آج کی تاریخ

خواتین کے ساتھ ہراسگی، وفاقی اردو یونیورسٹی آف آرٹس کے وائس چانسلر کو سرزنش کی سزا

ملتان (سٹاف رپورٹر) وفاقی محتسب برائے تحفظ خواتین از ہراسگی (FOSPAH) نے وفاقی اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (FUUAST) کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کو کام کی جگہ پر ہراسگی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان پر سرزنش (Censure) کی معمولی سزا عائد کر دی ہے۔ وفاقی محتسب فوزیہ وقار کی جانب سے 15 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ وائس چانسلر نے خواتین اساتذہ، خصوصاً ایک خاتون لیکچرار کے بارے میں بار بار صنفی تعصب پر مبنی تحقیر آمیز تبصرے کیے، جن میں یہ کہنا شامل تھا کہ “35 سال سے زائد عمر کی خواتین کی ذہنی حالت غیر مستحکم ہو جاتی ہے۔” فیصلے میں کہا گیا کہ وائس چانسلر کے یہ بیانات “بنیادی طور پر جنسی امتیاز پر مبنی، تذلیل آمیز اور صنفی دقیانوسی تصورات کو فروغ دینے والے ہیں، جو کام کی جگہ پر مخالفانہ ماحول پیدا کرتے ہیں۔” خاتون لیکچرار نے اپنی شکایت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ وائس چانسلر ان کے متعلق نامناسب تبصرے کرتے تھے، جب کہ شعبہ کمپیوٹر سائنس کے سربراہ بار بار انہیں گھر چھوڑنے اور لینے کی پیشکش کرتے تھے۔ تاہم دوسرے ملزم کے خلاف ثبوت ناکافی ہونے پر شکایت مسترد کر دی گئی، لیکن وائس چانسلر کے ریمارکس پر محتسب نے سخت نوٹس لیا۔ فیصلے کے مطابق، ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کا رویہ ہراسگی سے تحفظ کے قانون 2010 کی دفعات 2(h)(i) اور 2(h)(ii) کے تحت صنفی امتیاز اور جنسی طور پر تذلیل آمیز رویے کے زمرے میں آتا ہے۔ محتسب نے وائس چانسلر پر قانون کی شق 4(4)(i)(a) کے تحت سرزنش کی سزا دیتے ہوئے یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کو ہدایت کی کہ ان کے رویے کی نگرانی کی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مستقبل میں ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو وائس چانسلر کے رویے بارے ایک ہفتے کے اندر تعمیل رپورٹ جمع محتسب کے دفتر کرانے کی بھی ہدایت دی گئی۔ مزید برآں، محتسب نے یونیورسٹی کو ہدایت کی کہ ادارے میں جنسی ہراسگی سے بچاؤ کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں، جن میں ایک مستقل انکوائری کمیٹی کا قیام، ضابطۂ اخلاق کی نمایاں تشہیراور عملے و طلبہ کے لیے باقاعدہ آگاہی و تربیتی ورکشاپس شامل ہوں۔ فوزیہ وقار نے اپنے فیصلے میں کہا کہ “یونیورسٹی کے سربراہان پر اخلاقی و ادارہ جاتی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صنفی حساسیت کی بہترین مثال قائم کریں، کیونکہ ان کے الفاظ اور طرزِ عمل تعلیمی اداروں کے کلچر پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔” انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ صنفی تعصب سے لاعلمی کسی کو اس کی ذمہ داری سے بری نہیں کر سکتی،” اور لاعلمی کو امتیازی رویے کا جواز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں