اسلام آباد: 14 نومبر کو عالمی سطح پر یومِ ذیابیطیس کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ ذیابیطیس کے بڑھتے ہوئے رجحان، اس کے اثرات اور بچاؤ کے اقدامات پر توجہ دلائی جا سکے۔ اس موقع پر عالمی اداروں اور پاکستان کی جانب سے بیماری کے پھیلاؤ، علاج کی سہولیات اور احتیاطی تدابیر پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
ذیابیطیس ایک ایسی بیماری ہے جس میں خون میں شکر (گلوکوز) کی سطح کنٹرول نہیں رہتی، اسی وجہ سے اسے عام زبان میں شوگر کا مرض بھی کہا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ذیابیطیس کے مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 537 ملین (54 کروڑ) افراد ذیابیطیس میں مبتلا ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ علاج کے محدود وسائل والے ممالک میں رہتے ہیں۔
رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بالغ افراد میں ذیابیطیس کی شرح 1990 کے بعد تقریباً دوگنی ہو چکی ہے اور 2030 تک یہ تعداد 64 کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق نچلی اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے، جہاں تشخیص اور علاج کے وسائل محدود ہیں۔
پاکستان کی صورتحال بھی انتہائی تشویشناک ہے۔ عالمی فیڈریشن کے مطابق پاکستان میں بالغ افراد میں ذیابیطیس کی شرح 30 فیصد سے زائد ہے اور تقریباً 34.5 ملین افراد ذیابیطیس کے مریض ہیں، یعنی ہر چوتھا بالغ پاکستانی اس مرض میں مبتلا ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق پری ڈایابیٹیز کی شرح بھی 11 فیصد کے قریب ہے۔
بین الاقوامی ڈیٹا کے مطابق 2021 میں ذیابیطیس کے باعث پاکستان میں 40 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے، جس اعتبار سے پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ ذیابیطیس کے نتیجے میں دل کی بیماری، گردے کی ناکامی، بینائی کا نقصان اور ٹانگوں کے مسائل عام ہیں۔ اکثر مریض بروقت تشخیص اور مناسب علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔
تحقیقات کے مطابق زیادہ وزن، جسمانی سرگرمی کی کمی، فاسٹ فوڈ کا بڑھتا استعمال، شہری زندگی اور خاندانی اسباب ذیابیطیس کی وبا میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، خاص طور پر پاکستان کے شہری علاقوں میں یہ مسائل بڑھ رہے ہیں۔
یومِ ذیابیطیس 2025 کی تھیم ’’ذیابیطیس اور خوشحالی‘‘ (Diabetes and Well-being) کے تحت منایا جا رہا ہے، جس میں کام کی جگہ، ذہنی صحت اور جسمانی فلاح پر توجہ دی گئی ہے۔ پاکستان میں سرکاری اور نجی ادارے بھی آگاہی، تشخیص اور علاج کی مہمات میں مصروف ہیں تاکہ بیماری کے خاموش پھیلاؤ کو روکا جا سکے اور مریضوں کو بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔







