دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغان تعلقات کی نئی جہت

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ایک بار پھر اس موڑ پر آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں باہمی اعتماد، سفارت کاری اور سکیورٹی کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک کٹھن چیلنج بن چکا ہے۔ پاکستان فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک بند کمرہ بریفنگ میں واضح طور پر کہا ہے کہ افغانستان کی جانب سے پیش کی جانے والی شرائط پاکستان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں — پاکستان کے لیے اصل ترجیح دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ یہ بیان نہ صرف پاکستان کے موجودہ عسکری موقف کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس وسیع تر حقیقت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ خطے میں امن کے قیام کی کلید اب بھی دہشت گردی کے مسئلے کے حل سے وابستہ ہے۔
گزشتہ ماہ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستان اور افغانستان نے ایک عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔ اس موقع پر دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی خودمختاری کے احترام کا عزم ظاہر کیا اور فیصلہ کیا کہ مستقبل کے لیے ایک واضح طریقۂ کار تیار کیا جائے گا جس کے ذریعے سرحد پار دہشت گردی کی روک تھام ممکن ہو۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے 25 اکتوبر کو استنبول میں مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہوا۔ پاکستان نے ان مذاکرات میں یہ مطالبہ کیا کہ ایک ایسا ’’عملی نگرانی کا نظام‘‘ تشکیل دیا جائے جو افغان طالبان کے اقدامات کو مانیٹر کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق، پاکستان نے استنبول میں افغان وفد کو دوٹوک الفاظ میں بتایا کہ دہشت گردی پر قابو پانا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے، ’’وہ کیسے قابو پاتے ہیں، یہ ان کا کام ہے، لیکن ہم کسی بھی حالت میں دہشت گردی برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ جنرل احمد شریف نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے انسدادِ دہشت گردی کے کئی کامیاب آپریشنز کیے جن میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے سمیت کالعدم تنظیموں کے 1667 دہشت گرد ہلاک کیے گئے۔ ان کے مطابق، پاکستان میں اب کسی بھی دہشت گرد گروہ سے مذاکرات نہیں ہوں گے، بلکہ قانون کے مطابق ان سے نمٹا جائے گا۔
یہ موقف دراصل اس مستقل پالیسی کی توسیع ہے جس کے تحت پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا۔ جنرل احمد شریف نے واضح کیا کہ ’’پاکستان کی سلامتی کے ضامن ہماری مسلح افواج ہیں، نہ کہ افغانستان۔‘‘ انہوں نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ پاکستان نے کبھی افغان طالبان کی حکومت کے قیام پر جشن منایا ہو۔
بریفنگ میں افغان طالبان اور منشیات کے کاروبار کے درمیان گہرے تعلق کی نشاندہی بھی کی گئی۔ ان کے مطابق، افغانستان میں پوست کی کاشت دہشت گرد تنظیموں کے لیے ایک بڑا مالی ذریعہ ہے، جس کے ذریعے وہ فی ایکڑ 18 سے 25 لاکھ روپے تک کماتے ہیں۔ یہ منافع نہ صرف دہشت گرد گروہوں بلکہ جنگی سرداروں اور مقامی آبادی تک کو اپنے دائرے میں لاتا ہے، جس کے نتیجے میں پورا معاشی و سماجی ڈھانچہ اس کاروبار کے گرد گھومنے لگتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’’یہ منشیات پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک میں اسمگل کی جاتی ہیں، اور افغان منشیات فروش خود افغان سیاست میں مداخلت کر رہے ہیں۔‘‘
بریفنگ میں شریک سینئر صحافی حامد میر کے مطابق، صحافیوں کو ایسے شواہد دکھائے گئے جن میں افغان طالبان کے فوجیوں کو پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث دکھایا گیا تھا۔ یہ وہی شواہد تھے جو دوحہ مذاکرات کے دوران افغان وفد کے ساتھ بھی شیئر کیے گئے تھے، اور ان میں افغان فوج کے شناختی کارڈز تک موجود تھے۔
گزشتہ چند ہفتوں میں دونوں ممالک کے تعلقات ایک بار پھر کشیدگی کا شکار ہوئے۔ 11 اکتوبر کو افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملہ ہوا، جس کے بعد سرحد پر جھڑپیں کئی روز تک جاری رہیں۔ افغان طالبان نے پاکستان پر فضائی حملوں کا الزام عائد کیا جس کی اسلام آباد نے نہ تصدیق کی نہ تردید۔ تاہم پاکستان نے بارہا یہ موقف دہرایا کہ کابل انتظامیہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے استعمال سے روکے۔ طالبان اس الزام کو مسترد کرتے ہیں، لیکن پاکستان کے لیے یہ مسئلہ اب محض سفارتی اختلاف نہیں بلکہ قومی سلامتی کا معاملہ بن چکا ہے۔
پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیے گئے آپریشنز میں کئی دہشت گرد مارے گئے لیکن حملوں کا تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان کی سرحد کے پار دہشت گرد محفوظ پناہ گاہیں اب بھی موجود ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں دو طرفہ اعتماد ٹوٹ رہا ہے۔
استنبول مذاکرات کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ ترکی اور قطر دونوں پاکستان کے قریبی اتحادی ہیں۔ قطر نے ماضی میں افغان طالبان اور نیٹو افواج کے درمیان مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح ترکی بھی دونوں ممالک کے درمیان رابطے کے پل کے طور پر کام کر رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان سفارتی کوششوں کے باوجود افغان طالبان واقعی اپنی سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کو روکنے کی پوزیشن میں ہیں؟
زمینی حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان کی حکومت خود کئی دھڑوں میں منقسم ہے۔ جنوبی افغانستان میں کئی عسکری گروہ اب بھی نیم خودمختار حیثیت رکھتے ہیں اور مرکزی قیادت کے احکامات کو جزوی طور پر مانتے ہیں۔ ان میں سے بعض گروہ پاکستان مخالف جذبات رکھتے ہیں، خصوصاً ٹی ٹی پی کے ساتھ ان کے فکری و نظریاتی روابط مضبوط ہیں۔ یہی تعلق افغانستان کو پاکستان کے لیے ایک ’’دوست‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’خطرہ‘‘ بھی بناتا ہے۔
پاکستان کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ اس صورتحال میں نہ صرف اپنی سرحدوں کا تحفظ کرے بلکہ خطے میں امن کی کوششیں بھی جاری رکھے۔ اسلام آباد کے لیے افغانستان کے ساتھ مکمل قطع تعلق ممکن نہیں، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان دو ہزار چھ سو کلومیٹر طویل سرحد، قبائلی تعلقات اور تجارتی انحصار موجود ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر دوطرفہ تعلقات کسی پائیدار بنیاد پر استوار نہیں ہو سکتے۔
پاکستان کا موقف صاف ہے کہ امن اسی وقت ممکن ہے جب افغانستان اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کو نکالے اور انہیں پاکستان کے حوالے کرے۔ یہ وہی موقف ہے جو دوحہ اور استنبول دونوں مذاکرات میں پیش کیا گیا۔ لیکن افغان طالبان کی جانب سے اس مطالبے پر عمل درآمد کے واضح شواہد تاحال سامنے نہیں آئے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوجی آپریشنز سے نہیں جیتی جا سکتی۔ اس کے لیے علاقائی تعاون، اقتصادی استحکام اور سیاسی اعتماد بھی درکار ہے۔ اگر افغانستان میں انتہا پسندی اور منشیات کا کاروبار اسی طرح پروان چڑھتا رہا تو پاکستان سمیت پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوگا۔ اس وقت ضروری ہے کہ عالمی طاقتیں، خاص طور پر ترکی اور قطر، افغان قیادت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف عملی اقدامات کرے۔
پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف جو قیمت ادا کی ہے وہ ناقابلِ تصور ہے۔ ہزاروں شہری اور فوجی جانیں گنوائیں، اربوں ڈالر کی معیشت متاثر ہوئی، اور سماجی ڈھانچے میں خوف سرایت کر گیا۔ ایسے میں پاکستان کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ اب مزید برداشت ممکن نہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان دراصل ایک انتباہ ہے — ایک واضح پیغام کہ پاکستان اپنے دفاع میں کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ امن مذاکرات اپنی جگہ اہم ہیں، مگر دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر ان مذاکرات کی کوئی معنویت نہیں۔ افغانستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ دہشت گردی کے مسئلے کو قابو میں نہ لایا تو نہ صرف پاکستان بلکہ خود اس کا استحکام بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی بحالی ہی امن کا واحد راستہ ہے۔ لیکن یہ اعتماد اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک سرحد پار سے حملے جاری رہیں اور دہشت گرد گروہ افغان زمین کو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے رہیں۔ پاکستان اب اس معاملے میں کسی دوغلے رویے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
یہ ایک تاریخی موقع ہے جہاں پاکستان اور افغانستان دونوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ماضی کے دائرے میں رہنا چاہتے ہیں یا ایک نئے مستقبل کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں — ایسا مستقبل جہاں سرحدوں پر امن ہو، تجارت آزاد ہو اور دونوں ممالک مشترکہ طور پر انتہا پسندی کے خلاف صف آرا ہوں۔ لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ’’شرائط‘‘ کی سیاست ختم ہو اور ایک مشترکہ عزم کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف حقیقی جنگ لڑی جائے۔ یہی جنگ خطے کے امن کی بنیاد بن سکتی ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں