آج کی تاریخ

دشمنی کی دہلیز پر

پاکستان اس وقت دو سرحدوں پر کشیدگی کی چکی میں پس رہا ہے — مغرب میں افغان طالبان حکومت کے ساتھ بڑھتی ہوئی تناؤ، اور مشرق میں بھارت کی اشتعال انگیز دھمکیوں کا نیا سلسلہ۔ ان دونوں سمتوں سے ابھرتے خطرات نے نہ صرف علاقائی سلامتی کو ایک بار پھر غیر یقینی میں جھونک دیا ہے بلکہ پاکستان کو سفارتی، عسکری اور سیاسی محاذوں پر چوکنا رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کشیدہ ماحول میں ہر بیان، ہر اقدام اور ہر خاموشی بھی معنی رکھتی ہے — اور اس وقت پاکستان کسی بھی قسم کی غفلت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔بھارت کی حالیہ زبان، الفاظ سے زیادہ بارود کی بو دے رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے، بھارتی فوج اور حکومت کے اعلیٰ عہدیداران نے جو لب و لہجہ اختیار کیا، وہ محض سیاسی نعرے نہیں تھے بلکہ ایک خطرناک حکمت عملی کا عندیہ تھے۔ بھارتی آرمی چیف کی جانب سے پاکستان کو “نقشے سے مٹانے” کی کھلی دھمکی، اور دفاعی وزیر کا سِر کریک کے تنازع پر انتہائی اشتعال انگیز بیان — یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے بیانیے کا حصہ ہے، جو ہندوستان کی طرف سے ایک “نئی حقیقت” (New Normal) قائم کرنے کی کوشش ہے۔یہ وہی بھارت ہے جو ماضی میں خود کو سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا تھا، اب وہی جمہوریت جنگی جنون کا شکار ہو کر خطے کو ایٹمی تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ بھارتی فضائیہ کے سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے مئی کی جھڑپ میں پاکستانی طیارے مار گرائے، ایسی کہانیاں ہیں جو صرف اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے سنائی جاتی ہیں، سچائی سے ان کا تعلق کم اور جنگی پروپیگنڈے سے زیادہ ہوتا ہے۔پاکستان نے ان دھمکیوں کا بروقت، متوازن اور واضح جواب دیا ہے۔ جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت عسکری قیادت کے اجلاس کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اگر بھارت کسی بھی “نئی حقیقت” کے تحت جارحیت کی کوشش کرتا ہے تو اس کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ آئی ایس پی آر نے بھارتی بیانات کو “جنونی، اشتعال انگیز اور خود فریبی پر مبنی” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ جو پاکستان کی “مٹانے” کی بات کرتے ہیں، وہ یاد رکھیں کہ “ایسی کسی کوشش کی صورت میں مٹاؤ یکطرفہ نہیں ہوگا۔”یہ سب کچھ محض زبانی کلامی نہیں۔ بھارت کے حالیہ بیانات کو اگر ان کے داخلی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو حقیقت کچھ اور بھی بھیانک نظر آتی ہے۔ بی جے پی کی حکومت، جو مئی میں ہونے والی جھڑپ میں پاکستان کے ہاتھوں عسکری و سفارتی طور پر شکست کھا چکی ہے، اب اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ایک بار پھر پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکا رہی ہے — کیونکہ بھارت میں الیکشن آ رہے ہیں، اور پاکستان دشمنی وہاں کے حکمرانوں کے لیے ایک پرانی، آزمودہ نسخہ ہے۔تاہم اس بار فرق یہ ہے کہ عالمی منظرنامہ پہلے جیسا نہیں۔ بھارت کو اپنی سابقہ جارحیت پر عالمی برادری سے جو خاموش حمایت حاصل تھی، اب وہ بھی ماند پڑ چکی ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، چین کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے، سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹجک دفاعی معاہدے نے پاکستان کی دفاعی پوزیشن مزید مضبوط کی ہے، اور مغربی دنیا میں بھی بھارت کی جارحانہ پالیسیوں پر تنقید بڑھ رہی ہے۔ خود بھارتی تجزیہ کار اور سابق سفارتکار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت علاقائی اور عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔لیکن اس سب کے باوجود، پاکستان کو ہر لمحہ چوکنا رہنا ہوگا۔ بھارت کا جنگی جنون کوئی نئی بات نہیں، لیکن اس بار اس کا دائرہ وسیع تر اور انداز زیادہ خطرناک ہے۔ اور جہاں ایک طرف مشرقی سرحد سے یہ خطرہ بڑھ رہا ہے، وہیں مغربی سرحد پر افغان طالبان حکومت سے تعلقات میں کشیدگی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر کالعدم ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے، ان کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، اور کابل کی طرف سے تعاون کے بجائے انکار — یہ سب مل کر ایک نیا محاذ کھولنے کے مترادف ہے۔پاکستان کو اب اپنی تمام توجہ مشرقی سرحد کی حفاظت اور مغربی سرحد پر سیکیورٹی کو بہتر بنانے پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ موجودہ صورتحال میں کسی بھی بیرونی عسکری مہم جوئی، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں افواج بھیجنے جیسے فیصلوں سے گریز ضروری ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف ہماری فوجی صلاحیت متاثر ہوگی، بلکہ ملک اندرونی طور پر بھی کمزور ہو سکتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے اب تک عالمی برادری سے جو سیکھا ہے، وہ یہی ہے کہ اصولوں پر مبنی انصاف صرف کمزوروں کے لیے ہوتا ہے۔ طاقتور چاہے تو اقوام متحدہ کی قراردادیں روند سکتا ہے، اور دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ ایسے میں، پاکستان کو اب دوسروں پر نہیں، صرف خود پر بھروسہ کرنا ہوگا۔بھارت کی اشتعال انگیزی کو محض انتخابی حربہ سمجھ کر نظر انداز کرنا خطرناک ہوگا۔ کیونکہ بسا اوقات سیاسی مفاد کی آڑ میں لی گئی کوئی بے وقوفی پوری دنیا کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ پاکستان کو نہ صرف عسکری تیاریوں میں تیزی لانی چاہیے، بلکہ سفارتی سطح پر بھی بھرپور مہم چلانی چاہیے تاکہ دنیا کو بھارت کے جارحانہ عزائم سے آگاہ رکھا جائے۔پاکستانی قوم بھی اب یہ سمجھ چکی ہے کہ سلامتی صرف فوج کی ذمہ داری نہیں، یہ ایک قومی فریضہ ہے۔ ہر شہری، ہر ادارہ، اور ہر قیادت کو چاہیے کہ وہ اس مشکل وقت میں مکمل اتحاد، یکجہتی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ کیونکہ خطرہ صرف سرحد پر نہیں، ہمارے اندر بھی ہے — تقسیم، سیاست بازی، اور مایوسی کی شکل میں۔آخر میں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امن ایک عظیم مقصد ہے، مگر وہ صرف دعاؤں سے نہیں، حقیقت پسندانہ حکمت عملی، واضح عسکری پیغام اور مضبوط سفارتکاری سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر بھارت واقعی جنگ کی راہ اپنانا چاہتا ہے، تو اسے یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان نہ تو کمزور ہے، نہ اکیلا، اور نہ ہی خاموش رہے گا۔یہ وہ لمحہ ہے جب پاکستان کو نہ صرف دنیا کو بلکہ خود اپنے لوگوں کو بھی یہ یقین دلانا ہوگا کہ ہم صرف دشمن کے خواب چکنا چور کرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ اپنے خوابوں کی حفاظت کرنے کے لیے بھی ہر قربانی دیں گے۔ اور یہی ہماری بقا کا اصل راز ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں