نیویارک: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری کشیدگی کو “خطرناک حدوں کو چھوتا ہوا بحران” قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے فوری اور مؤثر عملی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
وہ اقوام متحدہ میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی عالمی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے، جس کا موضوع دو ریاستی حل اور فلسطین کا پرامن حل تھا۔
گوتریس کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن کے نام پر دہائیوں سے صرف دعوے کیے جا رہے ہیں جبکہ حقیقی عمل سے گریز کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق محض بیانات اور قراردادیں ان لاکھوں افراد کے لیے بے معنی ہو چکی ہیں جو سالہا سال سے ظلم، قبضے اور تباہی کا شکار ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ اس دیرینہ تنازع کا واحد منصفانہ اور پائیدار حل یہی ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کو 1967 کی سرحدوں کے مطابق دو آزاد، خودمختار ریاستوں کی صورت میں قائم کیا جائے، جن کا مشترکہ دارالحکومت یروشلم ہو۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے دائرے میں رہ کر ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
سیکرٹری جنرل نے ان قوتوں پر بھی تنقید کی جو دو ریاستی حل کی مخالفت کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ راستہ اختیار نہیں کیا گیا تو کیا متبادل ہے؟ ایک ایسی ریاست جہاں فلسطینی بنیادی حقوق سے محروم ہوں؟ جہاں انہیں ان کی زمینوں سے بےدخل کیا جائے اور وہ مسلسل جبر کا سامنا کریں؟ یہ کسی صورت انصاف یا امن نہیں کہلا سکتا۔
گوتریس نے کہا کہ یہ تنازع نسل در نسل جاری ہے اور عالمی قوانین، قراردادوں اور سفارتی کوششوں کے لیے ایک مستقل چیلنج بنا ہوا ہے۔ تاہم، انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ اگر عالمی قیادت جراتمندانہ فیصلے کرے تو یہ مسئلہ قابلِ حل ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ صرف الفاظ تک محدود نہ رہیں بلکہ اس کانفرنس کو ایک عملی سنگ میل بنائیں تاکہ قبضے کا خاتمہ اور دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت ممکن ہو سکے۔
