ملتان (سٹاف رپورٹر) خواتین یونیورسٹی ملتان اس وقت شدید انتظامی بد نظمی اور مسلسل تنازعات کا شکار ہےاور ڈاکٹر کلثوم پراچہ پر فیکلٹی اور عملے کی جانب سے متعدد سنگین اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مبینہ طور پر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی مسلسل غفلت اور کمزور نگرانی نے انہیں ایسی انتظامی آزادی دے رکھی ہے جس کے نتیجے میں یونیورسٹی کا ماحول انتشار کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے 12 دن پرانی تاریخ میں ایڈوانسڈ انکریمنٹ کا مبینہ غیر قانونی نوٹیفکیشن جاری کیاجس کے باعث 86 اساتذہ اور ملازمین کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو گیا۔ 28 نومبر کو جب اس معاملے کی خبر روزنامہ قوم میں سامنے آئی تو انہوں نے وقتی طور پر کٹوتیاں روک دیںمگر یکم دسمبر کو دفتر آتے ہی مبینہ طور پر غیر معمولی گھبراہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنخواہیں روکنے اور 78 ملازمین سے ریکوری شروع کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ متاثرہ فیکلٹی نے جناح ہال کے سامنے احتجاج بھی کیا مگر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے کسی بات کو سننے یا صورتِ حال کا ازسرنو جائزہ لینے سے انکار کر دیا اور صاف الفاظ میں کہا کہ آپ لوگ اپنے اپنے آفس میں چلے جائیں۔ میں نے آپ کی کوئی بات نہیں سننی۔ یا تو ملازمین خود ریکوریاں جمع کروائیںورنہ وہ اپنی طے شدہ کارروائی جاری رکھیں گی۔ ایک فیکلٹی ممبر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’ہم دعا کر رہے ہیں کہ نئی وائس چانسلر جلد تعینات ہو جائے۔ ہمارے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، وہ ناانصافی کی حدوں سے بڑھ چکا ہے۔‘‘ دوسرے سٹاف ممبر نے نوٹیفکیشن کی تکنیکی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر پراچہ نے بیک ڈیٹ نوٹیفکیشن تو جاری کیا مگر اس کے لازمی وقت اور قانونی تقاضوں کا خیال نہ رکھا جس کی وجہ سے وہ نوٹیفکیشن ازخود غیر مؤثر ہے۔ ان کے بقول اس نوٹیفکیشن پر عمل کروانے والی خزانچی کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کس غیر پیشہ ورانہ عمل کا حصہ بن رہی ہیں۔ ایک اور ملازم نے شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے ذاتی اخراجات جن میں پٹرول اور گاڑی کی دیکھ بھال شامل ہے ہر ماہ لاکھوں روپے میں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ملازمین پر مالی بوجھ ڈالنے سے گریز نہیں کر رہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں انہیں ہمارے حالات کا کوئی احساس نہیں۔ فیکلٹی اور عملے نے چانسلر اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ یا تو جلد از جلد نئی وائس چانسلر تعینات کی جائے یا پھر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کو مبینہ طور پر جاری غیر قانونی انتظامی اقدامات سے روکا جائے کیونکہ ان کے بقول موجودہ صورتحال ملازمین کی روزی روٹی تک کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ ایک اور سٹاف ممبر نے بتایا کہ اگر ان کی لا تعداد شکایات اور نا اہلی پر ان کو شارٹ لسٹ نہیں کیا گیا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ جبکہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ اس بات کا واضح اظہار کر چکی ہیں کہ فیکلٹی نے میرا ساتھ نہیں دیا تو میں آپ کے انکریمنٹس کاٹ کر رہوں گی۔ جبکہ ایک فیکلٹی ممبر کے مطابق ہم نے عارضی وائس چانسلر کے چارج کے باوجود ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے تمام قانونی اور غیر قانونی کاموں میں بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ گرینڈ گالا کے موقع پر بھی ہم نے طالبات کو زبردستی گرینڈ گالا میں شرکت پر راضی کیا جبکہ طالبات کو کسی قسم کی کوئی رسید بھی فراہم نہ کی گئی۔







