آج کی تاریخ

Imran Khan, PTI, Adiala Jail, Judicial Commission, May 9, November 26, Negotiation, Establishment, Court Cases, Toshakhana Case, Al-Qadir University Case, Aliema Khan, Missing Persons, Judicial System, Political Statements, Pakistan Politics

خاموشی کا خطرہ

عمران خان کی ایک اور مبینہ کھلی چٹھی، جو آرمی چیف کے نام منسوب کی گئی، گزشتہ ہفتے کے آخر میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم کی جانب سے یا ان کے بارے میں آنے والی کوئی بھی خبر فوراً عوام کی توجہ حاصل کر لیتی ہے، اور یہی معاملہ اس خط کے ساتھ بھی ہوا۔ لوگوں نے اس کے مندرجات پر تبصرے کیے، اس کے سیاسی اثرات پر بحث کی، اور اس کی سچائی پر سوالات اٹھائے۔ لیکن اصل سوال یہ پیدا ہوا کہ آیا یہ الفاظ واقعی عمران خان کے ہیں یا کسی اور کی تشریح، جو انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں یا وکلاء کے ساتھ مختصر ملاقاتوں کے دوران کی ہو؟یہ پہلی بار نہیں کہ عمران خان کا نام کسی ایسے خط کے ساتھ جوڑا گیا ہو، جسے کسی نے باقاعدہ لکھا نہ ہو۔ جیل میں قید ہونے کے بعد سے وہ براہ راست کسی سے رابطہ نہیں کر سکتے، نہ ہی انہیں سوشل میڈیا تک رسائی حاصل ہے۔ ان کے اردگرد موجود افراد کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے کہ کس کو ان سے ملاقات کا موقع ملے اور کس کو نہیں۔ خود عمران خان بھی کئی بار شکوہ کر چکے ہیں کہ وہ اپنی ملاقاتوں پر اختیار نہیں رکھتے۔ پی ٹی آئی کے کئی سینئر رہنماؤں کو یہ تک معلوم نہیں کہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کون چلا رہا ہے، جبکہ بعض نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ ان اکاؤنٹس سے کی جانے والی سخت گیر پوسٹنگ پارٹی کے سفارتی حل تلاش کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔یہ صورتحال پی ٹی آئی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایک جماعت جس کے اندر مختلف گروہ بیانیے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے برسرِ پیکار ہوں، اس کا واضح موقف طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں، پارٹی کا باضابطہ موقف کیا ہے، اس کا تعین کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ صرف ایک جماعت کا نہیں بلکہ ریاست کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ عمران خان کے میڈیا بلیک آؤٹ کی پالیسی، اور انہیں عوامی سطح پر خاموش رکھنے کی حکمتِ عملی، غیر متوقع نتائج پیدا کر رہی ہے۔ لوگوں کو جب مرکزی میڈیا پر عمران خان کے بیانات نہیں ملتے تو وہ سوشل میڈیا پر متبادل ذرائع کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ چونکہ عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو لاکھوں لوگ فالو کرتے ہیں، اس لیے جو کچھ بھی وہاں پوسٹ کیا جاتا ہے، وہ تیزی سے وائرل ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی معلومات غلط یا مبالغہ آمیز ہوں، تو وہ بھی عوام تک پہنچ جاتی ہیں، اور ان کے اثرات دور رس ہو سکتے ہیں۔عمران خان نے تاحال اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے نشر ہونے والے بیانیے پر کوئی واضح اعتراض نہیں کیا، لیکن خطرہ بہرحال موجود ہے۔ اگر ان اکاؤنٹس کے منتظمین کسی وقت بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں یا کوئی غیر محتاط پیغام شائع کر دیں، تو صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ یہ معاملہ محض ایک سیاسی جماعت کی ساکھ کا نہیں بلکہ قومی استحکام کا ہے۔ پاکستان کی سیاست پہلے ہی شدید تنازعات اور تقسیم کا شکار ہے۔ ایسے میں اگر بیانیہ قابو سے باہر ہو جائے، یا سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلنے لگیں، تو اس کے نتیجے میں مزید بے یقینی اور سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔یہ ضروری ہے کہ تمام فریق تحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسی کسی بھی سرگرمی سے گریز کریں جو کشیدگی کو ہوا دے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی مخالفین کو غیر ضروری طور پر خاموش کرنے کی پالیسی پر نظرثانی کرے، کیونکہ اس کا الٹا اثر ہو سکتا ہے۔ جب کسی رہنما کی آواز مکمل طور پر دبا دی جاتی ہے، تو عوام متبادل ذرائع کی تلاش میں نکلتے ہیں، اور اس صورت میں غیر مصدقہ معلومات کی ترسیل بڑھ جاتی ہے۔ دوسری جانب، پی ٹی آئی قیادت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیانیے کو واضح اور ذمہ دارانہ انداز میں پیش کرے۔ اگر جماعت کے اندرونی حلقوں میں انتشار جاری رہا، تو نہ صرف پارٹی کمزور ہو گی بلکہ اس کے حامیوں میں بھی بے یقینی بڑھے گی۔ اگر پی ٹی آئی کی قیادت عمران خان کے پیغامات کو یکجا کرنے میں ناکام رہی، تو اس کا نقصان خود جماعت کو ہی ہو گا۔میڈیا کی آزادی جمہوری نظام کے لیے ناگزیر ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کی ذمہ داری بھی اتنی ہی اہم ہے۔ اگر ریاست کسی رہنما کے بیانات کو مکمل طور پر دبانے کی پالیسی اختیار کرے، تو اس سے متبادل ذرائع کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، جن میں اکثر غیر مصدقہ اور متنازع معلومات شامل ہو سکتی ہیں۔ پاکستان میں میڈیا اور ریاست کے تعلقات ہمیشہ پیچیدہ رہے ہیں، اور وقتاً فوقتاً آزادی صحافت پر پابندیاں بھی لگائی جاتی رہی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب روایتی میڈیا پر قدغن لگتی ہے، تو سوشل میڈیا کا کردار مزید بڑھ جاتا ہے، اور یوں غیر مستند معلومات کو فروغ ملتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عوام تک درست اور تصدیق شدہ معلومات پہنچائی جائیں، تاکہ کسی بھی قسم کی غلط فہمی یا انتشار پیدا نہ ہو۔اس وقت پاکستان کو ایک ایسے سیاسی اور میڈیا ماحول کی ضرورت ہے جہاں اختلافِ رائے کو دبانے کے بجائے اسے سنبھالنے کی کوشش کی جائے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز—حکومت، اپوزیشن، اور میڈیا—کو ایک متوازن حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی قیادت کو مکمل طور پر خاموش کرنے کی پالیسی پر غور کرے، کیونکہ اس سے غیر مصدقہ ذرائع کی اہمیت بڑھتی ہے۔ پی ٹی آئی کو اپنی داخلی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا تاکہ پارٹی کا بیانیہ واضح اور مربوط رہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ غیر جانبداری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام تک مستند معلومات پہنچائے۔پاکستان ایک نازک سیاسی اور معاشرتی دور سے گزر رہا ہے، جہاں غلط اطلاعات اور کنٹرول شدہ بیانیہ دونوں ہی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر عمران خان کو اظہارِ رائے کا موقع دیا جائے، تو ان کے اصل خیالات عوام تک پہنچ سکتے ہیں، اور غیر مصدقہ ذرائع کی ضرورت کم ہو جائے گی۔ سیاسی ماحول کو مزید پیچیدہ بنانے کے بجائے، بہتر ہوگا کہ تمام فریق ایک ایسا راستہ اختیار کریں جو مکالمے اور مصالحت کی طرف لے جائے۔ خاموشی ہر وقت بہترین حکمتِ عملی نہیں ہوتی، کیونکہ بعض اوقات خاموشی خود ایک خطرہ بن جاتی ہے۔

گلگت بلتستان: کامیابی کے بعد خطرات کی گھنٹی

نیویارک ٹریول اینڈ ایڈونچر شو 2025 میں پاکستان کو بیسٹ پارٹنر پیویلین ایوارڈ ملنا قومی سیاحتی شعبے کے لیے ایک بڑی جیت ہے۔ یہ اعزاز گلگت بلتستان کی بے مثال قدرتی خوبصورتی اور مہم جوئی کے مواقع کی عالمی سطح پر توثیق کرتا ہے اور پاکستان کو دنیا کے نمایاں سیاحتی مقامات میں شامل کرتا ہے۔ خاص طور پر غیر ملکی سیاحوں کی بھرپور دلچسپی، جو دنیا کی پانچ بلند ترین چوٹیوں میں سے پانچ کو اپنے سامنے دیکھنے کا خواب رکھتے ہیں، اس خطے کے لیے شاندار مواقع پیدا کر سکتی ہے۔ لیکن اس کامیابی کے ساتھ ایک خطرناک حقیقت بھی جڑی ہے: بے قابو سیاحت کے نتیجے میں ماحولیاتی اور ثقافتی تباہی کا خدشہ۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے، تو یہ کامیابی خود اسی خطے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔گلگت بلتستان میں سیاحوں کی بے تحاشا آمد نے پہلے ہی کئی مسائل کو جنم دیا ہے، جن میں سب سے سنگین ماحولیاتی بگاڑ ہے۔ ہنزہ، سکردو اور فیری میڈوز جیسے مشہور مقامات پر کچرے کے ڈھیر بڑھتے جا رہے ہیں، جنگلات کی کٹائی سے قدرتی توازن بگڑ رہا ہے، اور آبی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ غیر منصوبہ بند ترقی ہے، جہاں ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کی بے ہنگم تعمیر فطری حسن کو تباہ کر رہی ہے۔ ماحولیات کو نظرانداز کرتے ہوئے کمرشلائزیشن کا یہ رجحان جلد ہی ان علاقوں کی اصل کشش کو ہی ختم کر سکتا ہے۔ماحولیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ، ثقافتی بے حسی بھی ایک نیا چیلنج بن کر ابھر رہی ہے۔ مقامی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ بعض گھریلو سیاح نہ صرف ان کی سماجی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ خواتین کے ساتھ بدتمیزی جیسے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔ تاریخی مقامات پر اپنے نام کندہ کرنا، زور سے موسیقی بجانا، اور مقامی گھروں میں بنا اجازت داخل ہونا ان بدتمیز رویوں کی چند مثالیں ہیں۔ اگر اس رویے کو قابو میں نہ کیا گیا تو نہ صرف مقامی آبادی میں بےچینی بڑھے گی بلکہ عالمی سیاحوں کے لیے بھی یہ ایک منفی پیغام ہوگا۔بڑھتی ہوئی سیاحتی سرگرمیوں نے پہلے سے کمزور بنیادی ڈھانچے پر بھی دباؤ ڈال دیا ہے۔ قراقرم ہائی وے اور دیگر پہاڑی سڑکیں شدید ٹریفک کے مسائل کا شکار ہیں، جبکہ صحت، پانی اور بجلی جیسے بنیادی وسائل کی فراہمی بھی مشکلات سے دوچار ہے۔ ان تمام مسائل کے باوجود، سیاحت سے حاصل ہونے والے مالی فوائد زیادہ تر باہر کے سرمایہ کاروں کو جا رہے ہیں، جبکہ مقامی لوگ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور جائیدادوں کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پریشان ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو سیاحت کا اصل مقصد، یعنی مقامی معیشت کو سہارا دینا، اپنی افادیت کھو دے گا۔حکومت کے لیے یہ وقت فیصلے لینے کا ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کے لیے سخت قوانین کا نفاذ، جدید فضلہ مینجمنٹ سسٹم، اور پائیدار ترقی کی منصوبہ بندی لازمی ہے تاکہ فطری حسن محفوظ رہے۔ ثقافتی احترام پر مبنی آگاہی مہمات ضروری ہیں تاکہ سیاح مقامی روایات اور اقدار کا خیال رکھیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاحت سے حاصل ہونے والا منافع مقامی آبادی تک پہنچے، نہ کہ بڑے سرمایہ داروں کی جیب میں جائے۔ حکومتی پالیسیوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ سیاحت سے جڑا ہر فائدہ گلگت بلتستان کے عوام کو ملے، نہ کہ باہر کے کاروباری افراد کو۔یہ عالمی کامیابی ایک اہم سنگ میل ہے، لیکن اسے سنبھالنا زیادہ بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر اس موقع کو بہتر پالیسیوں کے ذریعے درست سمت نہ دی گئی، تو گلگت بلتستان اپنی ہی شہرت کے بوجھ تلے دب سکتا ہے۔ کامیابی کے بعد اصل امتحان یہی ہوتا ہے کہ اسے کیسے برقرار رکھا جائے۔ اگر ہم نے آج اقدامات نہ کیے تو کل یہی کامیابی ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، اور گلگت بلتستان، جو پاکستان کی سیاحتی پہچان بن رہا ہے، اپنی ہی کامیابی کا شکار ہو جائے گا۔یہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کے لیے ایک قدرتی خزانہ ہے، لیکن اگر اس کے تحفظ پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ جلد ہی مسائل کی آماجگاہ بن سکتا ہے۔ دنیا کے کئی سیاحتی مقامات کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جہاں بے قابو سیاحت نے ان علاقوں کو اس حد تک نقصان پہنچایا کہ وہ اپنی اصل کشش کھو بیٹھے۔ نیپال میں ایورسٹ بیس کیمپ کا ماحولیاتی بحران ہو، یا تھائی لینڈ کے مایا بے ساحل کو سیاحوں کے لیے بند کرنے کا فیصلہ، یہ سب وہ مثالیں ہیں جن سے پاکستان کو سیکھنا چاہیے۔ اگر ہم نے اپنی قدرتی اور ثقافتی دولت کی حفاظت کے لیے دانشمندانہ پالیسیاں نہ بنائیں تو گلگت بلتستان بھی ایسے ہی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔سیاحت سے جڑی معاشی ترقی کا خواب تبھی حقیقت بن سکتا ہے جب اس کے اثرات مقامی سطح پر نظر آئیں۔ بدقسمتی سے، موجودہ سیاحتی ماڈل میں زیادہ تر منافع بڑے ہوٹل مالکان، ٹور آپریٹرز اور سرمایہ داروں کو جاتا ہے، جب کہ مقامی افراد اپنے وسائل سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس استحصال کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ایسی پالیسیاں متعارف کرائے جو مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچائیں۔ ہوم اسٹے پروگرامز، مقامی گائیڈز کے لیے تربیتی مراکز، اور چھوٹے کاروباروں کے لیے خصوصی مالی معاونت جیسے اقدامات سیاحت کے فائدے کو حقیقی معنوں میں عوام تک پہنچا سکتے ہیں۔ماحولیاتی تحفظ کے لیے حکومت کو نہ صرف سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے بلکہ ان پر عملدرآمد بھی یقینی بنانا ہوگا۔ دنیا کے کئی ممالک میں “گرین ٹورازم” کا تصور رائج ہو چکا ہے، جہاں سیاحوں پر ماحول دوست اصول لاگو کیے جاتے ہیں، جیسے کہ مخصوص علاقوں میں پلاسٹک کے استعمال پر پابندی، محدود ٹریفک زونز، اور کچرا تلف کرنے کے سخت قوانین۔ گلگت بلتستان کے لیے بھی ایسی پالیسیوں کا نفاذ ناگزیر ہو چکا ہے۔عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنا بھی ضروری ہے۔ سیاحوں کو مقامی ثقافت، ماحولیات اور سماجی روایات کا احترام سکھانے کے لیے خصوصی آگاہی مہمات شروع کی جا سکتی ہیں۔ ہوٹل مالکان اور ٹور آپریٹرز کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے مہمانوں کو ان اصولوں کے بارے میں بریف کریں تاکہ وہ مقامی لوگوں کی زندگیوں میں خلل نہ ڈالیں۔ تعلیمی ادارے اور میڈیا بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، تاکہ معاشرے میں ایک ذمہ دار سیاحتی کلچر پروان چڑھے۔گلگت بلتستان میں سیاحت کے بے پناہ امکانات موجود ہیں، لیکن یہ امکانات تبھی حقیقی فائدہ پہنچا سکتے ہیں جب ان کا پائیدار انتظام کیا جائے۔ حکومت، مقامی برادری، اور سیاحوں کو مل کر ایک ایسا ماڈل تشکیل دینا ہوگا جہاں ترقی اور تحفظ ساتھ ساتھ چلیں۔ اگر ہم نے اس موقع سے صحیح فائدہ نہ اٹھایا، تو آنے والی نسلیں ہمیں مورد الزام ٹھہرائیں گی کہ ہم نے اپنی بے حسی اور بدنظمی سے ایک خوبصورت اور تاریخی خطے کو برباد کر دیا۔ابھی وقت ہے کہ ہم اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور عملی اقدامات کریں۔ اگر مناسب منصوبہ بندی کی گئی تو گلگت بلتستان نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات میں شمار ہوگا، جہاں سیاحتی ترقی ماحولیاتی تحفظ اور مقامی فلاح و بہبود کے ساتھ ہم آہنگ ہوگی۔ ہمیں اس خطے کو بچانے کے لیے اب سوچنے سے آگے بڑھ کر عمل کرنا ہوگا، ورنہ یہ کامیابی چند سالوں میں ایک بڑی ناکامی میں بھی بدل سکتی ہے۔

معاشی بحران کا سایہ

پاکستان کی معیشت کو درپیش چیلنجز اور ممکنہ اصلاحات کے حوالے سے بین الاقوامی درجہ بندی ایجنسی فِچ کی تازہ رپورٹ نے کئی اہم نکات اجاگر کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ملک کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے جاری سہولت پروگرام کے پہلے جائزے پر عملدرآمد اور اس میں کامیابی کا انحصار سخت ساختی اصلاحات پر ہوگا۔ یہ جائزہ رواں ماہ کے آخر یا مارچ کے اوائل میں متوقع ہے، اور اس میں ناکامی پاکستان کی مالیاتی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہے۔فِچ نے جولائی دو ہزار چوبیس میں پاکستان کی درجہ بندی کو تین سی پلس پر اپ گریڈ کیا، جو جولائی دو ہزار تئیس میں تین سی اور فروری دو ہزار تئیس میں تین سی مائنس تھی۔ اگرچہ یہ بہتری خوش آئند ہے، لیکن یہ اب بھی ایک انتہائی بلند دیوالیہ ہونے کے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایسی درجہ بندی والے ممالک کے لیے بین الاقوامی تجارتی قرضوں اور یورو بانڈز یا سکوک جیسے مالیاتی ذرائع کا حصول نہایت مہنگا اور مشکل ہو جاتا ہے۔اس کا عملی مظاہرہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں شامل چھ ارب ڈالر کے تجارتی قرضے اور سکوک ابھی تک حاصل نہیں کیے جا سکے۔ اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گزشتہ ماہ عالمی اقتصادی فورم میں دعویٰ کیا تھا کہ دو مشرق وسطیٰ کے بینکوں سے ایک ارب ڈالر کا قرضہ سات فیصد سالانہ شرح سود پر حاصل کر لیا گیا ہے، مگر اس کی حتمی تصدیق مرکزی بینک کی ویب سائٹ پر تاحال موجود نہیں۔فِچ نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ ماضی میں کئی غیر دانشمندانہ معاشی پالیسیوں نے پاکستان کی مالیاتی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دو ہزار بائیس میں جب عمران خان کی حکومت اٹھائیس فروری سے بیس اکتوبر تک برقرار تھی، پاکستان کی درجہ بندی بی مائنس تھی، جو کہ بہت زیادہ کے بجائے نمایاں طور پر بلند دیوالیہ ہونے کے خطرے کو ظاہر کرتی ہے۔اس کے باوجود، ان کی حکومت کے دوران توانائی کے شعبے میں بے پناہ سبسڈی دی گئی، جو کہ مارچ دو ہزار بائیس میں نافذ ہوئی اور مئی تا جون دو ہزار بائیس تک برقرار رہی۔ اس پالیسی کے اثرات کے باوجود، فِچ کے مطابق، پاکستان کی درجہ بندی مفتاح اسماعیل کے بطور وزیر خزانہ دور میں کم ہونا شروع ہوئی، جسے بعد میں اسحاق ڈار کی مالیاتی حکمت عملی نے مزید نقصان پہنچایا۔اسحاق ڈار نے دو بڑی غلط معاشی پالیسیاں اپنائیں۔ ایک سو دس ارب روپے کی بجلی سبسڈی صنعتی شعبے کو دی گئی، جو مالیاتی بوجھ کا سبب بنی۔ روپے کی مصنوعی قدر کو کنٹرول کرنے کی پالیسی اپنائی گئی، جس کے نتیجے میں ایک سے زیادہ زر مبادلہ کی شرح پیدا ہو گئیں اور چار ارب ڈالر کی ترسیلات زر باضابطہ بینکنگ چینلز کے بجائے غیر رسمی ذرائع یعنی ہنڈی حوالہ کی طرف منتقل ہو گئیں۔فِچ کے مطابق، اگرچہ کچھ مالیاتی اصلاحات پر پیش رفت ہوئی ہے، مگر کئی محاذوں پر ناکامی دیکھی گئی ہے۔ جولائی دو ہزار چوبیس سے جنوری دو ہزار پچیس تک بجٹ میں چار سو اٹھسٹھ ارب روپے کی آمدنی میں کمی رہی، جب کہ نجکاری کا کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا، جس سے متوقع تیس ارب روپے کی آمدنی بھی حاصل نہ ہو سکی۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو عوام پر مزید بوجھ ڈال سکتے ہیں۔ ان میں بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ شامل ہے، جو مہنگائی میں مزید اضافے کا سبب بنے گا اور غریب طبقے کو زیادہ متاثر کرے گا۔حکومت نے مجموعی قومی پیداوار کی تین اعشاریہ دو فیصد شرح نمو کا ہدف رکھا ہے، مگر فِچ کے مطابق، یہ ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا کیونکہ حکومت نے صنعتی شعبے کے لیے تمام سبسڈیز ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس پالیسی سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا، جو اقتصادی ترقی کی رفتار کو مزید سست کر سکتا ہے۔پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ فاضل بھی درآمدات میں کمی کے باعث ممکن ہوا ہے، نہ کہ برآمدات میں نمایاں اضافے کی وجہ سے۔ درحقیقت، برآمدات میں حالیہ اضافہ بھارت کی جانب سے چاول کی برآمد پر پابندی اور بنگلہ دیش میں سیاسی بحران کے باعث ممکن ہوا، جو اب ختم ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو مستقبل میں ان اضافی برآمدات کو برقرار رکھنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔فِچ نے غربت میں اضافے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دو سال قبل عالمی بینک نے غربت کی سطح اکتالیس فیصد بتائی تھی، جو اب چوالیس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات معیشت کا سکڑنا، بلند مہنگائی، اور سرکاری اعداد و شمار میں پاکستان بیورو آف شماریات کی جانب سے حقیقی افراط زر کو کم کر کے دکھانے کی کوشش شامل ہیں۔فِچ نے خبردار کیا ہے کہ اگر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے جائزے میں تاخیر ہوئی اور اصلاحات میں مزید سستی برتی گئی تو پاکستان کو مزید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خصوصاً، توانائی اور ٹیکس کے شعبے میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہے۔ پاکستان میں توانائی کے شعبے کی نااہلی براہ راست صارفین پر اضافی بوجھ ڈال رہی ہے۔ اس کے باعث نہ صرف بڑے پیمانے پر صنعت کاری کا شعبہ عالمی مسابقت میں پیچھے رہ رہا ہے بلکہ عام آدمی کی آمدنی کی قوت خرید بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ انتظامی اخراجات میں کمی کرے، تاکہ نئے ٹیکسوں کے بغیر معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہر بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کی شرح سے زیادہ اضافہ کیا جاتا ہے، جب کہ دیگر شعبوں میں یہ سہولت نہیں دی جاتی۔فِچ کی رپورٹ حکومت کے لیے ایک تنبیہ ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کی اقتصادی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ حکومتی پالیسیوں میں سخت مگر ضروری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، جن میں حقیقی اقتصادی اصلاحات، بجٹ خسارے میں کمی، سرکاری اخراجات پر قابو، اور ٹیکس کے نظام میں بہتری شامل ہیں۔ یہ وقت فیصلوں میں تاخیر کا نہیں، بلکہ عملدرآمد کا ہے۔ اگر ہم نے آج مشکل فیصلے نہ کیے تو پاکستان کی مالیاتی ساکھ مزید کمزور ہوگی، جس کے اثرات آنے والے برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں