ملتان (سٹاف رپورٹر) ’’قوم‘‘ ایک مرتبہ پھر کامیاب۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار روزنامہ قوم کی نشاندہی پر خواتین یونیورسٹی ملتان کی 43 ویں سینڈیکیٹ مورخہ 3 اپریل 2025 اور 23 ویں اکیڈمک کونسل مورخہ 25 مارچ غیر قانونی قرار دے دی گئیں۔ خواتین یونیورسٹی ملتان کی جعلی، غیر قانونی، غیر اخلاقی اور ناجائز پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی دھوکا دہی اور فراڈ پر تصدیق ثبت ہو گئی ۔ گورنر پنجاب/چانسلر نے خواتین یونیورسٹی ملتان کی دھوکا دہی سے بھرپور 43 ویں سینڈیکیٹ میٹنگ اور 23 ویں اکیڈمک کونسل غیر قانونی قرار دے دی۔ جس سے یونیورسٹی میں ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی جانب سے اپنے بارے میں پھیلائی گئی باتوں کی بھی نفی ہو گئی کہ سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ غلام فرید اور گورنر پنجاب ہر کام میں میرے ساتھ ہیں اور وہ مجھے مکمل سپورٹ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ 4 اپریل کو ہونے والی سینڈیکیٹ میٹنگ کے بعد روزنامہ قوم نے مورخہ 9 اپریل کو ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی دھوکا دہی کی بابت خبر شائع کی تھی کہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ، سابقہ رجسٹرار ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان کی ملی بھگت سے غیر قانونی سینڈیکیٹ سے غیر قانونی ایجنڈے منظور کروا رہی ہیں جن کی یونیورسٹی ایکٹ میں کسی قسم کی کوئی گنجائش ہی موجود نہ ہے۔ اسی طرح روزنامہ قوم نے 19 اپریل کو 43 ویں سینڈیکیٹ کے غیر قانونی ہونے کی خبر بمعہ ثبوت شائع کیے جن میں واضح طور پر لکھا کہ خواتین یونیورسٹی ملتان ہا ئر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ہدایات اور قانون سے کھلواڑ کرنے میں سامنے آ گئی۔ خواتین یونیورسٹی ملتان کی سابق اور ریٹائرڈ رجسٹرار ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان کا دھوکا دہی کی ماہر جعلی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی ملی بھگت سے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل سینڈیکیٹ کا اجلاس منعقد کروا کر اپنا پروفیسر کا کنٹریکٹ کا ایجنڈا رکھنا بھی اختیارات سے تجاوز اور ذاتی مفادات کی خاطر قوانین سے ایک بہت بڑا کھلواڑ تھا۔ یونیورسٹی کے ایک اہم سینڈیکیٹ ممبر نے روزنامہ قوم کو بتایا کہ ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان کا ایجنڈا سینڈیکیٹ میں منظور ہی نہ کیا گیا تھا مگر حیران کن طور پر موصول ہونے والے سینڈیکیٹ منٹس تبدیلیاں کرکے منظوری ظاہر کی گئی جو کہ یونیورسٹی کے قوانین سے کھلواڑ کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا دھوکہ بھی ہے۔ حیران کن طور پر نئی تعینات ہونے والی وائس چانسلر ڈاکٹر فرخندہ منصور اپنی تعیناتی کے اگلے دن ہی چھٹی پر چلی گئی تھیں تو وہ 3 ماہ کی چھٹی کے دوران کیونکر سینڈیکیٹ کی صدارت کر سکتی ہیں۔ کیا سینڈیکیٹ کی صدارت کرنے سے پہلے اور سینڈیکیٹ منعقد کرنے سے پہلے انہوں نے اپنی چھٹی ختم کروائی؟ یا پھر کوئی اور نئی تعینات ہونے والی وائس چانسلر ڈاکٹر فرخندہ منصور کو قانونی پیچیدگیوں میں پھنسانے کی خاطر یہ باریک کام کروا رہا ہے؟ روزنامہ قوم کی ریسرچ ٹیم کو حاصل ہونے والے سینڈیکیٹ منٹس کے مطابق خواتین یونیورسٹی ملتان کے ایک اہم ممبر کی جانب سے یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ خواتین یونیورسٹی ملتان کی انتظامیہ نے دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے سینڈیکیٹ میں نامنظور ہونے والے ایجنڈا آئٹمز بھی منٹس ریکارڈ میں منظوری ظاہر کرکے حتمی منظوری کے لئے بھیج دیے۔ جو کہ یونیورسٹی کے قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر فرخندہ منصور میڈیکل طور پر بھی سینڈیکیٹ کروانے کی پوزیشن میں نہ تھیں۔ مگر دھوکہ دہی کی ماہر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے چھٹی پر ہونے کے باوجود ڈاکٹر فرخندہ منصور سے میٹنگ چئیر کروا دی۔ اور حیران کن طور پر “Recorded by Registrar Dr Malika Rani “Endorsed by Pro vice chancellor Dr. Kulsoom Paracha” اور “Approved by Vice Chancellor Dr Farkhanda Mansoor” کسی بھی یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ منٹس پر پرو وائس چانسلر کے دستخط نہیں ہوتے مگر چونکہ اس پوری گیم کا ماسٹر مائنڈ ڈاکٹر کلثوم پراچہ تھیں چنانچہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے اپنی تعینات کردہ رجسٹرار اور وائس چانسلر کو اعتماد میں لیا اور دھوکہ دہی پر مبنی منٹس جاری کیے۔ جس پر لاء منسٹری، فنانس ڈیپارٹمنٹ، ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان اور ہا ئر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے سخت ترین ریمارکس دیے اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے اپنے لیٹر میں لکھا کہ ذمہ داری فکس کی جائے۔ مگر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے تمام دھوکا دہی پر مبنی منٹس کو ٹھیک کر کے سب ڈیپارٹمنٹس کو بھیج دیے جس سے انہوں نے اپنی دھوکہ دہی کا اعتراف بھی کر لیا۔ ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے جس دھوکہ دہی سے جن منٹس میں جھوٹ بول کر اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، ہائر ایجوکیشن کمیشن ، لاء ڈیپارٹمنٹ ، فنانس ڈیپارٹمنٹ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ان میں 41 اور 42 سینڈیکیٹ کے منٹس کو بھی unanimously confirmed ظاہر کیا جبکہ ان کو منظور نہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح 22 اکیڈمک کونسل کے منٹس کو بھی منظور نہ کیا گیا تھا مگر ڈاکٹر پراچہ نے یہاں بھی دھوکادہی کا مظاہرہ کیا۔ڈاکٹر سعدیہ ارشاد کے کیس میں بھی ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی جانب سے دھوکا دہی کا مظاہرہ کیا گیا۔ 145 کمپیوٹر اور 4 ملٹی میڈیا کی خریداری کے لیے بجٹ منظور نہ کیا گیا۔ مگر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے اس میں بھی دھوکہ دہی کا مظاہرہ کیا۔ پروفیسرز، ایسوسی ایٹ پروفیسر، اسسٹنٹ پروفیسر اور لیکچرارز کی کنفرمیشن کے منٹس میں بھی دھوکا دہی کی گئی کیونکہ اس میں ڈاکٹر کلثوم پراچہ بذات خود پروفیسر کنفرمیشن کی امیدوار تھیں۔ اسی طرح لیگل ایڈوائزر کی ایکسٹینشن میں بھی دھوکا دہی کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ پرو وائس چانسلر 12(3) کے تحت استعمال کی گئی پاورز کو 7 دن کے اندر سینڈیکیٹ ممبرز کو نہ بھیج سکیں تو ایسے تمام آرڈرز غیر قانونی ہوں گے۔ سلیکشن بورڈ کی میٹنگ کی سفارشات کو مسترد کیا گیا تھا مگر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے دھوکادہی سے منظور شدہ لکھا۔ ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے پرو وائس چانسلر ہوتے ہوئے اپنے لیے رجسٹرار کے عہدے کی سفارش بھی کی تھی جسے یکسر مسترد کر دیا گیا تھا۔ سابقہ رجسٹرار ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان کو ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت میں توسیع کا ایجنڈا سینڈیکیٹ نے مسترد کیا مگر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے دھوکا دہی سے یہ بھی منظور شدہ لکھا۔ اس پر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے سخت ترین لیٹر بھی لکھا کہ ذمہ داری فکس کی جائے۔ مگر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی غفلت اور نا اہلی سے اس سینڈیکیٹ کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے باوجود کوئی ذمہ داری فکس نہ کی گئی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی بھی یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کا چانسلر کی جانب سے غیر قانونی دیا جانا اس ادارے کی انتظامی بد حالی اور یونیورسٹی انتظامیہ کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ الٹا ڈاکٹر کلثوم پراچہ اپنی اتنی دھوکادہی کے باوجود گزشتہ روز وائس چانسلر کے لیے 35 بہترین امیدواران کے شارٹ لسٹ ہونے کے باوجود خود شارٹ لسٹ نہ ہونے، متعدد انکوائریوں، شکایتوں اور سینڈیکیٹ کے غیر قانونی ہونے کا غصہ نکالتے ہوئے 78 ملازمین کی تنخواہیں کاٹ چکی ہیں۔







