راجن پور(ڈسٹرکٹ رپورٹر)جعلی بیجوں سے فصل تباہ،پیداوارمتاثر،انتظامی سرپرستی میں مافیاپھل پھولنےلگا،حکومت معیار کی جانچ اور نگرانی کا کوئی موثر نظام بنا ہی نہیں سکی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدی بیج کی پیکنگ زیادہ تر پاکستان میں ہوتی ہے جس کے دوران یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ درآمد کنندگان اس میں پچھلے سال کے بچے ہوئے بیج کی ملاوٹ کر لیں۔ ان کے بقول اگر نئے بیج میں پچھلے سال کا بیج ملا دیا جائے تو اس کے اگاؤ میں تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس کی پیداوار ضرور متاثر ہو سکتی ہے۔ایسی وارداتیں ضلع راجن پور میں بہت زیادہ ہو رہی ہیں۔جس کی سر پرستی محکمہ زراعت کےافسران کرتے چلے آرہے ہیں۔راجن پور ضلع کئی سالوں سے قدرتی آفات کا شکار چلا آ رہا ہے۔ دریائے سندھ اور کوہ سلیمان پر ہونے والی بارشوں کے بعد رود کوہیوں کا سیلابی پانی زرعی ترقی میں رکاوٹ، دوسرا بڑا فیکٹر جعلی بیج،زرعی ادویات اور کھادیں ہیں۔جب بھی راجن پور کا کاشتکار اس کے خلاف احتجاج کرتا ہے تو زراعت آفیسر چھوٹے چھوٹے ڈیلروں کو نشانہ بنا کر فوٹو سیشن کر کے اس جرم پر پردہ ڈالنے میں معاونت کرتا ہے اور بڑے مگر مچھ اس جرم کو جاری رکھتے ہیں۔ جعلی بیجوں کی فروخت کی وجہ سے نہ صرف ملک کے غذائی تحفظ بلکہ کسانوں اور معیشت کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان کا سامنا ہے۔ جعلی بیجوں کی فروخت کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن اور سخت سزاؤں کے ملکی زراعت پر انتہائی مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ جعلی بیجوں کے سبب اپنی ساری جمع پونجی لگا کر فصل کو تیار کرنے والے کاشتکار طبقے کو پیداوار میں کمی کی کہانیاں جگہ جگہ موجود ہیں اور کاشتکاروں کی تباہی کی یہ داستانیں زراعت آفیسروں کے دفاتر میں پہنچی ہوئی ہیں جن کی مبینہ نااہلی اور ملی بھگت سے جعلی اور ناقص بیج فروخت کرنے والی مافیا متحرک اور پھل پھول رہے ہیں اور سادہ لوح کسان جعلی کمپنیوں کے بیج فروخت کرنے والی مافیا کے ہاتھوں لٹتے چلے آ رہے ہیں۔راجن پور ضلع کی تینوں تحصیلوں میں سر عام کمپنیاں جعلی بیج فروخت کر رہی ہیں۔کاشتکاروں محمد اکرم، عبدالوہاب، عاقب غفور و دیگر کا کہنا ہے کہ پندرہ لاکھ سے زائد کی رقم کا بیج ملک نوید ببر نامی ڈیلر سے خریدا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ بیج ناقص تھا اور اس نے جعلی کمپنی بنائی ہوئی تھی۔ محمد اکرم کا کہنا ہے کہ 25 ایکڑ پر کاشت کی جانے والی پیاز کی فصل تباہ ہوگئی۔بدقسمتی سے ہمارے پاس جعلی بیچ اور جعلی کھاد کی فروخت کے سبب زراعت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے جو ملکی معیشت کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے زراعت افسران ایئر کنڈیشن کمروں تک محدود ہیں۔بدقسمتی سے راجن پور جیسے دور افتادہ اضلاع میں ارباب اختیار عوامی مفاد کی بجائے بڑے بڑے ڈیلروں کو تحفظ دینے کیلئے سرکاری مشینری اور وسائل کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ایئر کنڈیشن کمروں کے اندر بیٹھے افسران گھنٹوں سائلین کو چلچلاتی دھوپ اور گرمی میں یہ کہہ کر انتظار کراتے ہے کہ صاحب آن لائن وڈیو میٹنگ میں شریک ہیں۔اور اسی طرح آفس ٹائم ختم ہونے پر اٹھ کر گھر چلے جاتے ہیں۔انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ راجن پور میں زراعت کے شعبہ کی خود مانیٹرنگ کریں اور تباہی کے ذمہ داروں کا تعین کر کے ان کو نشان عبرت بنائیں۔ان کاشت کاروں کو رقوم واپس دلائیں جن کو جعلی بیج دے کر لوٹا گیا ہے۔
