آج کی تاریخ

خالد مسعود خان

تحریر: طارق قریشی (مسافر)

خالد مسعود سے میرا تعلق کتنا پرانا ہے اب تو یہ سوال ہی نہیں کیا جاتا۔ پانچ دہائیوں قبل شروع ہونے والا تعلق زمانے کے ساتھ زندگی کے ہر نشیب و فراز سے گزرتا ہوا اب اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں ہم دونوں آمنے سامنے بیٹھ کر گھنٹوں کوئی بات کئے بغیر ایک دوسرے کی موجودگی سے تسکین محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ میں 1974ء میں ملتان آیا تھا بابا کی ملازمت کے باعث ہمارا گھر جیکب آباد سندھ میں تھا بابا ملازمت کے سلسلے میں تھرپارکر سے لے کر جیکب آباد تک تعینات رہے مگر ہمارا مکمل قیام جیکب آباد میں ہی تھا۔ جیکب آباد میں ہی میری پیدائش ہوئی میٹرک کا امتحان دینے کے بعد ہم ملتان آ گئے۔ کالج میں داخلہ ملتان میں لیا۔ خالد مسعود میرا ہم جماعت نہ تھا پہلی ملاقات مقامی کالج میں منعقد ہونے والے بین الکلیاتی تقریری مقابلوں کے دوران ہوئی۔ خالد کا میدان پنجابی مباحثہ اور شاعری تھا جبکہ میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مذاکرے اور اردو مباحثے میں شریک تھا۔ اردو مباحثے میں خالد کے بڑے بھائی جو میرے ہم نام ہی تھے۔ طارق محمود کی ٹیم فاروق کشمیری کے ساتھ ہوتی تھی۔ دونوں دوست اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ اللہ رب کریم مغفرت فرمائے۔ کیا زمانے تھے فروری اور مارچ کے مہینے پنجاب بھر کے کالجوں میں کہ جامعہ تو پورے پنجاب میں ایک ہی تھی جامعہ پنجاب بین الکلیاتی مباحثوں اور شاعری کے مقابلوں کا سیزن ہوتا تھا۔ ملتان میں طارق محمود ( خالد کے برادر بزرگ ) فاروق کشمیری‘ منیر چوہدری‘ خلیل الرحمن شاہد‘ احمد بلال اور بہت سے دیگر دوستوں کا ڈنکہ بجتا تھا۔ میرے جیسے سیدی بھی ان استادوں کے ساتھ حتی المقدور زور آزمائی کر لیتا تھا۔ پنجابی مباحثے میں خالد مسعود اور منیر چوہدری کی جوڑی جیت کا نشان ہوتی تھی۔ خالد مسعود نظم کا شاعر تھا۔ اس میدان میں خالد خالی ہاتھ نہیں رہتا تھا۔ تقریری مقابلوں کے دوران ہونے والا یہ تعارف وقت کے ساتھ ایسی دوستی میں تبدیل ہوا کہ ہماری دونوں کی دوستی صرف دونوں تک ہی محدود نہ رہی خالد مسعود کے والد‘ والدہ‘ بڑے بھائی‘ طارق کی بہن نرگس اب سب میرے ہی خاندان کا حصہ بن گئے تھے۔ اسی طرح خالد کی میری امی‘ بابا اور تمام بہن بھائیوں کے ساتھ تعلق اب گھر کے فرد جیسا ہی ہو گیا تھا۔ خالد مسعود کی زندگی اس کی اپنی طبیعت کی طرح کبھی پرسکون نہیں رہی۔ طالب علمی کے دور میں کہ اس زمانے میں تعلیمی اداروں‘ دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کے حوالے سے شدید تنائو کا دور تھا۔ خالد اور میں دونوں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن تھے۔ خالد مسعود صرف تقریری مقابلوں کا ہی شہوار نہ تھا طلبہ سیاست میں بھی خالد سب سے نمایاں ہوتا تھا۔ ان دنوں خالد کوئی باقاعدہ شاعری تو نہ کرتا تھا مگر اپنی طبع افتاد کے مطابق شاعری کا سلسلہ جاری تھا۔ اکثر اس میں ہم عصر طلبہ کے ساتھ ساتھ ناپسندیدہ اساتذہ کی ہجو بھی شامل ہوتی تھی۔ خالد مسعود کی باقاعدہ طور پر شاعری کی رونمائی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے زیر اہتمام ایک کل پاکستان مشاعرے کے ذریعے ہوئی، مشاعرے میں پاکستان بھر کے نامور شعرائے کرام جن میں احمد ندیم قاسمی‘ منیر نیازی‘ امجد اسلام امجد‘ عطاء الحق قاسمی‘ مظفر وارثی اور دیگر نامور شعراء شریک تھے۔ خالد مسعود مشاعرے کے منتظمین میں شامل تھا۔ میزبان کے طور پر سب سے پہلے اپنا کلام پڑھا اور بس پھر وہ آیا اس نے پڑھا اور اس نے سب کچھ فتح کر لیا‘ کے مصداق خالد مسعود نے اپنی شاعری سے پاکستان بھر کے نامور شعراء کو چونکنے اور متاثر ہونے پر مجبور کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک خالد مسعود اور اس کی شاعری کا راج ہے۔ ہنگامہ خیزی سے بھرپور خالد مسعود کا تعلیم کا سلسلہ مکمل ہوا۔ اگرچہ یہ سارا سلسلہ ایک جملے میں مکمل ہونے والا نہیں ہے یہ موضوع خود ایک علیحدہ مضمون کی حیثیت رکھتا ہے مگر آج یہ موضوع نہیں اس لئے بس ایک جملہ ہی‘ خالد نے تعلیم مکمل کرتے ہی ملتان انڈسٹریل اسٹیٹ میں ایک کارخانے میں سینئر پوزیشن پر ملازمت شروع کر دی اور یہی ملازمت خالد کی پہلی اور آخری ملازمت تھی۔ اس کا سہرا خالد سے زیادہ اس کارخانے کے مالک سابق سینیٹر اکرم سلطان کو جاتا ہے کہ اس نے خالد کی طبیعت کے مطابق اسے ماحول بھی دیا اور اختیار بھی‘ خالد نے بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ان کے کاروبار کو بام عروج پر پہنچایا۔ اسی ملازمت کے دوران خالد مسعود کی شاعری کا مرحلہ آن پہنچا۔ خالد مسعود کی ہونے والی بیوی فرزانہ میری چھوٹی بہنوں کی طرح تھی خالد کا برادر نسبتی احسان میرا ہم جماعت تھا احسان کا گھر خانیوال میں تھا زمانہ طالب علمی میں احسان کا گھر میرا دوسرا گھر تھا جب دل کرتا احسان کے ساتھ کالج سے ہی خانیوال اس کے گھر چلے جانا جب تک دل کرتا وہاں رہتا۔ اس زمانے میں نہ فون کی سہولت عام تھی اور موبائل فون کا تو ابھی کسی نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا اس لئے میرا اپنی امی سے یہ طے تھا کہ اگر میں کالج سے واپس نہ آئوں تو بس سمجھ لیں کہ میں خانیوال چلا گیا ہوں کوئی اطلاع نہ آنے کا مطلب سب خیریت ہے۔ احسان کے بھائی‘ بہن سب مجھے خاندان کا حصہ ہی سمجھتے تھے۔ اس طرح اس شادی کے بعد خالد کے گھر میں میری حیثیت دیور کی بھی تھی اور بھائی کی بھی‘ خالد مسعود کی شادی بھی خانیوال کی تاریخ کا ایک انہونا واقعہ تھا، خالد کی شاعری کے بعد بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ شاعری سے بھی زیادہ خالد کا اصل شوق اور محبت اسلحہ کے ساتھ ہے۔ خالد کے اسلحے کے ذخیرے میں وہ وہ کچھ موجود ہے کہ جس کے بارے میں آج بھی اکثریت لاعلم ہو گی۔ خالد نے برأت میں شریک ہونے والے تمام قریبی دوستوں کو حکم دیا تھا کہ بغیر ذاتی اسلحے کے کسی نے شریک نہیں ہونا۔ اچھا زمانہ تھا‘ اسلحہ پاس رکھنے اور ہوائی فائرنگ پر کوئی پابندی نہ تھی سو تمام قریبی دوست اپنے اپنے اسلحے جس میں رائفل‘ بندوق اور پستول کے ساتھ ساتھ کلاشنکوف جیسے ہتھیار بھی شامل تھے‘ شریک ہوئے۔ نکاح کے بعد ابھی دعا بھی شروع نہ ہوئی تھی کہ خالد نے فائرنگ شروع کرنے کا اشارہ کر دیا بس پھر ایک گھنٹے تک خانیوال شہر میں صرف فائرنگ کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ شادی کے کافی عرصے بعد فرزانہ بھابھی نے مجھے خود بڑی دلچسپ بات سنائی کہ جب فائرنگ ہو رہی تھی تو ان کی ایک سہیلی کہنے لگی خالد بھائی نکاح کرنے آئے ہیں یا تمہیں اغوا کرنے آئے ہیں۔ خالد مسعود شاعری کے ذریعے تو عالمی شہرت حاصل کر چکا تھا قریباً بیس سال قبل جناب ضیاء شاہد کی دعوت پر خالد مسعود نے کالم نگاری کا آغاز کیا۔ کالم کا عنوان دوستوں کے مشورے سے ’’ماٹھا کالم‘‘ رکھا گیا اور بس پھر کالم نگاری کا میدان بھی خالد کے مفتوحہ میدانوں میں شامل ہو گیا۔ اب یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہے کہ خالد بڑا کالم نگار ہے یا بڑا شاعر۔ ایک پرانے دوست کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ خالد جتنا شاعر کے طور پر عوام میں مقبول ہے اتنا ہی بطور کالم نگار۔ پاکستان میں اگر اعزازات کی سابقہ تاریخ دیکھی جائے تو ہر حکومت اپنے اپنے قصیدہ گو کالم نگار اور شاعر کو صدارتی تمغے سے نوازتی رہی ہے اب خالد مسعود کو تو اس پیمانے میں قید کرنا کسی حکومت کیلئے ممکن نہ تھا۔ ماضی قریب میں دو مواقع پر خالد مسعود کا نام اس اعزاز کیلئے وزیر اعظم کے دفتر میں آخری مرحلے پر خارج کر دیا اب اس بھرپور سیاسی تنائو کے دوران خالد مسعود کیلئے اعزاز کا اعلان خوشگوار حیرت کے ساتھ ساتھ حکومتی سوچ میں ایک بڑی تبدیلی کا بھی اظہار ہے۔ عوام میں خالد کی مقبولیت ہی خالد کا سب سے بڑا اعزاز تھا اور رہے گا۔ اس کے باوجود خالد مسعود کو اس عزت افزائی پر مبارک‘ خالد کا یہ اعزاز ہم سب دوستوں کے لئے باعث فخر ہے۔ امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک پھیلے ہوئے خالد کے دوستوں کیلئے یہ ایک ایسی خبر تھی جس کا بڑے عرصے سے انتظار تھا۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے خالد کے دوستوں میں مجھے یہ فخر ضرور ہے اور خالد کی ہی زبان میں کہ ’’تین کی فہرست میں آنے کا تو مقابلہ سخت ہے مگر تیرہ کی فہرست سے تو خالد بھی مجھے نہیں نکال سکتا۔‘‘

شیئر کریں

:مزید خبریں