آج کی تاریخ

وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑاتے تھے

حکومت میں یکسوئی کا فقدان

حکومت میں یکسوئی کا فقدان
روزنامہ قوم ملتان میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے 24 گھنٹوں میں اپنے دو اہم مگر متنازعہ سمجھے جانے والے فیصلوں کو واپس لیا ہے۔ وہ 24 گھنٹے بعد اقتصادی تعاون کمیٹی کی سربراہی سے دست بردار ہوئے۔ اسی دورانیہ میں انہوں نے وزیر خارجا اسحاق ڈار سے کمیٹی برائے سرکاری انرجی انٹرپرائزرز کی سربراہی واپس لے لی- واپس ہونے والے دونوں فیصلوں کا جب وزیراعظم آفس سے اعلان کیا گیا تھا تب ہی نہ صرف صحافتی حلقوں میں بلکہ خود حکومتی کوریڈروز میں بھی یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ فیصلے وزرات خزانہ کے اختیارات کم کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں اور ان کا مقصد وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو اہم مالیاتی اور معاشی فیصلوں اور پالیےسیوں کی تشکیل میں غالب کردار دینے کی کوشش نظر آتے ہیں- وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے والے اسحاق ڈار پر ڈی فیکٹو وزیر خزانہ بننے کی کوشش کا الزام اس لیے موثر الزام لگ رہا ہے کہ وہ تجارت۔ پٹرولیم ، انرجی ، اقتصادی امور، ایف بی آر سمیت مالیاتی و اقتصادی امور سے متعلقہ ہونے والے کئی اہم ترین اجلاسوں میں نہ صرف موجود پائے گئے بلکہ ان کی طرف سے خارجہ امور سے کہیں زیادہ بیانات اور تقریریں پاکستان کی معشیت سے متعلقہ مسائل پر دیے جا رہے ہیں جو ان کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ وزیراعظم آفس کے بارے میں اب یہ چہ مگوئیاں عام ہیں کہ وہ اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کی خواہشات ، اسٹبلشمنٹ کی طاقتور شخصیات اور آئی ایم ایف کے حکام کی ہدایات کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے ہیں اور اسی لیے ان کے بارے میں وزیراعظم ہاؤس سے ہونے والے فیصلوں پر اختیار سے محروم ہونے کا تاثر تقویت پکڑ رہا ہے۔ سیاسی رائے عامہ بھی موجودہ سیٹ اپ کی حثیت بارے منقسم نظر آتی ہے۔ ایک بہت بڑے حصّے کی رائے میں اس سیٹ اپ کے اندر ایوان وزیراعظم اور دیگر سیاسی عہدوں پر فائز افراد کی حثیت ‘ربڑ اسٹمپ کی سی ہے۔ فیصلوں کا مرکز سیپشل فیسلٹی آف انویسٹمنٹ کونسل – ایس ایف ائی سی اور اس میں بیٹھے غیر منتخب ہئیت مقتدرہ ہے اور ان کے پیچھے آئی ایم ایف ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ اور کابینہ کے پاس سٹیٹ بینک پاکستان ، وزرات حزانہ ، وزرات داخلہ بارے پالیسی ساز فیصلے کرنے کی بجائے ان تک پہنچے والے فیصلوں پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ دونوں آرآء پاکستان کی موجودہ اتحادی حکومت اور اس حکومت کو کھڑا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے والی ان سیاسی جماعتوں کی ساکھ کو تباہ کرنے کا سبب بن سکتی ہیں- لیکن کیا واقعی حکومت کو اپنی ساکھ کو تباہی سے بچانے کی فکر ہے؟ اس سوال کا جواب ‘ہاں ہے۔ لیکن حکومت اپنی ساکھ ان نقائص اور کمزوریوں کو دور کرنے سے کہیں زیادہ ‘ بیانیہ بنانے کے ماہرین کی تلاش میں ہے جو اس حکومت پر ہونے والی ہر تنقید کے رد پر مبنی ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیں جس سے تنقید کو نہ تومین سٹریم میڈیا میں جگہ ملے اور نہ ہی حکومتی بیانیہ کے شور میں سوشل میڈیا پر اس تنقید کی آواز سنائی دے۔ لیکن کیا جو چیز تنقید کا سبب بن رہی ہے اسے دور کرنا بھی حکومت کا سر درد ہے؟ بادی النظر میں ایسا نظر نہیں آتا ۔ اور ظاہر سی بات یہ نئی حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح ‘سرگشتہ خمار سوم قیود (تھا) ہے ۔ حکومت کو اپنے سیاسی جواز کا جو چیلنج اس وقت حزب اختلاف کی طرف سے ہے ، اسے حکومتی عہدے داروں کے اعصاب پر سوار کرنے سے معاملہ سدھرے گا نہیں بلکہ اور گھمبیر ہوگا- اسے اپنی جمہوری اور منتخب ہونے کی اہلیت کو اپنے فیصلوں میں منعکس کرنا ہوگا اور وزیراعظم آفس کو مضبوط و مستحکم فیصلے کرنا ہوں گے تب کہیں جاکر معشیت کی بحالی اور سیاسی استحکام جنم لے گا۔

پاکستان میں ٹی بی کا پھیلاؤ

گزشتہ سے پیوستہ روز پوری دنیا میں ‘ٹی بی سے نجاب کا عالمی دن منایا گیا۔ اس موقع پر ‘ڈاکٹرز ود اؤٹ باڈر نامی ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے سامنے آنے والی رپورٹ میں پاکستان کا ٹی بی کے مریضوں کا ملکوں کے اعتبار سے عالمی رینکنگ میں 5 ویں نمبر پر زکر کیا گیا ہے جو بذات خود افسرس ناک ہے۔ اعداد و شمار ڈرا دینے والے ہیں- پاکستان میں ہر سال پونے دو لاکھ سے زائد افراد ٹی بی کے مرض کا شکار ہورہے ہیںاور اس رپورٹ میں دعوا کیا گیا کہ پاکستان میں ٹی بی کے شکار ہونے والے 75 فیصد افراد میں ٹی بی کی تشخیص ہی نہیں ہوپاتی -یہ اعداد و شمار پاکستان کی حکومت اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو پاکستان سے ٹی بی کا مرض ختم کرنے کی کوششیں تیز کرنا ہوں گی- اس میں جہاں صحت سے جڑے سرکاری و غیر سرکاری اداروں کا کردہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، وہیں پر ماحول کو بہتر بنانے کے ذمہ دار سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو اپنی کوششیں تیز کرنے کی اشد ضرمورت ہے۔ اس وقت ماحولیاتی آلودگی اور حفظان صحت کی خلاف رزی نے کیا جوان، کیا بچے اور کیا بوڑھے مرد و خواتیں میں پھیپھڑوں میں بیکٹریائی اور وآغرل انفیکشن کو بڑھا دیا ہے جو ٹی بی کی بیماری کو بہت بڑھا دیا ہے۔ ہمیں جہاں ٹی بی کی تشخیص اور علاج کے سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ماحول کو صاف رکھنے اور حفظان صحت کے اصولموں کے مطابق طرز زندگی کو فروغ دینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔

صحافی اسرار راجپوت پر مقدمہ: آزادی صحافت پر ایک اور وار

میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق راولپنڈی پولیس نے اے آر وائی نیوز سے بطور کرائم رپورٹر وابستہ صحافی اسرار راجپوت پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ راولپنڈی پولیس کے ایکس ایپ پر بنے آفیشل اکاؤنٹ کے مطابق ان پر یہ مقدمہ اییکس ایپ پر بنے ان کے اکاؤنٹ پر پوسٹ ہونی والی ایک تھریڈ پر کیا گیا جو ‘نفرت انگیز اور ‘اشتعال انگیز تحریر کے زمرے میں آتی تھی- راول پنڈی ریجنل یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری آصف بشیر چودھری کی جانب سے میڈیا کو جاری کی گئی ایک پریس ریلیز کے مطابق ان کی یونین کے رکن کی ایک ڈیلیٹ کردہ پوسٹ پر کئی دن کے بعد قائم کیا گیا جبکہ ان کے رکن(اسرار راجپوت) نے اس بارے وضاحت بھی اپنے ایکس ایپ اکاؤنٹ پر لکھ دی تھی- پریس ریلیز میں الزام عائد کیا گیا کہ راولپنڈی پولیس کی جانب سے صحافی اسرار راجپوت پر قائم کیا گیا مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ اس مقدمے کی اصل وجہ ایکس ایپ پر مذکورہ صحافی کے اکاؤنٹ پر 23 مارچ 2024ء سابقہ یوم جمہوریہ اور موجودہ ‘یوم پاکستان’ کے موقعہ پر انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب – آئی جی پی پنجاب کو تمغہ امتیاز سے سرفراز کیے جانے پر کی جانے والی تنقید ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق اے آر وائی نیوز چینل کے کرائم رپورٹر اسرار راجپوت نے آئی جی پی پنجاب کو پاکستان کے سول اعزاز سے نوازے جانے پر سوال اٹھایا تھا- کرائم رپورٹر نے آئی جی پنجاب کی مجموعی کارکردگی کا موازانہ پنجاب بھر میں سنگین ترین جرائم میں بے تحاشا اضافہ اور شہریوں میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ سے کیا تھا جس پر پنجاب پولیس کی ناراضگی کا یہ مقدمہ مظہر نظر آتا ہے۔بادی النظر میں اے آر وائی کے کرائم رپورٹر اسرار راجپوت پر راولپنڈی کے تھانے میں ایکس ایپ کی ایک ڈیلیٹ کردہ پوسٹ پر کئی دن کے بعد مقدمے کا اندراج کیا جانا ان کی آئی جی پنجاب پر تنقید کا شاخسانہ نظر آتا ہے اور اس کا مقصد صحافتی برادری کو پنجاب کے سرکاری اداروں پر تنقیدی رپورٹنگ کی حوصلہ شکنی کرنے اور ایسا کرنے کی صورت میں ان پر مقدمات کا اندراج کیے جانے کا خوف پھیلانا لگتا ہے۔ یہ مقدمہ پنجاب حکومت کے اس دعوے کے برعکس ہے جس میں انھوں نے صحافت کو پابند سلاسل نہ کرنے کی پالیسی اپنانے کا دعوا کیا تھا- پنجاب میں ایک خاتون وزیراعلی کی انتظامی سربراہی کے دوران راولپنڈی پولیس کا ایک صحافی کو اس طرح کے مشکوک پس منظر کے ساتھ ایک مقدمے میں ملوث کرنا صحافتی حلقوں میں بے چینی پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے جبکہ وزیراعلی پنجاب مسلسل پولیس کے ادارے کو غیر جانبدار اور قانون کی حکمرانی کے اصول پر گامزن کیے جانے کو اپنی اولین ترجیحات میں سے ایک قرار دے رہی ہیں- یہ مقدمہ راولپنڈی میں تعینات ہونے والے نئے ریجنل پولیس افسر – آر پی او بابر سرفراز الپہ کے لیے بھی ایک چیلنچ بنتا ہے جن کو اس عہدے پر فائز کرنے کی منظوری چیف منسٹر کی سربراہی میں قائم ایک انٹرویو پینل نے ان سے تفصیلی انٹرویو کرنے کے بعد دی ہے اور پولیس حکام کے ساتھ اجلاس میں چیف منسٹر پنجاب نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ پولیس سے قانون کے احترام چاہتی ہیں- آئی جی پنجاب پر تنقیدی پوسٹ پر قائم مبینہ مقدمے سے یہ تاثر ملا ہے کہ راولپنڈی پولیس کوقانون کی حکمرانی سے کہیں زیادہ اپنے محکمے کے سربراہ پر تنقید کرنے والے صحافیوں کی آزادانہ رپورٹنگ کو سبوتاژ کرنے کی فکر ہے۔ہم وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرار راجپوت پر قائم مقدمے کو فی الفور خارج کیے جانے کا حکم دیں اور پولیس کو سختی سے ہدایت کی جائے کہ وہ صحافیوں کو خاموش کرانے کی فکر کرنے کی بجائے اپنے اصل فرائض کو ادا کرنے کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال کرے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں