رودادِ زندگی) ڈاکٹرظفرچوہدری)
میں نے لبرل ازم اور فرقہ واریت کے عنوان سے اپنے کالم کی جو آخری قسط لکھی اس پر میرے کلاس فیلو رانا اکرم صاحب نے کچھ اعتراض کیا اور ساتھ ہی پروفیسر ڈاکٹر ہارون پاشا صاحب نے کینیڈا سے پسندیدگی کا میسج کیا۔ اس قسم کی مختلف ارا کی وجہ سے میں پچھلے ایک ہفتہ سے میں سوچتا رہا کہ مزید کیا لکھوں۔ کیونکہ میں تو اپنی زندگی کی کہانی لکھنا چاہتا ہوں درمیاں میں کوئی نہ کوئی ایسا مرحلہ آ جاتا ہے کہ میں ٹریک سے اتر جاتا ہوں یعنی بھٹک جاتا ہوں۔ میرے دوستوں جن میں میاں غفار اور میرا بیٹا عبداللہ بھی شامل ہیں مشورہ دیا کہ آپ اِس بارے مزید بھی ضرور لکھیں۔
رانا اکرم صاحب نے اعترا ض کیا کہ قصبہ روہیلانوالی میں امام بارگاہ کے مسئلہ پر صرف دیو بندی حضرات نے ہی نہیں بریلوی حضرات نے بھی اعتراض کیا تھا اور انہوں نے 1983/84کے ایک ناخوشگوار واقعہ کا بھی ذکر کیا، میں چونکہ فرقہ واریت کے ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کے لیے نفرت دل میں رکھنے اور پیدا کرنے کے بھی سخت خلاف ہوں اِس لیے اِس واقعہ کا میں نے جان بوجھ کر ذکر نہیں کیا کیونکہ میں تو 1973/74 تک کے واقعات کا ذکر رہا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جو مہاجرین ہندوستان سے آ کر روہیلانوالی میں آباد ہوئے ان میں میرے نانا جان کا خاندان بھی شامل تھا۔ اس وقت دیوبندی اور بریلوی کا عملی طور پر کوئی وجود ہی نہ تھا بلکہ شیعہ سنی کے مابین بھی کوئی نفرت تو دور کی بات خاص اختلاف بھینہیں پایا جاتا تھا۔ 1983/84میں روہیلانوالی میں امام بارگاہ سے جلوس نکالنے کی کوشش کی گئی تو دیو بندی اور بریلوی مشتعل ہو گئے اور جلوس کے شرکاء کو امام بارگاہ سے باہر ہی نہ نکلنے دیا کہ اس وقت کالعدم سپاہ صحابہ وجود میں آ چکی تھی۔ میں نے ہمیشہ شیعہ سنی مسئلہ کو عرب ایران کی پانچ ہزار سالہ کشمکش کے حوالے سے پرکھنے اور جاننے کی کوشش کی ہے۔ مگر میں اپنی کم علمی کی وجہ سے اس پر کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اس روز جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بقول رانا اکرم صاحب کچھ شر پسند جھگڑا کروا کر امام بارگاہ کے قیمتی رقبے پر قبضہ کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔ اہل تشیع نے وقت کی نزاکت کو بروقت سمجھ لیا اور معاملہ ختم ہو گیا۔
کچھ سنی حضرات کا کہنا تھا کہ اُس وقت تھانہ روہیلانوالی کا ایس ایچ او اہل تشیع سے تعلق رکھتا تھا اس کی سرپرستی میں جلوس نکالنے کی کوشش کی گئی۔ کیونکہ میرا چھوٹا بھائی چوہدری لیاقت مرحوم بھی ان دنوں سنی حضرات کے ’’پرجوش مجاہدین‘‘ میں شامل تھا میں نے جب اس بارے اس سے پوچھا اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تو اس نے اور بعد میں رانا اکرم صاحب نے بھی بتایا کہ روہیلانوالی فٹ بال کلب کی رجسٹریشن رکوانا بھی تو ایک مقصد تھا۔ میں نے لیاقت سے کہا تم میری طرح نماز تو باقاعدگی سے پڑھتے نہیں پھر اتنا جوش کیوں اور کیسے تمہارے اندر آ گیا تو اس نے بتایا کہ مذہب کی وجہ سے غیرت کا تو یہی تقاضا تھا تو میں نے کہا کیا زندگی میں کبھی تھانہ پٹوار خانہ اور زمینداروں کے ظلم کے خلاف بھی تمہاری غیرت نے جوش مارا ہے تو وہ چپ ہو گیا میں نے اسے کہا کہ تم اپنی تعلیم سے زیادہ فٹ بال میں دلچسپی لیتے ہو۔ اپنی تعلیم پر توجہ دو اس وقت وہ ایف اے کر چکا تھا پھر میں نے اس سے کہا کہ ہم تو بچپن میں اہل تشیع کا جلوس دیکھنے ڈیڑھ دو میل کا سفر کر کے بھونڈے والی گائوں جایا کرتے تھے۔ اب اگر یہ سہولت اپنے قصبہ میں ہی مل رہی تھی تو حرج ہی کیا ہے میں جانتا تھا کہ اس وقت شیعہ سنی فرقہ وارانہ آگ کو ہمارے ’’دوست‘‘ مسلمان ممالک نے ہی ہمارے ملک میں خوب بھڑکایا ہوا تھا اور ہمارا ملک چند صاحبان اقتدار کی وجہ سے دوسرے ممالک کی پراکسی وار کی زد میں آ گیا تھا۔ رانا اکرم صاحب میرے جماعت اول سے دہم تک کلاس فیلو رہے ہیں۔ ہمارا بچپن اکٹھے گذرا وہ بھی اپنے والد صاحب کی طرح بہت شریف مہذب اور ہمدرد انسان ہیں۔
میں نے انہیں یاد دلایا کہ جب امام بارگاہ کے قیام پر اعتراض ہوا تھا تو اس وقت ان کی برادری کے بزرگوں نے جائز اعتراض اٹھایا تھا۔ کیونکہ ان کی برادری کے بزرگ زیادہ پڑھے لکھے تھے اور خاص طور پر ان کے والد صاحب و دیگر بہت سمجھدار لوگ تھے۔ بعد میں جب دیو بندی بریلوی کا مسئلہ 1965ء میں پیدا ہوا تو ان کی برادری کی اکثریت دیو بندی مسلک کی پیرو کار بن چکی تھی۔ میرے والد صاحب اور نانا جان کے تعلقات اسی برادری سے زیادہ تھے وہ بریلوی مسلک سے تعلق ہونے کے باوجود دیوبندی مساجد اور عید گاہ میں نماز پڑھتے تھے۔ میں شروع سے ہی کسی مسلکی انتہا پسندی کا شکار نہیں ہوا۔
قیام پاکستان سے قبل میں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ ہندو ، مسلم، سکھ اور عیسائی میں کوئی بھی نفرت نہ تھی ۔ پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ 1965ء سے پہلے پاکستان میں ہندوں کی رسوم دیوالی اور دسہرہ پر باقاعدہ چھٹی ہوتی تھی۔ ملتان میں 1987ء میں محرم میں میری ڈیوٹی لگی تھی اس وقت ملتان میں کل 125 کے قریب جلوس اور تعزیے نکلتے تھے ان میں 87 سنی مسلمانوں کے تھے۔ اور شاید یہ بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ استاد اور شاگرد کا مشہور تعزیہ بھی سنیوں ہی کا ہے اسی طرح قیام پاکستان سے پہلے ہندو بھی محرم منایا کرتے تھے اور وہ بھی جلوس کے شرکاء کیلئے پانی کی سبیل اور نیاز بانٹا کرتے تھے۔ چھوٹے موٹے ہندو مسلم جھگڑے ہو بھی جاتے تھے مگر ہندوؤں مسلمانوں اور سکھوں میں معاشرتی تعلقات عمومی طور پر خوشگوار رہتے تھے۔ انتہا پسند ہندو تنظیمیں اسی وقت بھی موجود تھیں مگر انہیں ہندؤوں میں عوامی طور پر زیادہ پذیرائی نہیں ملتی تھی ۔ مسلمانوں میں وہابی فرقہ سے سنی اور اہل تشیع زیادہ ناراض رہتے تھے میں نے بچپن میں بزرگوں سے یہ واقعہ سن رکھا تھا کہ مسلمان مولوی نے ایک ہندو بنیے سے ناراض ہو کر اسے دھمکی دی تھی کہ کل جمعہ کے خطبے میں مسلمانوں کو بتائوں گا رام لال وہابی ہو گیا ہے یہ سن کر ہندو بنیے نے مولوی صاحب سے فوراً معافی مانگ لی۔ (جاری ہے)