اسلام آباد اور وزیرستان میں ہونے والے تازہ دہشت گرد حملے ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو یاد دلاتے ہیں کہ پاکستان کے دشمن اب بھی ہمارے امن اور استحکام کو نشانہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں خودکش حملے نے، جہاں عدالت کے باہر عام شہری، وکلا اور اہلکار اپنی روزمرہ مصروفیات میں مصروف تھے، اچانک موت کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ اس حملے کے صرف دو دن بعد جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں کیڈٹ کالج پر حملہ ہوا جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ یہ سانحات محض دہشت گردی کے واقعات نہیں، بلکہ ایک مسلسل جنگ کی یاد دہانی ہیں جس میں دشمن کے چہرے بدلتے رہتے ہیں مگر ان کا مقصد ایک ہی رہتا ہے — پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا۔ وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بین البرلمانی کانفرنس میں اپنے خطاب میں کہا کہ یہ بزدلانہ حملے پاکستان کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے۔ یہ بیان اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف گزشتہ دو دہائیوں میں جو قربانیاں دی ہیں، وہ دنیا کے کسی اور ملک کی تاریخ میں مثال نہیں رکھتیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، ہزاروں شہید ہوئے، سیکڑوں حملے برداشت کیے گئے، مگر ریاست اور عوام نے مل کر یہ ثابت کیا کہ دہشت گردی کا مقابلہ صرف بندوق سے نہیں، بلکہ عزم، اتحاد اور فکری یکجہتی سے کیا جاتا ہے۔ اسحاق ڈار نے درست کہا کہ امن اور سلامتی کا پائیدار راستہ مکالمے، تفہیم اور شراکت داری سے نکلتا ہے، مگر اس راستے پر چلنے کے لیے ریاست کو وہ فیصلے بھی کرنا ہوں گے جو دیر سے سہی مگر ناگزیر ہیں۔ یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے جب اسلام آباد میں بین الاقوامی سطح کے اہم اجلاس جاری تھے۔ ایک طرف پارلیمانی سربراہوں کی کانفرنس ہو رہی تھی اور دوسری جانب عالمی مکالمے کا اجلاس، جس میں پاکستان اپنے امن کے تصور اور عالمی تعاون کے عزم کو اجاگر کر رہا تھا۔ ایسے موقع پر یہ خودکش دھماکہ دراصل دشمن کی ایک منظم کوشش تھی کہ وہ پاکستان کی ساکھ، اعتماد اور بین الاقوامی تشخص کو مجروح کرے۔ دہشت گردوں نے نہ صرف بے گناہوں کو نشانہ بنایا بلکہ دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پاکستان اب بھی غیر محفوظ ہے۔ یہ حملہ محض جسمانی نقصان نہیں، بلکہ نفسیاتی اور سیاسی محاذ پر بھی ایک وار تھا۔ دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کی جڑیں اندرون ملک نہیں بلکہ سرحد پار سے جڑی ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، جو نومبر 2022 میں حکومت کے ساتھ فائر بندی ختم کرنے کے بعد مسلسل اپنی کارروائیاں بڑھا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان ایک بار پھر ان حملوں کے نشانے پر ہیں۔ پولیس، سیکورٹی فورسز اور عام شہری ایک ہی دشمن کے مقابل کھڑے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ ریاست نے گزشتہ برسوں میں اس مسئلے کے بنیادی اسباب کے حل کے لیے کیا ٹھوس اقدامات کیے؟ کیا ہم نے ان عناصر کے خلاف مربوط اور فیصلہ کن حکمت عملی اپنائی جو سرحد کے پار سے حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں؟ یا ہم اب بھی وقتی ردعمل اور بیانات پر اکتفا کر رہے ہیں؟ پاکستان کی سرزمین پر خون بہانے والے ان گروہوں کا مقابلہ صرف فوجی کارروائیوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ عسکری کامیابیاں وقتی سکون تو لاتی ہیں مگر اگر سیاسی اور انتظامی نظام انہیں سہارا نہ دے تو یہ سکون زیادہ دیر قائم نہیں رہتا۔ دہشت گردی کا تعلق صرف بندوق سے نہیں بلکہ ناانصافی، محرومی، جہالت اور کمزور حکمرانی سے بھی ہے۔ جب ریاست اپنے دور دراز علاقوں کو ترقی، تعلیم، روزگار اور انصاف فراہم نہیں کر پاتی تو انتہا پسند نظریات کو وہاں جڑ پکڑنے کا موقع ملتا ہے۔ وانا، میرانشاہ، مستونگ اور باجوڑ کے واقعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ترقیاتی خلا دہشت گردی کی نرسری بن جاتا ہے۔ دوسری طرف، ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اب صرف ایک قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ بن چکی ہے۔ اس کے اثرات مذہب، نسل یا سرحدوں کی قید سے آزاد ہیں۔ اسحاق ڈار نے درست کہا کہ یہ لعنت کسی سرحد یا مذہب کو نہیں مانتی۔ لہٰذا اس کے خلاف جدوجہد بھی تنہا ممکن نہیں۔ ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ خاص طور پر افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ عملی تعاون ناگزیر ہے تاکہ سرحد پار حملوں کو روکا جا سکے۔ دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کا یہ خلا دہشت گرد تنظیموں کے لیے سانس لینے کی جگہ فراہم کرتا ہے۔ جب تک ہم مل کر اپنے مشترکہ دشمن کا تعاقب نہیں کریں گے، یہ زخم تازہ رہیں گے۔ ریاست کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ ایک طرف عالمی برادری کی نگاہیں ہم پر ہیں، دوسری جانب اندرونی سلامتی کی چٹانیں ہل رہی ہیں۔ ہمیں اپنے اداروں، پالیسیوں اور بیانیے میں واضح یکسوئی لانا ہوگی۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری نہیں، یہ پورے سماج کا امتحان ہے۔ مدرسے، اسکول، میڈیا، مذہبی قیادت اور سیاسی جماعتیں — سب کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ انتہا پسندی کے خلاف محض بیانات نہیں بلکہ عملی کردار ادا کریں گے۔ پاکستان کے عوام نے دہشت گردی کے خلاف ناقابلِ فراموش قربانیاں دی ہیں۔ ہر حملہ ان زخموں کو تازہ کر دیتا ہے جو برسوں کی جنگ کے بعد بھی بھر نہیں پائے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ یہ قوم کبھی جھکی نہیں۔ ہم نے لال مسجد کے دھماکے دیکھے، واہ فیکٹری کا خون دیکھا، آرمی پبلک اسکول کے شہیدوں کے جنازے اٹھائے، مگر ہم نے ہار نہیں مانی۔ یہ عزم آج بھی زندہ ہے۔ یہی وہ عزم ہے جسے دشمن توڑ نہیں سکتا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس عزم کو محض نعرہ نہ رہنے دیا جائے۔ اسے عملی شکل دینے کے لیے شفاف پالیسی، ٹھوس اقدامات، اور غیر متزلزل سیاسی اتفاقِ رائے درکار ہے۔ دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ اگر لفظوں سے آگے بڑھے گا تو دہشت گردی کی یہ آگ بجھ سکتی ہے۔ بصورت دیگر، ہم ہر سانحے کے بعد صرف شہادتوں کو خراج پیش کرتے رہیں گے اور قاتل نئے ناموں سے لوٹ آئیں گے۔ پاکستان کا دشمن کمزور نہیں، مگر ہمارا اتحاد، عزم اور قانون کی بالادستی اگر مضبوط ہو تو کوئی دشمن ہمارے ارادے کو متزلزل نہیں کر سکتا۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو ایک ایسا ملک دینا ہے جہاں عدالت کے دروازے پر دھماکہ نہ ہو، جہاں کیڈٹ کالجوں کے طلبہ موت کے سایے میں تعلیم نہ حاصل کریں، جہاں امن کوئی خواب نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہو۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے زخموں کو ہمت سے باندھ کر آگے بڑھیں، کیونکہ دہشت کے مقابل واحد جواب استقامت ہے، اور یہی وہ ہتھیار ہے جس سے پاکستان ایک بار پھر سرخرو ہو سکتا ہے۔
عمل کی گھڑی، نعرے نہیں
برازیل کے شہر بیلیم میں جاری عالمی ماحولیاتی اجلاس ایک ایسی فضا میں منعقد ہو رہا ہے جب زمین انسان کے رویّوں سے تنگ آچکی ہے۔ ریکارڈ درجہ حرارت، تباہ کن سیلاب، پھیلتی ہوئی خشک سالی اور پگھلتے ہوئے گلیشیئرز، سب کچھ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس سال کا اجلاس محض ایک رسمی اجتماع نہیں بلکہ انسانیت کے مستقبل کا امتحان ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اب تک کے اجلاسوں میں وعدے زیادہ کیے گئے اور عمل کم۔ اب دنیا مزید تاخیر برداشت نہیں کر سکتی۔ بیلیم کے اس اجلاس کی فضا میں امازون کے گھنے جنگلات کا بوجھل سکوت ایک علامت ہے — فطرت چیخ رہی ہے، مگر دنیا کے طاقتور اب بھی نفع و نقصان کی گنتی میں الجھے ہوئے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، حالانکہ اس کا حصہ عالمی آلودگی میں ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ 2022 کے سیلاب نے ہمارے ملک کو جس طرح اجاڑا، وہ ایک پوری نسل کے لیے سبق تھا۔ تین کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے، کھربوں روپے کا نقصان ہوا، مگر اصل نقصان ان زمینوں کا ہوا جن پر اب فصل نہیں اگتی، ان خوابوں کا ہوا جو ملبے میں دفن ہو گئے، اور ان مستقبلوں کا ہوا جو پانی کے ساتھ بہہ گئے۔ پاکستان نے اس المیے کے بعد عالمی سطح پر موسمیاتی انصاف کی سب سے بلند آواز بننے کی کوشش کی۔ مگر دو سال بعد بھی عالمی ضمیر سویا ہوا ہے، اور وعدے اب بھی خالی الفاظ سے آگے نہیں بڑھے۔ نقصان و تلافی کے لیے قائم ہونے والے عالمی فنڈ کی منظوری یقیناً ایک امید تھی، مگر اس فنڈ میں اب تک ایک ارب ڈالر سے بھی کم رقم موجود ہے۔ یہ رقم ان اربوں ڈالر کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو صرف پاکستان جیسے چند ممالک کو درکار ہیں۔ اصل مسئلہ رقم کی کمی نہیں، بلکہ عالمی ترجیحات کی بے حسی ہے۔ امیر ممالک، جو دہائیوں سے فضا میں زہر گھولتے آ رہے ہیں، اب بھی اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ عالمی مالیاتی ڈھانچے میں انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جنہوں نے زمین کو بگاڑا وہی اس کی تلافی کے اصل ذمہ دار ہیں، مگر آج بھی غریب ممالک قرضوں اور شرائط کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے لیے اب اصل امتحان یہ ہے کہ جو عالمی امداد یا تعاون اسے حاصل ہوتا ہے، وہ اس کو شفافیت، درست منصوبہ بندی اور عوامی مفاد کے تحت استعمال کر سکے۔ بدقسمتی سے ماضی کے تجربات حوصلہ افزا نہیں۔ ماحولیاتی منصوبوں میں بدانتظامی، وسائل کا ضیاع اور غیر مؤثر حکمت عملی نے نہ صرف عالمی اعتماد کو کمزور کیا بلکہ خود پاکستانی عوام کو بھی مایوس کیا۔ اگر پاکستان عالمی برادری سے مالی امداد اور انصاف کی بات کرتا ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ان وسائل کو حقیقت میں ماحولیاتی بحالی اور لچکدار ترقی کے منصوبوں پر خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب عالمی گفتگو محض وعدوں سے آگے بڑھ کر عمل کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ہر ملک سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ صرف اہداف طے نہ کرے بلکہ ان پر عملی پیش رفت بھی دکھائے۔ پاکستان کے لیے بھی یہی معیار ہے۔ شمسی توانائی اور پن بجلی کے منصوبے خوش آئند ہیں، مگر اب بھی ہماری توانائی کا زیادہ تر انحصار درآمدی تیل اور گیس پر ہے جو نہ صرف ماحول کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی تباہ کن۔ درآمدی ایندھن کی ادائیگیاں زرِ مبادلہ کے ذخائر کو کم کر رہی ہیں اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ عوام کی کمر توڑ رہا ہے۔ اگر ہم نے توانائی کے نظام کو خود کفیل اور ماحول دوست نہ بنایا تو ترقی کا کوئی بھی خواب پائیدار نہیں ہو سکتا۔ پاکستان نے اپنے ماحولیاتی اہداف کے سلسلے میں کچھ عملی اقدامات کیے ہیں۔ قومی ماحولیاتی لائحہ عمل کی تیاری، قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے، اور زرعی شعبے میں موسمیاتی موافقت کے اقدامات قابلِ تعریف ہیں۔ بیلیم کانفرنس میں پاکستان نے ’’دریائے سندھ سے امازون تک‘‘ کے عنوان سے ایک خصوصی پویلین قائم کیا ہے جس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ہم ماحولیاتی خطرات کے باوجود کس طرح اپنے وسائل کو محفوظ رکھنے اور ترقی کے نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے بھی اپنے صوبے میں شجر کاری، صاف پنجاب مہم، برقی گاڑیوں کے فروغ اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے منصوبوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ اقدامات نیک نیتی کے مظہر ہیں مگر ان کی رفتار ابھی ناکافی ہے۔ موسمیاتی بحران کا مقابلہ صرف منصوبوں یا تقاریر سے نہیں بلکہ سوچ کی تبدیلی سے ممکن ہے۔ ہمیں اپنی طرزِ زندگی، توانائی کے استعمال، اور شہری منصوبہ بندی کے ڈھانچے کو از سرِ نو تشکیل دینا ہوگا۔ شہروں میں درختوں کے بجائے عمارتیں اگ رہی ہیں، ندی نالے کنکریٹ کے بوجھ تلے دب چکے ہیں، زرعی زمینیں صنعتی بستیوں میں بدل رہی ہیں۔ اگر ہم نے اپنی زمین سے یہ تعلق بحال نہ کیا تو کوئی عالمی معاہدہ ہمیں بچا نہیں سکے گا۔ پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اپنی بات کو عالمی ضمیر پر نقش کر دے۔ ہمیں اپنے مؤقف کو محض مظلومیت کے انداز میں نہیں بلکہ ذمہ دار قیادت کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ دکھانا ہوگا کہ پاکستان محض متاثر ملک نہیں بلکہ حل کا حصہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے مالیاتی نظام میں شفافیت لائیں، ماحولیاتی منصوبوں کی نگرانی مضبوط کریں، اور عالمی اداروں کے ساتھ شراکت داری کو قومی مفاد کے ساتھ جوڑیں۔ دنیا کے طاقتور ممالک کو بھی سمجھنا ہوگا کہ موسمیاتی انصاف کے بغیر عالمی امن اور معاشی استحکام ممکن نہیں۔ جب افریقہ کے ریگستانوں، جنوبی ایشیا کے دریاؤں اور لاطینی امریکہ کے جنگلات میں زندگی خطرے میں ہوگی، تو شمال کے شہروں کی خوشحالی بھی دیرپا نہیں رہے گی۔ بیلیم کانفرنس دراصل دنیا کے ضمیر کے سامنے ایک آخری چیتاونی ہے۔ اگر اب بھی عمل نہ کیا گیا تو آنے والی نسلیں نہ جنگلوں میں سانس لے سکیں گی نہ سمندروں کے کنارے زندہ رہ سکیں گی۔ پاکستان کے لیے یہ لمحہ ایک موقع بھی ہے اور امتحان بھی۔ ہمیں اپنی ترجیحات درست کرنی ہوں گی۔ ماحولیاتی پالیسی کو محض بین الاقوامی فنڈز کے حصول کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھنا ہوگا۔ ہمارے لیے جنگ اب زمین بچانے کی جنگ ہے — اپنے دریاؤں، جنگلات، زرخیز مٹی اور ہوا کے تحفظ کی جنگ۔ اگر ہم نے اب قدم نہ اٹھایا تو آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ امازون کے درختوں کی سرسراہٹ میں زمین کی دھڑکن سنی جا سکتی ہے۔ یہ دھڑکن سست ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کے رہنماؤں کے سامنے سوال واضح ہے — الفاظ نہیں، عمل چاہیے۔ پاکستان کو بھی یہ دکھانا ہوگا کہ وہ صرف دنیا سے مدد مانگنے والا ملک نہیں بلکہ دنیا کو نئی سمت دکھانے والا ملک بن سکتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم خواب نہیں حقیقت کی زمین پر کھڑے ہو کر فطرت کا قرض چکانا شروع کریں۔ یہ قرض محض مالی نہیں، اخلاقی بھی ہے۔ زمین ہماری ماں ہے، اور مائیں ہمیشہ دیتی ہیں، لیتی نہیں۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم زمین کو واپس زندگی دیں۔
استحکام کا بھرم اور انسان کی شکست
حکومت کے وزراء آئے دن یہ اعلان کرتے نہیں تھکتے کہ پاکستان نے مشکل مگر ضروری معاشی اقدامات کے ذریعے معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے۔ وہ اسے ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہیں، جیسے اب ملک ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اقتدار کے ایوانوں میں کوئی یہ سمجھنے کو تیار ہے کہ یہ استحکام محض اعداد کا کھیل ہے، جس کا عوام کی زندگیوں پر کوئی حقیقی اثر نہیں پڑا؟ کیا اس استحکام نے اس عوام کو کوئی ریلیف دیا ہے جو مہنگائی، بے روزگاری، بیماری، اور ناامیدی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے؟ اگر معاشی استحکام کا مقصد صرف بجٹ کے خسارے کو کم کرنا، زرِ مبادلہ کے ذخائر کو چند ہفتے بڑھانا، یا قرض دہندگان کا اعتماد حاصل کرنا ہے، تو یہ ایک کھوکھلا استحکام ہے — وہ جو انسانی زندگیوں کو سہولت نہیں دیتا، بلکہ انہیں مزید دشواریوں میں دھکیل دیتا ہے۔ اسلام آباد میں پائیدار ترقیاتی پالیسی ادارے کے زیر اہتمام ہونے والی حالیہ کانفرنس میں اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے نمائندے ڈاکٹر سیموئل رزق نے اسی حقیقت کو نہایت وضاحت سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ دو پاکستانوں کی کہانی ہے‘‘ — ایک وہ جو اقتصادی استحکام کے دعووں سے جگمگاتا ہے، اور دوسرا وہ جس کے عوام انسانی ترقی کے زوال میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان کا مشاہدہ اعداد و شمار سے پوری طرح ثابت ہوتا ہے۔ انسانی ترقی کے عالمی اشاریے میں پاکستان کی درجہ بندی مسلسل نیچے جا رہی ہے۔ رواں برس پاکستان کا اسکور 0.544 رہا، جس کے ساتھ ہم 193 ممالک میں 168ویں نمبر پر ہیں۔ یہ اس سے بھی نیچے ہے جو گزشتہ سال تھا، جب ہمارا درجہ 164 واں تھا۔ یعنی ہم پیچھے جا رہے ہیں، آگے نہیں بڑھ رہے۔ اگر عدم مساوات کے اثرات کو شامل کیا جائے تو یہ اشاریہ مزید 33 فیصد تک گر جاتا ہے، اور پاکستان کا اسکور محض 0.364 رہ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو تھوڑا بہت استحکام ہم نے حاصل کیا، وہ چند طبقوں تک محدود ہے، عوام کی اکثریت اس کے ثمرات سے محروم ہے۔ جب صحت، تعلیم اور معیارِ زندگی میں کوئی بہتری نہ آئے تو پھر معاشی استحکام کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟ اعداد و شمار کا حسن حقیقت کی بدصورتی کو چھپا نہیں سکتا۔ پاکستان کی زمینی حقیقت اس دعوے کی تردید کرتی ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں غذائی قلت کی شرح چالیس فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ پچیس لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ لاکھوں خاندان ایسے ہیں جنہیں صاف پانی، نکاسیِ آب، بنیادی صحت اور محفوظ رہائش تک میسر نہیں۔ شہروں میں غربت کا چہرہ فٹ پاتھ پر سوتے مزدوروں کی شکل میں اور دیہات میں اس کسان کے چہرے پر نظر آتا ہے جو قرض کے بوجھ تلے دب کر اپنی زمین بیچنے پر مجبور ہے۔ حکومت کے اعلانات کے باوجود عام آدمی کے لیے زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل تر ہو رہی ہے۔ اس بگڑتی صورتِ حال میں ایک اور دشمن ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے — موسمیاتی بحران۔ یہ بحران اب کوئی دور کی بات نہیں، یہ ہمارے کھیتوں، گھروں، اسکولوں اور سڑکوں تک پہنچ چکا ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب نے تیس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچایا، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، زرعی معیشت تباہ ہوئی، اور غذائی سلامتی ختم ہو گئی۔ رواں برس کے سیلاب نے مزید تین ارب ڈالر کا نقصان کیا۔ یہ سب اس ملک میں ہوا جو پہلے ہی غربت اور قرض کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ فصلوں کی ناکامی، غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ، اور پینے کے صاف پانی کی کمی نے کمزور طبقات کو مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق غربت میں اضافہ، غذائی قلت، بیماریوں کا پھیلاؤ، اور تعلیمی نظام کی کمزوری اب باہم جڑی ہوئی حقیقتیں بن چکی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک موسمیاتی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے ادارے کمزور ہیں، منصوبہ بندی مختصر المدت ہے، اور وسائل ناکافی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے، ہم ہر بار وہی مناظر دہراتے ہیں — تباہی کے بعد امداد کے وعدے، عالمی کانفرنسوں میں تقاریر، اور پھر خاموشی۔ یہ خاموشی دراصل ناکامی کی علامت ہے۔ ہماری ریاست نے ابھی تک یہ فیصلہ ہی نہیں کیا کہ انسانی ترقی کو معاشی پالیسی کے مرکز میں کیسے لانا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے مسائل میں ایک مسلسل مالی بحران بھی ہے۔ ڈاکٹر رزق نے بتایا کہ پاکستان کو سالانہ تقریباً چودہ ارب ڈالر بین الاقوامی اداروں سے ملتے ہیں، جن میں عالمی مالیاتی ادارہ، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن شامل ہیں۔ مگر اگر ہمیں پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے ہیں تو ہمیں پچاس ارب ڈالر سالانہ درکار ہیں۔ یعنی جو کچھ ہمیں مل رہا ہے وہ ضرورت کے مقابلے میں نہایت معمولی ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی اب بھی قومی پیداوار کے محض دس فیصد کے قریب ہے، جو عالمی معیار سے کہیں کم ہے۔ طاقتور اور منافع بخش شعبے اب بھی ٹیکس کے جال سے باہر ہیں، جب کہ غریبوں پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ریاست کا خزانہ بھرنے کے باوجود عوام کی جیب خالی ہے۔ اس صورتحال میں مالیاتی حکمتِ عملی میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت واقعی پائیدار استحکام چاہتی ہے تو اسے اپنے وسائل کو انسان پر خرچ کرنا ہوگا — تعلیم، صحت، روزگار، صاف ماحول، پینے کے پانی، اور بنیادی سہولتوں پر۔ انسانی ترقی ہی وہ بنیاد ہے جس پر معیشت کھڑی ہوتی ہے۔ اگر انسان بیمار، غیر تعلیم یافتہ اور مایوس ہوگا تو کوئی معیشت مضبوط نہیں ہو سکتی۔ معیشت کا پیمانہ اب صرف زرِ مبادلہ یا خسارے نہیں بلکہ انسانی وقار اور معیارِ زندگی ہونا چاہیے۔
تازہ ترین
یونان کشتی حادثہ: متعدد ایف آئی اے افسران برطرف، ڈپٹی ڈائریکٹر ملتان سمگلرز کا رابطہ کار نکلا
جی ایم نہ چیئرمین این ایچ اے، جنوبی پنجاب ہائی ویز تباہ، حادثات 50 فیصد بڑھ گئے
مظفرگڑھ: فائرنگ سے زخمی نوجوان کی کٹی ٹانگ سمیت لواحقین کااحتجاج
خواتین یونیورسٹی تنازعات کا شکار، وی سی کی بے حسی برقرار، فیکلٹی کی تبدیلی کی دعائیں
پنجاب بھر میں 82 ہزار گاڑیاں، موٹر سائیکلیں بند، طلبہ گھروں میں “قید”
وارڈن سسٹم سے اتھارٹیز تک شاہانہ اخراجات عوام سے پورے کرنے کی خفیہ پالیسی نافذ
خلیل الرحمان قمر ویڈیو کیس: ملزم حسن شاہ کے خلاف کارروائی کی درخواست دائر
سونے کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ، چاندی بھی مہنگی
دہشت کے مقابل عزم کی سرحد
اسلام آباد اور وزیرستان میں ہونے والے تازہ دہشت گرد حملے ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو یاد دلاتے ہیں کہ پاکستان کے دشمن اب بھی ہمارے امن اور استحکام کو نشانہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں خودکش حملے نے، جہاں عدالت کے باہر عام شہری، وکلا اور اہلکار اپنی روزمرہ مصروفیات میں مصروف تھے، اچانک موت کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ اس حملے کے صرف دو دن بعد جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں کیڈٹ کالج پر حملہ ہوا جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ یہ سانحات محض دہشت گردی کے واقعات نہیں، بلکہ ایک مسلسل جنگ کی یاد دہانی ہیں جس میں دشمن کے چہرے بدلتے رہتے ہیں مگر ان کا مقصد ایک ہی رہتا ہے — پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا۔
وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بین البرلمانی کانفرنس میں اپنے خطاب میں کہا کہ یہ بزدلانہ حملے پاکستان کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے۔ یہ بیان اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف گزشتہ دو دہائیوں میں جو قربانیاں دی ہیں، وہ دنیا کے کسی اور ملک کی تاریخ میں مثال نہیں رکھتیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، ہزاروں شہید ہوئے، سیکڑوں حملے برداشت کیے گئے، مگر ریاست اور عوام نے مل کر یہ ثابت کیا کہ دہشت گردی کا مقابلہ صرف بندوق سے نہیں، بلکہ عزم، اتحاد اور فکری یکجہتی سے کیا جاتا ہے۔ اسحاق ڈار نے درست کہا کہ امن اور سلامتی کا پائیدار راستہ مکالمے، تفہیم اور شراکت داری سے نکلتا ہے، مگر اس راستے پر چلنے کے لیے ریاست کو وہ فیصلے بھی کرنا ہوں گے جو دیر سے سہی مگر ناگزیر ہیں۔
یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے جب اسلام آباد میں بین الاقوامی سطح کے اہم اجلاس جاری تھے۔ ایک طرف پارلیمانی سربراہوں کی کانفرنس ہو رہی تھی اور دوسری جانب عالمی مکالمے کا اجلاس، جس میں پاکستان اپنے امن کے تصور اور عالمی تعاون کے عزم کو اجاگر کر رہا تھا۔ ایسے موقع پر یہ خودکش دھماکہ دراصل دشمن کی ایک منظم کوشش تھی کہ وہ پاکستان کی ساکھ، اعتماد اور بین الاقوامی تشخص کو مجروح کرے۔ دہشت گردوں نے نہ صرف بے گناہوں کو نشانہ بنایا بلکہ دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پاکستان اب بھی غیر محفوظ ہے۔ یہ حملہ محض جسمانی نقصان نہیں، بلکہ نفسیاتی اور سیاسی محاذ پر بھی ایک وار تھا۔
دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کی جڑیں اندرون ملک نہیں بلکہ سرحد پار سے جڑی ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، جو نومبر 2022 میں حکومت کے ساتھ فائر بندی ختم کرنے کے بعد مسلسل اپنی کارروائیاں بڑھا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان ایک بار پھر ان حملوں کے نشانے پر ہیں۔ پولیس، سیکورٹی فورسز اور عام شہری ایک ہی دشمن کے مقابل کھڑے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ ریاست نے گزشتہ برسوں میں اس مسئلے کے بنیادی اسباب کے حل کے لیے کیا ٹھوس اقدامات کیے؟ کیا ہم نے ان عناصر کے خلاف مربوط اور فیصلہ کن حکمت عملی اپنائی جو سرحد کے پار سے حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں؟ یا ہم اب بھی وقتی ردعمل اور بیانات پر اکتفا کر رہے ہیں؟
پاکستان کی سرزمین پر خون بہانے والے ان گروہوں کا مقابلہ صرف فوجی کارروائیوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ عسکری کامیابیاں وقتی سکون تو لاتی ہیں مگر اگر سیاسی اور انتظامی نظام انہیں سہارا نہ دے تو یہ سکون زیادہ دیر قائم نہیں رہتا۔ دہشت گردی کا تعلق صرف بندوق سے نہیں بلکہ ناانصافی، محرومی، جہالت اور کمزور حکمرانی سے بھی ہے۔ جب ریاست اپنے دور دراز علاقوں کو ترقی، تعلیم، روزگار اور انصاف فراہم نہیں کر پاتی تو انتہا پسند نظریات کو وہاں جڑ پکڑنے کا موقع ملتا ہے۔ وانا، میرانشاہ، مستونگ اور باجوڑ کے واقعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ترقیاتی خلا دہشت گردی کی نرسری بن جاتا ہے۔
دوسری طرف، ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اب صرف ایک قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ بن چکی ہے۔ اس کے اثرات مذہب، نسل یا سرحدوں کی قید سے آزاد ہیں۔ اسحاق ڈار نے درست کہا کہ یہ لعنت کسی سرحد یا مذہب کو نہیں مانتی۔ لہٰذا اس کے خلاف جدوجہد بھی تنہا ممکن نہیں۔ ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ خاص طور پر افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ عملی تعاون ناگزیر ہے تاکہ سرحد پار حملوں کو روکا جا سکے۔ دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کا یہ خلا دہشت گرد تنظیموں کے لیے سانس لینے کی جگہ فراہم کرتا ہے۔ جب تک ہم مل کر اپنے مشترکہ دشمن کا تعاقب نہیں کریں گے، یہ زخم تازہ رہیں گے۔
ریاست کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ ایک طرف عالمی برادری کی نگاہیں ہم پر ہیں، دوسری جانب اندرونی سلامتی کی چٹانیں ہل رہی ہیں۔ ہمیں اپنے اداروں، پالیسیوں اور بیانیے میں واضح یکسوئی لانا ہوگی۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری نہیں، یہ پورے سماج کا امتحان ہے۔ مدرسے، اسکول، میڈیا، مذہبی قیادت اور سیاسی جماعتیں — سب کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ انتہا پسندی کے خلاف محض بیانات نہیں بلکہ عملی کردار ادا کریں گے۔
پاکستان کے عوام نے دہشت گردی کے خلاف ناقابلِ فراموش قربانیاں دی ہیں۔ ہر حملہ ان زخموں کو تازہ کر دیتا ہے جو برسوں کی جنگ کے بعد بھی بھر نہیں پائے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ یہ قوم کبھی جھکی نہیں۔ ہم نے لال مسجد کے دھماکے دیکھے، واہ فیکٹری کا خون دیکھا، آرمی پبلک اسکول کے شہیدوں کے جنازے اٹھائے، مگر ہم نے ہار نہیں مانی۔ یہ عزم آج بھی زندہ ہے۔ یہی وہ عزم ہے جسے دشمن توڑ نہیں سکتا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس عزم کو محض نعرہ نہ رہنے دیا جائے۔ اسے عملی شکل دینے کے لیے شفاف پالیسی، ٹھوس اقدامات، اور غیر متزلزل سیاسی اتفاقِ رائے درکار ہے۔ دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ اگر لفظوں سے آگے بڑھے گا تو دہشت گردی کی یہ آگ بجھ سکتی ہے۔ بصورت دیگر، ہم ہر سانحے کے بعد صرف شہادتوں کو خراج پیش کرتے رہیں گے اور قاتل نئے ناموں سے لوٹ آئیں گے۔
پاکستان کا دشمن کمزور نہیں، مگر ہمارا اتحاد، عزم اور قانون کی بالادستی اگر مضبوط ہو تو کوئی دشمن ہمارے ارادے کو متزلزل نہیں کر سکتا۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو ایک ایسا ملک دینا ہے جہاں عدالت کے دروازے پر دھماکہ نہ ہو، جہاں کیڈٹ کالجوں کے طلبہ موت کے سایے میں تعلیم نہ حاصل کریں، جہاں امن کوئی خواب نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہو۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے زخموں کو ہمت سے باندھ کر آگے بڑھیں، کیونکہ دہشت کے مقابل واحد جواب استقامت ہے، اور یہی وہ ہتھیار ہے جس سے پاکستان ایک بار پھر سرخرو ہو سکتا ہے۔
عمل کی گھڑی، نعرے نہیں
برازیل کے شہر بیلیم میں جاری عالمی ماحولیاتی اجلاس ایک ایسی فضا میں منعقد ہو رہا ہے جب زمین انسان کے رویّوں سے تنگ آچکی ہے۔ ریکارڈ درجہ حرارت، تباہ کن سیلاب، پھیلتی ہوئی خشک سالی اور پگھلتے ہوئے گلیشیئرز، سب کچھ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس سال کا اجلاس محض ایک رسمی اجتماع نہیں بلکہ انسانیت کے مستقبل کا امتحان ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اب تک کے اجلاسوں میں وعدے زیادہ کیے گئے اور عمل کم۔ اب دنیا مزید تاخیر برداشت نہیں کر سکتی۔ بیلیم کے اس اجلاس کی فضا میں امازون کے گھنے جنگلات کا بوجھل سکوت ایک علامت ہے — فطرت چیخ رہی ہے، مگر دنیا کے طاقتور اب بھی نفع و نقصان کی گنتی میں الجھے ہوئے ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، حالانکہ اس کا حصہ عالمی آلودگی میں ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ 2022 کے سیلاب نے ہمارے ملک کو جس طرح اجاڑا، وہ ایک پوری نسل کے لیے سبق تھا۔ تین کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے، کھربوں روپے کا نقصان ہوا، مگر اصل نقصان ان زمینوں کا ہوا جن پر اب فصل نہیں اگتی، ان خوابوں کا ہوا جو ملبے میں دفن ہو گئے، اور ان مستقبلوں کا ہوا جو پانی کے ساتھ بہہ گئے۔ پاکستان نے اس المیے کے بعد عالمی سطح پر موسمیاتی انصاف کی سب سے بلند آواز بننے کی کوشش کی۔ مگر دو سال بعد بھی عالمی ضمیر سویا ہوا ہے، اور وعدے اب بھی خالی الفاظ سے آگے نہیں بڑھے۔
نقصان و تلافی کے لیے قائم ہونے والے عالمی فنڈ کی منظوری یقیناً ایک امید تھی، مگر اس فنڈ میں اب تک ایک ارب ڈالر سے بھی کم رقم موجود ہے۔ یہ رقم ان اربوں ڈالر کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو صرف پاکستان جیسے چند ممالک کو درکار ہیں۔ اصل مسئلہ رقم کی کمی نہیں، بلکہ عالمی ترجیحات کی بے حسی ہے۔ امیر ممالک، جو دہائیوں سے فضا میں زہر گھولتے آ رہے ہیں، اب بھی اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ عالمی مالیاتی ڈھانچے میں انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جنہوں نے زمین کو بگاڑا وہی اس کی تلافی کے اصل ذمہ دار ہیں، مگر آج بھی غریب ممالک قرضوں اور شرائط کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے لیے اب اصل امتحان یہ ہے کہ جو عالمی امداد یا تعاون اسے حاصل ہوتا ہے، وہ اس کو شفافیت، درست منصوبہ بندی اور عوامی مفاد کے تحت استعمال کر سکے۔ بدقسمتی سے ماضی کے تجربات حوصلہ افزا نہیں۔ ماحولیاتی منصوبوں میں بدانتظامی، وسائل کا ضیاع اور غیر مؤثر حکمت عملی نے نہ صرف عالمی اعتماد کو کمزور کیا بلکہ خود پاکستانی عوام کو بھی مایوس کیا۔ اگر پاکستان عالمی برادری سے مالی امداد اور انصاف کی بات کرتا ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ان وسائل کو حقیقت میں ماحولیاتی بحالی اور لچکدار ترقی کے منصوبوں پر خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اب عالمی گفتگو محض وعدوں سے آگے بڑھ کر عمل کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ہر ملک سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ صرف اہداف طے نہ کرے بلکہ ان پر عملی پیش رفت بھی دکھائے۔ پاکستان کے لیے بھی یہی معیار ہے۔ شمسی توانائی اور پن بجلی کے منصوبے خوش آئند ہیں، مگر اب بھی ہماری توانائی کا زیادہ تر انحصار درآمدی تیل اور گیس پر ہے جو نہ صرف ماحول کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی تباہ کن۔ درآمدی ایندھن کی ادائیگیاں زرِ مبادلہ کے ذخائر کو کم کر رہی ہیں اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ عوام کی کمر توڑ رہا ہے۔ اگر ہم نے توانائی کے نظام کو خود کفیل اور ماحول دوست نہ بنایا تو ترقی کا کوئی بھی خواب پائیدار نہیں ہو سکتا۔
پاکستان نے اپنے ماحولیاتی اہداف کے سلسلے میں کچھ عملی اقدامات کیے ہیں۔ قومی ماحولیاتی لائحہ عمل کی تیاری، قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے، اور زرعی شعبے میں موسمیاتی موافقت کے اقدامات قابلِ تعریف ہیں۔ بیلیم کانفرنس میں پاکستان نے ’’دریائے سندھ سے امازون تک‘‘ کے عنوان سے ایک خصوصی پویلین قائم کیا ہے جس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ہم ماحولیاتی خطرات کے باوجود کس طرح اپنے وسائل کو محفوظ رکھنے اور ترقی کے نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے بھی اپنے صوبے میں شجر کاری، صاف پنجاب مہم، برقی گاڑیوں کے فروغ اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے منصوبوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ اقدامات نیک نیتی کے مظہر ہیں مگر ان کی رفتار ابھی ناکافی ہے۔
موسمیاتی بحران کا مقابلہ صرف منصوبوں یا تقاریر سے نہیں بلکہ سوچ کی تبدیلی سے ممکن ہے۔ ہمیں اپنی طرزِ زندگی، توانائی کے استعمال، اور شہری منصوبہ بندی کے ڈھانچے کو از سرِ نو تشکیل دینا ہوگا۔ شہروں میں درختوں کے بجائے عمارتیں اگ رہی ہیں، ندی نالے کنکریٹ کے بوجھ تلے دب چکے ہیں، زرعی زمینیں صنعتی بستیوں میں بدل رہی ہیں۔ اگر ہم نے اپنی زمین سے یہ تعلق بحال نہ کیا تو کوئی عالمی معاہدہ ہمیں بچا نہیں سکے گا۔
پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اپنی بات کو عالمی ضمیر پر نقش کر دے۔ ہمیں اپنے مؤقف کو محض مظلومیت کے انداز میں نہیں بلکہ ذمہ دار قیادت کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ دکھانا ہوگا کہ پاکستان محض متاثر ملک نہیں بلکہ حل کا حصہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے مالیاتی نظام میں شفافیت لائیں، ماحولیاتی منصوبوں کی نگرانی مضبوط کریں، اور عالمی اداروں کے ساتھ شراکت داری کو قومی مفاد کے ساتھ جوڑیں۔
دنیا کے طاقتور ممالک کو بھی سمجھنا ہوگا کہ موسمیاتی انصاف کے بغیر عالمی امن اور معاشی استحکام ممکن نہیں۔ جب افریقہ کے ریگستانوں، جنوبی ایشیا کے دریاؤں اور لاطینی امریکہ کے جنگلات میں زندگی خطرے میں ہوگی، تو شمال کے شہروں کی خوشحالی بھی دیرپا نہیں رہے گی۔ بیلیم کانفرنس دراصل دنیا کے ضمیر کے سامنے ایک آخری چیتاونی ہے۔ اگر اب بھی عمل نہ کیا گیا تو آنے والی نسلیں نہ جنگلوں میں سانس لے سکیں گی نہ سمندروں کے کنارے زندہ رہ سکیں گی۔
پاکستان کے لیے یہ لمحہ ایک موقع بھی ہے اور امتحان بھی۔ ہمیں اپنی ترجیحات درست کرنی ہوں گی۔ ماحولیاتی پالیسی کو محض بین الاقوامی فنڈز کے حصول کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھنا ہوگا۔ ہمارے لیے جنگ اب زمین بچانے کی جنگ ہے — اپنے دریاؤں، جنگلات، زرخیز مٹی اور ہوا کے تحفظ کی جنگ۔ اگر ہم نے اب قدم نہ اٹھایا تو آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
امازون کے درختوں کی سرسراہٹ میں زمین کی دھڑکن سنی جا سکتی ہے۔ یہ دھڑکن سست ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کے رہنماؤں کے سامنے سوال واضح ہے — الفاظ نہیں، عمل چاہیے۔ پاکستان کو بھی یہ دکھانا ہوگا کہ وہ صرف دنیا سے مدد مانگنے والا ملک نہیں بلکہ دنیا کو نئی سمت دکھانے والا ملک بن سکتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم خواب نہیں حقیقت کی زمین پر کھڑے ہو کر فطرت کا قرض چکانا شروع کریں۔ یہ قرض محض مالی نہیں، اخلاقی بھی ہے۔ زمین ہماری ماں ہے، اور مائیں ہمیشہ دیتی ہیں، لیتی نہیں۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم زمین کو واپس زندگی دیں۔
استحکام کا بھرم اور انسان کی شکست
حکومت کے وزراء آئے دن یہ اعلان کرتے نہیں تھکتے کہ پاکستان نے مشکل مگر ضروری معاشی اقدامات کے ذریعے معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے۔ وہ اسے ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہیں، جیسے اب ملک ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اقتدار کے ایوانوں میں کوئی یہ سمجھنے کو تیار ہے کہ یہ استحکام محض اعداد کا کھیل ہے، جس کا عوام کی زندگیوں پر کوئی حقیقی اثر نہیں پڑا؟ کیا اس استحکام نے اس عوام کو کوئی ریلیف دیا ہے جو مہنگائی، بے روزگاری، بیماری، اور ناامیدی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے؟ اگر معاشی استحکام کا مقصد صرف بجٹ کے خسارے کو کم کرنا، زرِ مبادلہ کے ذخائر کو چند ہفتے بڑھانا، یا قرض دہندگان کا اعتماد حاصل کرنا ہے، تو یہ ایک کھوکھلا استحکام ہے — وہ جو انسانی زندگیوں کو سہولت نہیں دیتا، بلکہ انہیں مزید دشواریوں میں دھکیل دیتا ہے۔
اسلام آباد میں پائیدار ترقیاتی پالیسی ادارے کے زیر اہتمام ہونے والی حالیہ کانفرنس میں اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے نمائندے ڈاکٹر سیموئل رزق نے اسی حقیقت کو نہایت وضاحت سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ دو پاکستانوں کی کہانی ہے‘‘ — ایک وہ جو اقتصادی استحکام کے دعووں سے جگمگاتا ہے، اور دوسرا وہ جس کے عوام انسانی ترقی کے زوال میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان کا مشاہدہ اعداد و شمار سے پوری طرح ثابت ہوتا ہے۔ انسانی ترقی کے عالمی اشاریے میں پاکستان کی درجہ بندی مسلسل نیچے جا رہی ہے۔ رواں برس پاکستان کا اسکور 0.544 رہا، جس کے ساتھ ہم 193 ممالک میں 168ویں نمبر پر ہیں۔ یہ اس سے بھی نیچے ہے جو گزشتہ سال تھا، جب ہمارا درجہ 164 واں تھا۔ یعنی ہم پیچھے جا رہے ہیں، آگے نہیں بڑھ رہے۔
اگر عدم مساوات کے اثرات کو شامل کیا جائے تو یہ اشاریہ مزید 33 فیصد تک گر جاتا ہے، اور پاکستان کا اسکور محض 0.364 رہ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو تھوڑا بہت استحکام ہم نے حاصل کیا، وہ چند طبقوں تک محدود ہے، عوام کی اکثریت اس کے ثمرات سے محروم ہے۔ جب صحت، تعلیم اور معیارِ زندگی میں کوئی بہتری نہ آئے تو پھر معاشی استحکام کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟ اعداد و شمار کا حسن حقیقت کی بدصورتی کو چھپا نہیں سکتا۔
پاکستان کی زمینی حقیقت اس دعوے کی تردید کرتی ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں غذائی قلت کی شرح چالیس فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ پچیس لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ لاکھوں خاندان ایسے ہیں جنہیں صاف پانی، نکاسیِ آب، بنیادی صحت اور محفوظ رہائش تک میسر نہیں۔ شہروں میں غربت کا چہرہ فٹ پاتھ پر سوتے مزدوروں کی شکل میں اور دیہات میں اس کسان کے چہرے پر نظر آتا ہے جو قرض کے بوجھ تلے دب کر اپنی زمین بیچنے پر مجبور ہے۔ حکومت کے اعلانات کے باوجود عام آدمی کے لیے زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل تر ہو رہی ہے۔
اس بگڑتی صورتِ حال میں ایک اور دشمن ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے — موسمیاتی بحران۔ یہ بحران اب کوئی دور کی بات نہیں، یہ ہمارے کھیتوں، گھروں، اسکولوں اور سڑکوں تک پہنچ چکا ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب نے تیس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچایا، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، زرعی معیشت تباہ ہوئی، اور غذائی سلامتی ختم ہو گئی۔ رواں برس کے سیلاب نے مزید تین ارب ڈالر کا نقصان کیا۔ یہ سب اس ملک میں ہوا جو پہلے ہی غربت اور قرض کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ فصلوں کی ناکامی، غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ، اور پینے کے صاف پانی کی کمی نے کمزور طبقات کو مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق غربت میں اضافہ، غذائی قلت، بیماریوں کا پھیلاؤ، اور تعلیمی نظام کی کمزوری اب باہم جڑی ہوئی حقیقتیں بن چکی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک موسمیاتی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے ادارے کمزور ہیں، منصوبہ بندی مختصر المدت ہے، اور وسائل ناکافی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے، ہم ہر بار وہی مناظر دہراتے ہیں — تباہی کے بعد امداد کے وعدے، عالمی کانفرنسوں میں تقاریر، اور پھر خاموشی۔ یہ خاموشی دراصل ناکامی کی علامت ہے۔ ہماری ریاست نے ابھی تک یہ فیصلہ ہی نہیں کیا کہ انسانی ترقی کو معاشی پالیسی کے مرکز میں کیسے لانا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے مسائل میں ایک مسلسل مالی بحران بھی ہے۔ ڈاکٹر رزق نے بتایا کہ پاکستان کو سالانہ تقریباً چودہ ارب ڈالر بین الاقوامی اداروں سے ملتے ہیں، جن میں عالمی مالیاتی ادارہ، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن شامل ہیں۔ مگر اگر ہمیں پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے ہیں تو ہمیں پچاس ارب ڈالر سالانہ درکار ہیں۔ یعنی جو کچھ ہمیں مل رہا ہے وہ ضرورت کے مقابلے میں نہایت معمولی ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی اب بھی قومی پیداوار کے محض دس فیصد کے قریب ہے، جو عالمی معیار سے کہیں کم ہے۔ طاقتور اور منافع بخش شعبے اب بھی ٹیکس کے جال سے باہر ہیں، جب کہ غریبوں پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ریاست کا خزانہ بھرنے کے باوجود عوام کی جیب خالی ہے۔
اس صورتحال میں مالیاتی حکمتِ عملی میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت واقعی پائیدار استحکام چاہتی ہے تو اسے اپنے وسائل کو انسان پر خرچ کرنا ہوگا — تعلیم، صحت، روزگار، صاف ماحول، پینے کے پانی، اور بنیادی سہولتوں پر۔ انسانی ترقی ہی وہ بنیاد ہے جس پر معیشت کھڑی ہوتی ہے۔ اگر انسان بیمار، غیر تعلیم یافتہ اور مایوس ہوگا تو کوئی معیشت مضبوط نہیں ہو سکتی۔ معیشت کا پیمانہ اب صرف زرِ مبادلہ یا خسارے نہیں بلکہ انسانی وقار اور معیارِ زندگی ہونا چاہیے۔
شیئر کریں
:مزید خبریں
یونان کشتی حادثہ: متعدد ایف آئی اے افسران برطرف، ڈپٹی ڈائریکٹر ملتان سمگلرز کا رابطہ کار نکلا
جی ایم نہ چیئرمین این ایچ اے، جنوبی پنجاب ہائی ویز تباہ، حادثات 50 فیصد بڑھ گئے
مظفرگڑھ: فائرنگ سے زخمی نوجوان کی کٹی ٹانگ سمیت لواحقین کااحتجاج
خواتین یونیورسٹی تنازعات کا شکار، وی سی کی بے حسی برقرار، فیکلٹی کی تبدیلی کی دعائیں
پنجاب بھر میں 82 ہزار گاڑیاں، موٹر سائیکلیں بند، طلبہ گھروں میں “قید”
وارڈن سسٹم سے اتھارٹیز تک شاہانہ اخراجات عوام سے پورے کرنے کی خفیہ پالیسی نافذ