آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

خواب اور سراب (قسط نمبر 2)

تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری (رودادِ زندگی)

رانا اکرم صاحب سے میٹرک کے بعد ملاقات صرف چھٹیوں اور عیدین پر ہی ہوتی تھی وہ پیپلز پارٹی کے سخت مخالف ہیں وہ ہی نہیں بلکہ بھارت سے آنے والے اکثر مہاجرین پی پی کے خلاف ہوتے تھے۔ ہمارے قصبہ میں جماعت اسلامی کا یونٹ رانا صابر کی سربراہی میں 1960ء کے عشرے میں قائم ہو چکا تھا۔ میرے خیال میں ابھی تک اگر کسی جماعت کا کوئی انتظامی ڈھانچہ روہیلانوالی میں ہے تو صرف جماعت اسلامی ہی کا ہے بعد میں مہاجرین کی اولادوں کی اکثریت بھٹو دشمنی میں جنرل ضیا الحق کی حامی بن گئی جن میں رانا اکرم صاحب بھی ہیں اور پھر وہ نواز شریف کے حامی بن گئے تاہم آج کل عمران خان کی محبت کے اسیر ہیں لیکن رانا اکرم صاحب کا جماعت اسلامی سے تعلق مستحکم ہی رہا ۔ میری رانا اکرم صاحب سے اس موضوع پر کبھی بحث نہیں ہوئی کیونکہ ہم دونوں ہی اپنے دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات کو نظریاتی اختلافات کی بھینٹ چڑھانا نہیں چاہتے تھے۔ رانا اکرم صاحب کا زیادہ تر وقت قصبہ روہیلانوالی میں ہی گزرا ہے کیونکہ انہوں نے مظفر گڑھ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کر لی تھی اور ملازمت بھی زیادہ تر اپنے آبائی علاقے کے گرد و نواح ہی میں کی، اب میری طرح ریٹائرڈ ہو گئے ہیں۔ دوسرا میں نے پروفیسر ڈاکٹر ہارون پاشا صاحب کا ذکر کیا ہے ڈاکٹری کے علاوہ ڈاکٹر پاشا کی سیاست اور ادب پر بھی گہری نظر ہے۔ میرے کالم لکھنے پر جو دلچسپی لی اور حوصلہ افزائی کی ہے یہ میرے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر اشفاق جسکانی صاحب ادب کے دلدادہ ہیں وہ پاشا صاحب کے استاد اور میرے دوست و برادرِ بزرگ ہونے کی وجہ سے میرے ’’لکھاری‘‘ بننے پر اپنی آرا سے نوازتے اور رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔
پاشا صاحب آج کل سیر و سیاحت کیلئے کینیڈا گئے ہوئے ہیں انہوں نے مجھے میسج کیا کہ لبرل ازم اور فرقہ واریت پر جو تم نے کالم لکھے ہیں یہ بندے کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں آپ ایسا ہی لکھیں میرے بیٹے عبداللہ نے کہا جب کوئی تحریر آپ کو کنفیوز کر کے سوچنے پر مجبور کر دے وہی تحریر آپ کو تحقیق کی طرف لے جاتی ہے مگر ہمارے نصاب اور ادب سے یہ چیز کافی عرصہ سے غائب ہو چکی ہے کیونکہ جس معاشرے میں سوال اٹھانے اور دلیل سے بات کرنے کی اجازت نہ ہو اوپر سے ہر بندہ ہر وقت کفر کے فتووں کی زد میں ہو تو ایسے معاشرے میں تحقیق اور جستجو کا سفر جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ ایسے معاشروں میں بڑے دماغ کم ہی ملتے ہیں البتہ ڈولے شاہ کے کم عقل چوہے عام پائے جاتے ہیں
ہم پاکستانی اس مقام تک کیسے اور کیونکر پہنچے میں نے جو تھوڑا بہت قیام پاکستان سے لیکر اپنے بچپن تک اور پھر جو آج تک دیکھا، سنا اور پڑھا اس بارے لکھوں تو ہو سکتا ہے بہت سارے لوگ میرے خیالات سے متفق نہ ہوں تاہم اگر میں چند افراد ہی کو سوچنے اور غور و فکر پر آمادہ کر سکا تو موجودہ صورتحال میں یہی میری کامیابی ہو گی۔
ویسے آج کل سوشل میڈیا پر جتنے ’’دانشور ‘‘ پیدا ہو چکے ہیں اور جس طرح ان کے ہاتھوں دانشوری کا کھلواڑ ہو رہا ہے اس کے بعد دانشوری کی ضرورت نہیں رہتی۔ جو باتیں میں لکھنا چاہتا ہوں بہت سے لوگ اس سے پہلے ہی آگاہ ہوں گے کہ جب ہمارا ملک معرض وجود آیا تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر بنایا اور یہ اللہ کے معجزوں میں سے ایک ایسا معجزہ ہے جو کسی خاص مقصد کیلئے تخلیق کیا گیا۔ پھر یہ چورن فروشی کی گئی کہ یہاں کے باسی دنیا کے عظیم ترین لوگوں میں ہیں اور یہ ملک اسلام کا خود ساختہ قلعہ قرار دے دیا گیا اوپر سے ہم نے خود بخود ہی دنیا کے تمام مسلمانوں کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھال لی ہے پھر یہ بھی مسلسل بتایا جاتا رہا ہے بھارت ہمارا وجود ماننے سے انکاری ہے اور ہمارے وجود کا خاتمہ کر کے اسے اکھنڈ بھارت میں شامل کرنا چاہتا ہے اور ہندو ہمارے ازلی دشمن ہیں ہمیں بتایا جاتا رہا کہ ہم نے صرف کشمیر ہی فتح نہیں کرنا بلکہ لال قلعہ، دہلی پر بھی سبز جھنڈا لہرانا ہے۔ یہود اور ہنود ہمارے ازلی دشمن ہونے کے ساتھ ہر وقت ہمارے ہی خلاف سازشیں کرتے ہیں ( دشمن آپ کے خلاف سازشیں نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا) اسی کے ساتھ ساتھ گذشتہ 76 سالوں میں ہمیں بتایا گیا کہ اسلام خطرے میں اور پاکستان شدید خطرے میں ہے۔ آپ خود غور فرمائیں کہ یہ بیانیہ جو ہمارے ذہنوں میں ٹھونس دیا گیا اس میں کیسے کیسے تضادات ہیں۔ خالق کہ جس نے اتنی بڑی کائنات تخلیق کی ہے اگر یہ ملک خاص مقصد کیلئے میرے پیارے رب نے تخلیق کیا ہے تو پھر رب کائنات کی اس ’’عظیم تخلیق‘‘ کو خطرہ کیسے ہو سکتا ہے اور اسلام کے سچا ہونے کی گواہی جب میرے رب نے دی ہے تو اسے پاکستان میں ہی کیونکر خطرہ ہو سکتا ہے بھئی کرہ ارض پر اور بھی مسلمان ممالک ہیں۔ چنگیز خان کی تمام حشر سامانیوں کے باوجود اگر اسلام کا کچھ نہیں بگڑا تو اب کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ انگریزوں کی غلامی کے دور میں بھی اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہوا تو ایسے ملک میں اب کیونکر ہو سکتا ہے جس کی 90 فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔ میرے رب نے تو چنگیز خان کی اولاد میں سے بھی اسلام کے محافظ پیدا کر دیئے تھے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں