آج کی تاریخ

جامعات میں عارضی وائس چانسلرز کا پکا راج، سپیشل پاورز کا بے دریغ استعمال، ایچ ای ڈی رٹ چیلنج-جامعات میں عارضی وائس چانسلرز کا پکا راج، سپیشل پاورز کا بے دریغ استعمال، ایچ ای ڈی رٹ چیلنج-نشترہسپتال ایچ آئی وی معاملہ: وی سی سمیت ڈاکٹرز کو سزائوں کی منظوری-نشترہسپتال ایچ آئی وی معاملہ: وی سی سمیت ڈاکٹرز کو سزائوں کی منظوری-نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں غیر قانونی ترقی، محکمہ صحت رپورٹ پر سپیشل سیکرٹری کا انکوائری کا حکم-نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں غیر قانونی ترقی، محکمہ صحت رپورٹ پر سپیشل سیکرٹری کا انکوائری کا حکم-بہاولپور میں غیر قانونی اسلحہ ڈیلرز خوفزدہ، سی سی ڈی کریک ڈاؤن سے قبل گودام غائب-بہاولپور میں غیر قانونی اسلحہ ڈیلرز خوفزدہ، سی سی ڈی کریک ڈاؤن سے قبل گودام غائب-کچے کے ڈاکوؤں کے حملے، رحیم یار خان پولیس نے ایم-5 پر حفاظتی قافلے تعینات کر دیئے-کچے کے ڈاکوؤں کے حملے، رحیم یار خان پولیس نے ایم-5 پر حفاظتی قافلے تعینات کر دیئے

تازہ ترین

خیبر پختونخوا میں آئینی کشمکش: آئین، سیاست اور اعتماد کا امتحان

خیبر پختونخوا کی سیاست، اس وقت ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں قانون کی تشریح، آئینی شقوں کا اطلاق، سیاسی قوتوں کی نیت اور ریاستی اداروں کا کردار — سب کچھ ایک دوسرے سے الجھ کر ایک پیچیدہ بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ گزشتہ دنوں ہونے والی تبدیلیِ قیادت، اور اس کے گرد پیدا ہونے والی آئینی و سیاسی ہنگامہ خیزی، صرف ایک صوبے کے اندرونی معاملے تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ اب ایک قومی سطح کی آزمائش بنتی جا رہی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے 15 اکتوبر کو جو فیصلہ سنایا، اس میں خیبر پختونخوا کے گورنر کو حکم دیا گیا کہ وہ نومنتخب وزیراعلیٰ سُہیل آفریدی سے اگلے دن شام چار بجے تک حلف لیں۔ اگر گورنر ایسا نہ کریں تو صوبائی اسمبلی کے اسپیکر بابر سلیم سواتی کو متبادل کے طور پر حلف لینے کا اختیار دیا گیا۔ یہ فیصلہ پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سنایا گیا، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ گورنر آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے اور وزیراعلیٰ کے حلف میں دانستہ تاخیر کر رہے ہیں۔
اس تنازع کی جڑ اس وقت کی ہے جب علی امین گنڈا پور — جو اسی جماعت کے تھے — نے پارٹی ہدایت پر وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ گورنر فیصل کریم کنڈی کو بھیجا گیا استعفیٰ پہلے تو ان کے دفتر تک پہنچنے سے ہی انکار کیا گیا، بعدازاں کہا گیا کہ دستخط میں تضاد ہے، اور مزید تصدیق درکار ہے۔ اس دوران پی ٹی آئی نے اسمبلی کا اجلاس بلا کر سہیل آفریدی کو قائد ایوان منتخب کر لیا، جب کہ حزبِ اختلاف نے اجلاس کا بائیکاٹ کر کے انتخاب کو غیر آئینی قرار دیا۔ یہیں سے قانونی، آئینی، اور سیاسی پیچیدگیوں کا آغاز ہوا۔
پاکستان کا آئین واضح طور پر کہتا ہے کہ وزیراعلیٰ کا استعفیٰ تحریری طور پر گورنر کو پیش کیا جائے گا، اور اس کے بعد وہ عہدہ خالی تصور کیا جائے گا۔ اس شق کی تشریح پر ہی دونوں جانب سے دلائل دیے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ علی امین گنڈا پور نے نہ صرف استعفیٰ دیا، بلکہ اسمبلی کے فلور پر اس کا اعلان بھی کیا۔ اس لیے گورنر کی جانب سے اسے “قبول” کرنا ایک غیر متعلقہ قدم ہے۔ دوسری جانب، گورنر ہاؤس کا مؤقف ہے کہ دستخطوں میں تضاد ہے، لہٰذا قانونی تقاضے ابھی مکمل نہیں ہوئے۔
یہ محض ایک قانونی بحث نہیں، بلکہ اس میں سیاسی مفادات، ادارہ جاتی قوت آزمائی، اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان اعتماد کا فقدان بھی شامل ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے سہیل آفریدی کا انتخاب ایک واضح پیغام تھا — پارٹی نے اپنے سخت مؤقف کے حامل شخص کو منتخب کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ اب بھی ریاست کے ان عناصر سے تصادم کے لیے تیار ہے جنہیں وہ “حقیقی اقتدار” کا مرکز سمجھتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سہیل آفریدی کی نامزدگی کے فوراً بعد ریاستی اداروں سے جڑے عناصر اور سرکاری بیانیہ اختیار کرنے والے مبصرین نے ان پر سنگین الزامات عائد کیے — کبھی بدعنوانی، کبھی دہشتگردوں سے روابط، اور کبھی سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ شخص واقعی اتنا “خطرناک” تھا، تو وہ اب تک آزاد کیوں رہا؟ اگر وہ واقعی ناقابل قبول تھا، تو اس پر ریاست نے پہلے کیوں کوئی اقدام نہ کیا؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کیے بغیر اس سارے بیانیے کو محض سیاسی پراپیگنڈہ سمجھا جائے گا۔
پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین کی بالادستی کے حق میں ایک اہم قدم ہے۔ عدالت نے واضح کر دیا کہ وزیراعلیٰ کے استعفیٰ کے لیے گورنر کی منظوری ضروری نہیں، اور اگر گورنر اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہ کریں، تو اسپیکر کو حلف لینے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ عدلیہ ایک بار پھر سیاسی معاملات میں آئینی حدود کو واضح کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اگر عدالتوں کے فیصلے مسلسل سیاسی کشمکش کا حصہ بنتے رہے، تو ان کی غیرجانبداری پر سوال اٹھیں گے، جو عدلیہ کے لیے خود ایک چیلنج بن سکتا ہے۔
گورنر فیصل کریم کنڈی کا مؤقف بھی غور طلب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی حلف لینے سے انکار نہیں کیا، بلکہ وہ کراچی میں سرکاری مصروفیت کے باعث بروقت پشاور نہیں پہنچ سکے۔ مگر عدالت میں ان کے وکیل کی جانب سے جو تاخیری دلائل دیے گئے، وہ اس بات کی نفی کرتے ہیں۔ اگر گورنر نے کبھی انکار نہیں کیا، تو پھر اس معاملے کو طول دینا، دستخطوں پر اعتراضات اٹھانا، اور شخصی تصدیق کے لیے گنڈا پور کو طلب کرنا کس آئینی یا اخلاقی اصول کے تحت درست قرار دیا جا سکتا ہے؟
یہ سارا معاملہ ایک بڑی آئینی آزمائش بن چکا ہے، جس میں آئین کی تشریح کے ساتھ ساتھ سیاسی نیتوں کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔ اگر گورنر کا مؤقف واقعی قانونی تقاضوں پر مبنی تھا، تو عدالت سے رجوع کرنے کے بجائے وہ خود کوئی حکم جاری کرتے، یا مسئلہ حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتے۔ اسی طرح، اگر پی ٹی آئی واقعی آئینی طریقہ کار کو مقدم رکھتی، تو وہ گورنر کی جانب سے باضابطہ طور پر نشست خالی قرار دینے کا انتظار کر سکتی تھی۔
مگر یہاں دونوں جانب جلد بازی، بے اعتمادی اور طاقت کے مظاہرے کی سیاست غالب رہی۔ ایک طرف، پی ٹی آئی نے سہیل آفریدی کو جلد بازی میں قائد ایوان منتخب کر کے اپنا سیاسی وزن دکھایا، دوسری طرف گورنر نے مبینہ طور پر اختیارات کا غیر ضروری استعمال کرتے ہوئے صورتحال کو طول دیا۔ اس کے نتیجے میں پورے صوبے میں آئینی بحران کی کیفیت پیدا ہوئی، جہاں نہ تو سابقہ وزیراعلیٰ عملی طور پر اختیارات میں تھے، اور نہ ہی نئے منتخب وزیراعلیٰ حلف اٹھا سکے تھے۔
اس دوران جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا لطف الرحمٰن کی جانب سے سہیل آفریدی کی انتخابی کامیابی کو عدالت میں چیلنج کرنا، اور اسے غیر آئینی و غیر قانونی قرار دینا، کشیدگی کو مزید بڑھا رہا ہے۔ ان کی درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جب تک علی امین گنڈا پور کا استعفیٰ منظور نہ ہو، اس وقت تک نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب نہیں ہو سکتا۔ یہ مؤقف آئین کی دفعہ 130 کی آٹھویں شق پر مبنی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اگر گنڈا پور خود اسمبلی میں استعفیٰ کی تصدیق کر چکے تھے، تو پھر اس کا مزید انتظار کیوں کیا گیا؟
اس صورتحال نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ آئینی شقوں کی تشریح کے ساتھ اگر سیاسی نیتیں خالص نہ ہوں، تو بحران پیدا ہوتے ہیں۔ آئین کو اپنی سہولت کے مطابق استعمال کرنا، یا ریاستی اداروں کو سیاسی فیصلوں کے نفاذ کے لیے استعمال کرنا، نہ صرف جمہوریت بلکہ وفاقی نظام کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
موجودہ بحران میں ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ حکومتی سطح پر جو بیانیہ دیا جا رہا ہے، وہ عوام کے اعتماد کو متزلزل کر رہا ہے۔ جب سیاسی فیصلے واضح آئینی اصولوں کے بجائے بیانات، سوشل میڈیا پوسٹس، اور دباؤ کی بنیاد پر لیے جائیں، تو عوام میں یہ تاثر گہرا ہوتا ہے کہ قانون صرف ایک فریق کے لیے ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو ریاستی اداروں کے خلاف عوامی ناراضی کو جنم دیتی ہے، اور طویل مدتی سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتی ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ تمام سیاسی فریقین اور ریاستی ادارے آئین کی اصل روح کو تسلیم کریں۔ استعفیٰ ہو یا حلف، انتخاب ہو یا مخالفت — سب کچھ آئینی دائرے میں رہ کر ہونا چاہیے۔ اگر آئین کی ہر شق کو اپنی سہولت سے توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے گا، تو پھر قانون و انصاف کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی۔
پی ٹی آئی کو بھی چاہیے کہ وہ اگر حقیقی جمہوریت کی دعویدار ہے، تو وہ قانون پر عمل درآمد کو اپنی سیاست کا مرکز بنائے، نہ کہ طاقت کے مظاہرے کو۔ اور گورنر سمیت تمام ریاستی نمائندگان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا کردار انتظامی ہونا چاہیے، نہ کہ سیاسی۔
پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک نیا موقع ہے — اس آئینی بحران کو ختم کرنے کا، اور ایک بار پھر جمہوری نظام کو اس کی اصل سمت میں لانے کا۔ اگر اس موقع کو ضائع کیا گیا، تو صرف ایک صوبے میں نہیں، پورے ملک میں آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب قانون صرف کتابوں میں رہ جائے، اور فیصلے بند کمروں میں ہونے لگیں، تو پھر جمہوریت کا انجام ایک تماشہ بن جاتا ہے۔
یہ تماشہ اب بند ہونا چاہیے۔ عوام، آئین اور جمہوریت — تینوں ایک سنجیدہ طرز حکمرانی کے مستحق ہیں۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب سیاست دان، گورنر، عدالتیں، اور بیوروکریسی — سب اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں۔ بصورتِ دیگر، یہ آئینی بحران کسی بڑے سیاسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں