لونکا ” کو ہی بھول گئے۔ آپ کے پاس تو دربار میں “عزت اور وقار” کے ساتھ جانے کا ایک اور طریقہ بھی تھا ۔۔۔۔۔۔ جوکر/ نقلی /بھانڈ بن کر جانے کا ، آپ ایسے گئے ہوتے تب بھی بات سمجھ میں آجاتی ۔ میں تو آزاد دانشوروں کے سرکاری فیسٹولز ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سپانسرڈ فسٹ-لٹ میں جانے کو ان کی آزادی کے خلاف گردانتا ہوں جو گلوبل سامراجی مالیاتی نظام کی رکھوالی ہیں اور حکمران طبقات کے نظریات کے غلبے کا ڈسکورس ایک سامراجی کلچرل آپریٹس کے زریعے سے نافذ کرتی ہیں اور آپ ان کے یرغمال ایوان صدر جاپہنچے۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی میں آپ کو قرون وسطی کے کس دانشور سے ملاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ مورخ ہوتے میرے لیے بہت آسانی ہوتی میں آپ کو عصر حاضر کا “مسلم بن شہاب زھری” سمجھتا اس کا اولین دور اسلامی عرب معاشرے کی عوام کی تاریخ کی روایات کو محفوظ کرنے سے عبارت تھا لیکن اس کا آخری دور عبدالملک بن مروان کے دربار سے وابستگی میں گزرا – ویسے وہ شاعر بھی تھا اس نے پہلے پہل تو علوی عوامی تحریکوں کے معروف کرداروں کی مداح سرائی کی اور پھر آخر میں وہ عبدالملک بن مروان کی مداح سرائی کرتا رہا۔ آپ نے ابھی تک ایسا کچھ نہیں کیا سوائے اس کے کہ وقت کے عبدالملک بن مروان کے دربار سے “انعام” لے لیا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے بھی جنرل ضیاء الحق کی اہل قلم کانفرنس میں شرکت کرکے اپنی برسوں کی تپسیا برباد کرلی تھی – پتا نہیں آپ کو اپنی تپسیا برباد ہونے کا احساس بھی ہے کہ نہیں؟
مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے احمد شاملو نے آج رات ہی نظم لکھی
روزگار غریبي ست نازنین
و عشق را
کنارتیرک راھبند ، تازیانہ مي زند
اور صبح عشق کے دشمن صدر مملکت ایران سے انعام لینے پہنچ گئے ہوں ۔ مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے پابلونرودا ، ناظم حکمت ، احمد درویش ، فیض احمد فیض، نزار قبانی اپنے اپنے ملکوں میں افتادگان خاک کی عظمت کے گیت گاتے ہوئے گماشتہ حکومتوں کے ایوانوں میں پہنچ کر خلعت فاخرہ وصول کررہے ہوں یا پھر اوتار سنگھ سدھو پاش کے سفنے /خواب مر گئے ہوں اور وہ اندرا گاندھی سے عین اس وقت ایوارڈ لینے پہنچ گیا جب پنجاب میں انقلابیوں سے خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی –
رفعت عباس! کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آج ہم ایسے زمانے سانس لے ہیں جس میں مظلوم و محکوم عوام کی نمائندگی کرنے والے ادیبوں کے دعوے تو بہت بڑے بڑے ہیں لیکن ان کے اصل درشن چھوٹے ہی نہیں جھوٹے بھی ہیں – سامراج نے میلان کینڈرا، کافکا ، بورس پاسترناک ، سولزے نیتسن کو آسمان ادب کے سورما بتایا لیکن مجھے تو وہ آج مظلوم اقوام کے نمائندہ شاعر و ادیب ہونے کے دعوے داروں سے کہیں زیادہ صاحب کردار لگتے ہیں کم از کم اپنے ممالک کے اندر وہ حکومتوں سے انعام مانگنے تو نہیں چلے گئے تھے۔ مایاکوسکی نے تو ایسے کرنے پر خودکشی کرنے کو ترجیح دی تھی۔ اور آپ نے کیا کیا اپنی شاعری اور فکشن پر خود ہی خودکش حملہ کردیا- تھوڑا صبر نہیں ہوا آپ سے؟ آپ سے کہیں کم سرکاری مہا بیانیوں کی “ردتشکیل” کرنے والے شاعر ہوگزرے ہیں جنھوں نے سرکار اور دربار میں باریابی نہ پانے اور اپنے ضمیر کی آواز کے تحت شاعری کی پہلی، دوسری اور تیسری آوازوں سے کام لینے والی کیفیت کے درمیان ایک آزار مسلسل کی زندگی کاٹی اور جب اپنے ضمیر کی آواز کو قتل کرنے کے تقاضے شدید ہوئے تو خود کشی کرلی – آپ نے ٹھیک جانا ، میں شکیب جلالی ، ثروت حسین اور آنس معین کی بات کررہا ہوں جنھوں نے اپنے چاہنے والوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ملول و مغموم تو چھوڑ دیا لیکن انہیں اپنے سے محبت کرنے کے سبب دوسروں کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچالیا- میں کبھی آپ کی بے جا انانیت کے مظاہروں پر کبھی غصّہ نہیں کیا- آپ کو یاد ہے آپ نے سرائیکی قومی سوال پرآپ کی سوچ اور خیال سے اختلاف کا اظہار کرنے پر آپ نے یہ کہہ کر ایک مدت تک مجھ سے تعلق توڑ لیا تھا”ہم تو اس سے دوست بن کر ملتے رہے اور وہ کالم نویس بنکر” حالانکہ میں تو بس یہ چاہتا تھا کہ زیربحث سوال پر آپ اور میں اخبار کے ادارتی صفحے پر تحریری مکالمہ کریں تاکہ پڑھنے والوں کے سامنے زیر بحث سوال سے جڑی نئی جہات سامنے آئے ۔ مگر آپ نے اختلاف رائے کو اپنی ذات پر حملہ سمجھا لیکن میرے دل میں آپ کی قدر اور مقام زرا سا بھی کم نہیں ہوا- کیونکہ زیر بحث سوال پر آپ کی پوزیشن جتنی بھی غیر ترقی پسندانہ تھی مگر مظلوم اقوام پر خودکش حملہ نہیں تھی ۔ لیکن آپ کا یہ اقدام سرائیکی قوم پر خودکش حملے سے کم نہیں ہے۔ اس مقام پر میں خاموش رہنا اس حملے سے راضی ہونے کے مترادف سمجھتا ہوں – مجھے بہت اچھے سے پتا ہے کہ میرا یہ اقدام مصلحت کے تقاضوں کے منافی سمجھا جائے گا- آپ کے کچھ جذباتی مداح مجھے گالیاں دیں گے۔ اور کئی ایک مختلف تاویلات سے آپ کو حق بجانب ٹھہرائیں گے لیکن میرے نزدیک یہ ایک ایسا ہی عمل ہے جیسے کوئی مدینہ سے چلے تو حسین(علیہ السلام) کے ساتھ لیکن کربلا میں معرکہ کے وقت شامل وہ یزیدی قافلے میں ہوجائے عین اس وقت جب یزیدی لشکر سے کوئی “حر” اپنے گھوڑے کو ایڑ لگاکر قافلہ حسین میں شامل ہورہا ہو۔ ہمارے پاس بیلچے بھی نہیں ہیں اس لیے ہم زمین کھود کریہ بھی پتا چلانے سے قاصر ہیں کہ ہم کہاں دفن ہیں