آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

خوفناک خسارہ — پالیسی کی ناکامی کا نوحہ

پاکستان کی معیشت ایک بار پھر خطرناک موڑ پر کھڑی ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارہ 9.4 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے — وہی رفتار جو 2022 میں دیکھی گئی تھی، مگر اُس وقت کم از کم شرحِ نمو اور سرمایہ کاری کی کوئی لہر موجود تھی۔ آج نہ ترقی کا پہیہ چل رہا ہے، نہ سرمایہ کاری کا کوئی اشارہ ہے، نہ برآمدات میں امید کی کرن۔ اس بار خسارہ ہے، مگر آمدن نہیں۔تجارتی خسارہ بذاتِ خود معیشت کے لیے زہر نہیں ہوتا۔ ترقی پذیر ممالک جب صنعتی بنیادیں مضبوط کر رہے ہوتے ہیں، تو مشینری، ٹیکنالوجی اور خام مال کی درآمد میں اضافہ لازمی ہوتا ہے۔ ایسے خسارے سرمایہ کاری سے جڑے ہوتے ہیں اور مستقبل کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ مگر پاکستان کا خسارہ اب کسی ترقی یا پیداواری توسیع سے نہیں، بلکہ اندرونی گراوٹ کا مظہر بن چکا ہے۔گزشتہ پانچ برسوں سے ملک میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری -ایف ڈی آئی نہ ہونے کے برابر ہے — سالانہ اوسطاً ایک ارب ڈالر سے بھی کم، جو جی ڈی پی کا محض ایک فیصد بنتا ہے۔ مالی سال 2025 میں کل ایف ڈی آئی صرف 2.4 ارب ڈالر رہی، جبکہ ہمارا مشرقی پڑوسی اسی مدت میں 80 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کر چکا ہے۔ اگست 2025 میں پاکستان میں محض 156 ملین ڈالر کی خالص سرمایہ کاری آئی، جبکہ صرف ایک مہینے کا تجارتی خسارہ 2.9 ارب ڈالر رہا۔ دوسرے لفظوں میں، سرمایہ کاری نے خسارے کا صرف پانچ فیصد پورا کیا — یہ کوئی سہارا نہیں، ایک شرمندگی ہے۔اس بحران کو اور زیادہ خطرناک بناتا ہے وہ رجحان جو اب ظاہر ہو چکا ہے: بڑی غیر ملکی کمپنیاں پاکستان چھوڑ رہی ہیں۔ یہ کوئی عارضی یا غیر سنجیدہ سرمایہ کار نہیں تھے۔ یہ وہ ادارے تھے جنہوں نے دہائیوں کی سیاسی بے یقینی، توانائی کے بحران، کرنسی کے اتار چڑھاؤ، اور پالیسیوں کے تضادات کے باوجود اس ملک میں کام جاری رکھا۔ مگر اب وہ جا رہے ہیں۔پروکٹر اینڈ گیمبل (P&G) نے اپنی مقامی پیداوار بند کر دی اور تمام آپریشنز تیسرے فریق کو سونپ دیے۔ گیلٹ پاکستان اسٹاک مارکیٹ سے ڈیلِسٹ ہونے پر غور کر رہا ہے۔ یاماہا نے ستمبر میں اپنی موٹر سائیکل فیکٹری بند کر دی۔ اوبر نے پہلے رخصت لی، اور اس کے بعد کریِم نے بھی پاکستان میں آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا۔ شیل نے اپنے شیئرز بیچے، سیمنز نے اپنی انرجی ڈویژن بند کر دی۔یہ کمپنیاں محض منافع کے لیے نہیں آئیں تھیں؛ وہ پاکستان کے نو جوان اور بڑھتے ہوئے صارفین پر یقین رکھتی تھیں۔ ان کا جانا صرف معاشی انخلا نہیں، بلکہ ملک کے مستقبل پر عدم اعتماد کا اعلان ہے۔پاکستان کے پالیسی ساز اب بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وقتی اصلاحات، قرضوں کے پیکج، یا چند دوست ممالک کے ڈالر وقتی سہارا بن جائیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ صرف قانون، استحکام، شفافیت اور اعتماد پر آتا ہے — نہ کہ سیاسی بیانیوں اور معاشی فریب پر۔اب وقت ہے کہ حکومت یہ تسلیم کرے کہ تجارتی خسارہ معیشت کا مسئلہ نہیں، بلکہ نظام کا آئینہ ہے۔ جب تک پالیسی سازی میں پیشہ ورانہ استقلال، اداروں میں احتساب، اور کاروباری ماحول میں پیش بینی پیدا نہیں کی جاتی، ہر استحکام” عارضی اور ہر “بحالی” فریب ہی رہے گی۔پاکستان کا موجودہ تجارتی خسارہ ایک عدد نہیں، ایک انتباہ ہے — کہ اگر ہم نے خود کو درست نہ کیا، تو یہ خسارہ صرف معیشت نہیں، پورے نظامِ ریاست کو نگل جائے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں