پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کے ایک بڑے حملے کا شکار ہوا، جہاں بنوں چھاؤنی پر ہونے والے حملے میں 16 دہشت گرد مارے گئے، جبکہ پانچ بہادر سپاہیوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ یہ واقعہ نہ صرف سیکیورٹی چیلنجز کو واضح کرتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ملک کے دشمن کس حد تک جا سکتے ہیں۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، بلکہ گزشتہ چند برسوں سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ ہر نیا حملہ سیکیورٹی فورسز کے لیے ایک امتحان بن جاتا ہے، مگر جس طرح ہمارے جوان اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک کا دفاع کر رہے ہیں، وہ قابلِ تحسین ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں دہشت گردی کی وارداتوں میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان حملوں میں نہ صرف سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ عام شہری بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ بنوں حملے میں بھی 13 بے گناہ شہریوں کی شہادت اور 32 کے زخمی ہونے کا المناک واقعہ پیش آیا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ دہشت گردوں کا اصل ہدف صرف ریاستی ادارے نہیں بلکہ پاکستان کے عوام بھی ہیں۔
اس حملے میں دہشت گردوں نے دو بارود سے بھری گاڑیاں چھاؤنی کے احاطے سے ٹکرا کر اندر داخل ہونے کی کوشش کی، لیکن ہمارے بہادر سپاہیوں نے ان کے عزائم ناکام بنا دیے۔ اس دوران کئی دھماکے ہوئے، جن سے ایک مسجد اور رہائشی عمارت بھی تباہ ہو گئی، جس کے نتیجے میں متعدد افراد شہید ہوئے۔
پاکستان بارہا اس امر پر زور دیتا آیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان مخالف عناصر کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، اس حملے میں بھی افغان دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ افغانستان میں چھپے گروہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہی نہیں، پاکستان کے اندر ہونے والی متعدد دہشت گردی کی کارروائیاں افغان سرزمین سے منظم کی جا رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغان حکومت اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے میں سنجیدہ ہے؟ اگر نہیں، تو پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف سمیت تمام حکومتی عہدیداروں نے دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ وزیراعظم نے بالکل درست کہا کہ “پاکستان کے دشمنوں کو کامیاب ہونے نہیں دیا جائے گا۔”
یہ بیانات اپنی جگہ درست ہیں، لیکن کیا محض بیانات سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف سخت فوجی اور سفارتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی اندرونی سیکیورٹی کو مضبوط کرنا ہوگا، انٹیلی جنس کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا، اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارے دشمنوں کو کوئی محفوظ پناہ گاہ نہ ملے۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری اقدامات
مربوط سیکیورٹی حکمت عملی: ریاستی اداروں کو ایک مربوط اور جامع حکمت عملی کے تحت دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کرنی ہوں گی۔ ماضی میں کی جانے والی کوششوں میں کامیابیاں ضرور ملی ہیں، لیکن اگر ہم دہشت گردی کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں زیادہ سخت اور مسلسل اقدامات کی ضرورت ہے۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی: اگر افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی تو پاکستان کو عالمی برادری کو اس معاملے پر متحرک کرنا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی، اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے افغان حکومت پر دباؤ ڈالا جانا چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے۔
داخلی سلامتی کا جائزہ: سیکیورٹی اداروں کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ دہشت گردوں کو حملے کرنے کا موقع کیسے مل رہا ہے۔ بنوں حملے میں دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑیاں کیسے تیار کیں اور ان کو استعمال کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ یہ سوالات نہایت اہم ہیں اور ان کے جوابات کے بغیر مستقبل میں ایسے حملوں کو روکنا مشکل ہوگا۔
عوامی شعور بیدار کرنا: دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف سیکیورٹی فورسز کی ذمہ داری نہیں ہونی چاہیے۔ عوام کو بھی اس بارے میں آگاہی دی جائے کہ وہ کس طرح دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ اگر کسی کو مشکوک سرگرمی نظر آئے تو فوری طور پر متعلقہ حکام کو اطلاع دی جائے۔
پاکستان کے موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ پوری قوم متحد ہو کر دہشت گردوں کے خلاف کھڑی ہو۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، لیکن جب بات قومی سلامتی کی ہو تو سب کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔ بدقسمتی سے، ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مختلف سیاسی جماعتوں کی الگ الگ رائے رہی ہے، جس کا فائدہ دہشت گردوں نے اٹھایا ہے۔
یہ وقت ہے کہ حکومت، اپوزیشن، فوج، عدلیہ، اور تمام ادارے ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دیں۔ اس ملک کے جوان روز اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، لیکن کیا ہم بطور قوم ان کی قربانیوں کا صحیح حق ادا کر رہے ہیں؟ اگر ہم واقعی پاکستان کو دہشت گردی سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں متحد ہو کر ایک نیا بیانیہ ترتیب دینا ہوگا، جس میں کسی بھی دہشت گرد گروہ کے لیے کوئی گنجائش نہ ہو۔
بنوں چھاؤنی پر حملہ ایک وارننگ ہے کہ دہشت گرد اب بھی سرگرم ہیں اور وہ پاکستان کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی سیکیورٹی پالیسی کو مزید سخت کرنا ہوگا اور دشمنوں کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ پاکستان ایک ناقابلِ تسخیر ملک ہے۔ اگر ہم نے آج موثر اقدامات نہ کیے تو خدانخواستہ مستقبل میں ایسے مزید واقعات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
یہ جنگ ہماری بقا کی جنگ ہے، اور اس میں کامیابی کے لیے ہمیں اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہونا ہوگا۔
آڈٹ میں تاخیر
پاکستان میں مالیاتی آڈٹ میں تاخیر ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جو نہ صرف ملکی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کے لیے بھی تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بارہا اس معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ مالیاتی امور میں شفافیت کو یقینی بنائے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان، اجمل گوندل کے مطابق، ملک میں چھ لاکھ سے زائد آڈٹ پیراز زیر التوا ہیں، جن کی بروقت جانچ اور تصفیہ نہ ہونے کی وجہ سے مالیاتی نظم و ضبط کی سنگین خلاف ورزیاں سامنے آ رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، صورتحال جوں کی توں برقرار ہے اور اصلاحات کی کوئی مؤثر کوشش نظر نہیں آ رہی۔
مالیاتی معاملات کی نگرانی اور آڈٹ کا نظام ایک عرصے سے غیر مؤثر ثابت ہو رہا ہے۔ مختلف وزارتوں اور سرکاری اداروں میں آڈٹ کے معاملات سالہا سال زیر التوا رہتے ہیں اور کوئی بھی ان پر فوری کارروائی کرنے میں دلچسپی نہیں لیتا۔ اس تاخیر کی وجہ سے مالی بے ضابطگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے احکامات کے باوجود، کسی ادارے میں چیف انٹرنل اکاؤنٹنٹ تعینات نہیں کیا جا سکا، جبکہ صرف پندرہ اداروں میں چیف فنانشل آفیسرز موجود ہیں، لیکن ان میں بھی اندرونی آڈٹ کا کوئی مؤثر نظام نہیں۔ اس کے علاوہ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں زیر التوا آڈٹ کیسز کی تعداد تیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ سب اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کے مالیاتی آڈٹ کے نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر یہ تاخیر جاری رہی تو نہ صرف بین الاقوامی ادارے پاکستان پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہیں گے، بلکہ ملکی معیشت بھی مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔
پاکستان اس وقت شدید مالی بحران میں مبتلا ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے دی جانے والی مالی امداد، ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ سات ارب ڈالر کے “ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی” پروگرام کے تحت آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مالیاتی شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ لیکن اس کے برعکس، پاکستان میں مالیاتی بدانتظامی اور غیر ضروری اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مالی بے ضابطگیوں اور غیر منظور شدہ گرانٹس کی وجہ سے قومی وسائل کا بے دریغ ضیاع جاری ہے، جس کے باعث پاکستان کو بیرونی قرضوں پر مزید انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ سال، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملک کے مجموعی بجٹ میں سے محض چار فیصد رقم سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے مختص کی جا سکی، جبکہ آٹھ ٹریلین روپے کی اضافی گرانٹس بغیر پارلیمانی منظوری کے جاری کی گئیں، مگر وہ استعمال میں بھی نہ لائی جا سکیں۔ یہ صورتحال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مالیاتی نظام میں شفافیت اور احتساب کا فقدان ہے۔ اگر آڈٹ کے عمل میں مزید تاخیر ہوتی رہی تو پاکستان کو مزید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کا براہ راست اثر عوام پر پڑے گا، جو پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں مالی بے ضابطگیوں اور آڈٹ کی تاخیر کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سرکاری افسران کی عدم دلچسپی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اکثر بیوروکریٹس آڈٹ اعتراضات کو نظرانداز کرتے ہیں اور مالی بے ضابطگیوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بیشتر اداروں میں اندرونی آڈٹ کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں، جس کی وجہ سے مالی معاملات میں شفافیت ممکن نہیں ہو پاتی۔ پارلیمنٹ میں مالیاتی امور پر بحث و مباحثہ نہ ہونے کی وجہ سے بھی آڈٹ کے عمل کو اہمیت نہیں دی جاتی، جبکہ سیاسی مداخلت بھی اس معاملے میں ایک رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ کئی سرکاری ادارے سیاسی دباؤ کی وجہ سے آڈٹ کے معاملات میں تاخیر کرتے ہیں، تاکہ مالی بے ضابطگیوں پر پردہ ڈالا جا سکے۔ اس کے علاوہ، قوانین پر عمل درآمد کی کمی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اگرچہ پاکستان میں مالیاتی نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے متعدد قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر سختی سے عمل نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے کرپشن کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اگر پاکستان کو آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا اعتماد حاصل کرنا ہے تو اسے فوری طور پر آڈٹ کے نظام میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ سب سے پہلے، ہر سرکاری ادارے میں ایک مؤثر اندرونی آڈٹ نظام قائم کیا جانا چاہیے، تاکہ مالی بے ضابطگیوں کی بروقت نشاندہی ہو سکے۔ وزارتوں اور دیگر سرکاری محکموں میں چیف انٹرنل اکاؤنٹنٹس کی تقرری بھی ناگزیر ہے، جو مالیاتی شفافیت کو یقینی بنانے میں کردار ادا کر سکیں۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹس پر فوری کارروائی کی جانی چاہیے، تاکہ زیر التوا کیسز کو جلد از جلد نمٹایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، آڈٹ کے نظام کو جدید بنانے کے لیے ایک خودکار ڈیجیٹل سسٹم متعارف کرانے کی ضرورت ہے، جس سے مالیاتی ریکارڈز کی نگرانی ممکن ہو سکے اور بدعنوانی کے امکانات کم ہوں۔ ان تمام اصلاحات کے ساتھ ساتھ، ایسے سرکاری افسران کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے، جو آڈٹ کے عمل میں تاخیر کرتے ہیں یا مالی بے ضابطگیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں مالیاتی نظم و ضبط کی کمی اور آڈٹ کے عمل میں تاخیر نہ صرف ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے، بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد بھی متزلزل ہو رہا ہے۔ اگر آڈٹ سسٹم کو فوری طور پر بہتر نہیں بنایا گیا تو پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر مزید مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے ملکی معیشت مزید کمزور ہو سکتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت اور تمام متعلقہ ادارے سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کریں اور عملی اقدامات کریں۔ اگر ہم نے اب بھی اصلاحات نہ کیں تو اس کا خمیازہ عام عوام کو بھگتنا پڑے گا، جو پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور کمزور معیشت کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اگر ہم نے اپنی آنکھیں بند رکھیں تو آڈٹ میں تاخیر کا یہ معاملہ پاکستان کو مزید معاشی بحرانوں کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے واضح اور مؤثر حکمت عملی مرتب کرے، تاکہ مالیاتی شفافیت اور گورننس کو یقینی بنایا جا سکے۔
معاشی استحکام کی حقیقت
پاکستان کی وزارت خزانہ نے حالیہ فروری کے اقتصادی جائزے اور تخمینے میں تین مثبت معاشی اشارے پیش کیے ہیں۔ جولائی تا جنوری 2025 کے دوران ترسیلات زر میں 31.7 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جو پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں نمایاں بہتری ہے۔ صارف قیمت اشاریہ (سی پی آئی) بھی نمایاں کمی کے ساتھ 6.5 فیصد تک آ چکا ہے، جبکہ گزشتہ سال یہی شرح 28.3 فیصد تھی۔ مزید برآں، نجی شعبے کو دیا جانے والا قرضہ بھی 246.8 ارب روپے سے بڑھ کر 742.1 ارب روپے ہو چکا ہے، جو کہ ایک مثبت پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ بظاہر، یہ تینوں اشاریے معیشت کی بہتری کا عندیہ دے رہے ہیں، لیکن کیا زمینی حقائق واقعی ان اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہیں؟
ترسیلات زر میں اضافہ اس وقت سے دیکھنے میں آیا جب حکومت نے روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کی غلط پالیسی ترک کر دی۔ 2022-23 میں زرمبادلہ کے ذخائر میں غیر معمولی کمی نے ترسیلات زر میں 4 ارب ڈالر کی گراوٹ پیدا کی تھی، لیکن بعد میں سرکاری ذرائع سے ترسیلات کو راغب کرنے کے لیے دی جانے والی مراعات کے نتیجے میں صورتحال بہتر ہوئی۔ اگرچہ یہ اقدام وقتی طور پر سودمند ثابت ہوا، لیکن طویل المدتی پالیسی کے طور پر اس کے اثرات کا اندازہ لگانا ابھی باقی ہے۔
افراط زر کی شرح میں کمی بلاشبہ ایک بڑی پیش رفت ہے، لیکن اس کے حقیقی فوائد معاشرے کے کس طبقے تک پہنچ رہے ہیں؟ اس وقت پاکستان میں محض 7 فیصد ملازمین ایسے ہیں جن کی تنخواہوں میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے، اور ان کی اجرتوں میں اضافے کی رفتار مہنگائی کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ یہ افراد زیادہ تر سرکاری ملازمین پر مشتمل ہیں، جن کی تنخواہیں بجٹ میں اضافے کے ساتھ بڑھتی رہتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ باقی 93 فیصد افراد جو نجی شعبے سے وابستہ ہیں، پچھلے چار سے پانچ سالوں میں اپنی آمدنی میں کسی خاطر خواہ اضافے سے محروم رہے ہیں۔ نتیجتاً، مہنگائی کی شرح کم ہونے کے باوجود ان کی حقیقی آمدنی کی قوت خرید 25 سے 30 فیصد تک گھٹ چکی ہے، جو کہ عام آدمی کی زندگی پر ایک بڑا معاشی بوجھ ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماہرین معاشیات افراط زر کے اعداد و شمار پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ سی پی آئی کا حساب لگاتے وقت صرف رعایتی نرخوں پر فراہم کی جانے والی بجلی کو شامل کیا جاتا ہے، جبکہ عام صارفین کے لیے بجلی کے بل اب بھی غیر معمولی حد تک بلند ہیں۔ اسی طرح، حکومت ان بنیادی اشیاء کے نرخوں کو بھی شمار کرتی ہے، جو کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر سبسڈی کے تحت دستیاب ہوتی ہیں، لیکن عملی طور پر یہ اشیاء عام صارفین کو آسانی سے میسر نہیں آتیں۔ مزید برآں، کرایوں کا حساب بھی حقیقت سے کم ظاہر کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے افراط زر کی اصل شرح پوشیدہ رہتی ہے۔
نجی شعبے کو دیا جانے والا قرضہ، جسے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ترقی کا انجن قرار دیا ہے، 200 فیصد اضافہ ظاہر کر رہا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک بڑی پیش رفت معلوم ہوتی ہے، لیکن اگر اس کی گہرائی میں جایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بڑا حصہ اسٹاک مارکیٹ میں لگا دیا گیا ہے۔ سرمایہ کاروں کی جانب سے شیئرز کی خرید و فروخت میں تیزی تو آ رہی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملک میں صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے یا روزگار کے مواقع بڑھے ہیں۔ کسی بھی سیاسی حکومت کا اصل ہدف معیشت میں حقیقی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوتا ہے، لیکن یہ قرضہ نجی شعبے میں کسی ٹھوس پیداواری سرگرمی کے بجائے صرف سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہو رہا ہے، جو معیشت کے حقیقی استحکام کی علامت نہیں۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں بڑی صنعتوں کی پیداوار (ایل ایس ایم) میں جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران 1.87 فیصد کمی ہوئی، جو کہ پچھلے سال کے اسی عرصے میں 0.98 فیصد تھی۔ صرف دسمبر 2024 میں، یہ شرح منفی 3.73 فیصد رہی، جو دسمبر 2023 کے مثبت 3 فیصد کے مقابلے میں نمایاں کمی ظاہر کرتی ہے۔ اس کے باوجود، اقتصادی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایل ایس ایم میں ماہانہ بنیادوں پر بہتری دیکھنے میں آئی، اور دسمبر 2024 میں پیداوار 19.1 فیصد بڑھی۔ لیکن جب پچھلے ماہ کے اقتصادی جائزے کو دیکھا جائے تو یہ اعداد و شمار تضاد کا شکار معلوم ہوتے ہیں۔
زرعی شعبے کے حوالے سے رپورٹ میں حکومت کے اقدامات اور میکانائزیشن میں اضافے کو مثبت پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، معاشی ماہرین ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زرعی پیداوار کے امکانات ہمیشہ متوقع نتائج نہیں دیتے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اس شعبے میں بہتری آئے گی، لیکن محض تخمینوں پر انحصار کرنا دانشمندی نہیں۔
برآمدات میں 7.6 فیصد اضافہ ہوا، لیکن اس کے ساتھ ہی درآمدات 10.9 فیصد بڑھ چکی ہیں، جو کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کا اشارہ دے رہی ہیں۔ اگر درآمدات پر لگائی گئی پابندیاں مکمل طور پر ہٹا دی جائیں اور عالمی حالات تبدیل ہو جائیں، تو پاکستان کو پھر سے تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھارت کی جانب سے چاول کی برآمد پر عائد پابندی کا خاتمہ اور بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام ایسی خارجی عوامل ہیں، جو مستقبل میں ہماری برآمدات کو متاثر کر سکتے ہیں۔
غیر ملکی سرمایہ کاری میں 25.6 فیصد اضافہ ہوا، جو کہ 1346.6 ملین ڈالر سے بڑھ کر 1972 ملین ڈالر تک جا پہنچی۔ لیکن یہ اب بھی ایک انتہائی کم سطح پر ہے اور حالیہ مہینوں میں کیے گئے بڑے معاہدے ابھی تک عملی شکل میں نہیں آ سکے۔ اگر ان معاہدوں کو حقیقی سرمایہ کاری میں نہ بدلا گیا تو یہ نمو محض کاغذی اعداد و شمار تک محدود رہے گی۔
پاکستان کی معیشت اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ اگرچہ کچھ اقتصادی اشاریے مثبت نظر آ رہے ہیں، لیکن حقیقی ترقی کے لیے حکومت کو تیز تر اصلاحاتی اقدامات کرنے ہوں گے۔ جب تک یہ اصلاحات مؤثر طریقے سے نافذ نہیں ہوتیں، معیشت کی موجودہ بہتری پائیدار نہیں ہو سکتی۔ عوام کی حقیقی حالت بدستور کمزور ہے، قوت خرید میں کمی ہو رہی ہے، اور روزگار کے مواقع محدود ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں، حکومت کے پاس اصلاحات کے نفاذ کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ معاشی پالیسیوں میں شفافیت اور مستقل مزاجی ہی وہ عوامل ہیں، جو پاکستان کو اقتصادی بحران سے نکالنے میں مدد دے سکتے ہیں۔