پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسحاق ڈار کے دور میں کیے جانے والے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ -ایس بی اے معاہدے کے تحت ہونے والے قرض کے معاہدے کا دوسرا اور آخری جائزہ پراسس شروع ہوچکا ہے۔ پاکستان کی مذاکرتی ٹیم کی سربراہی ایک اور بینکر چودھری اورنگ زیب جالندھری کر رہے ہیں جو حکمران اتحاد کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی پاکستان مسلم لیگ نواز کے حکمران شریف خاندان کے منظور نظر خاندان کے چشم و چراغ ہیں- انہوں نے وزیر خزانہ کا منصب سنبھالنے کے بعد سے لیکر اب تک جو گفتگو میڈیا سے کی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے مطالبات اور پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی آمنگوں کے عین مطابق ان سخت ترین شرائط پر عمل درآمد کا راستا تلاش کرنے پر مامور ہوؤے ہکں یوٹیللٹی بلوں اور پٹرولیم پروڈکٹس کی قیمتوں میں اضافے کو ممکن بنائے چاہے اس عمل میں عام آدمی کی اور کتنی چیخیں بلند کیوں نہ ہوجائيں- حکمران اشرافیہ کے اس نکتہ نظر سے وہ بھی پوری طرح متفق ہیں کہ پاکستان کی معشیت کی بدحالی دور کرنے کے لیے یہی ایک راستا ہے اور کوئی نہیں ہے۔ اس راستے کا پہلا پڑاؤ آئی ایم ایف سے قرض کے نئے پروگرام کی منظوری ہے جس کے لیے انتہائی جبر پر مشتمل اقدامات اٹھائے جانے وہ ضروری سمجھتے ہیں۔ہمیں اس بات کی قطعی امید نہیں ہے کہ آئی ایم ایف یوٹیلٹی بلوں میں فل ریکوری کیے جانے کی سخت ترین شرائط سے دست بردار ہوجائے گا جو ہ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے دوسرے اور آخری جآئزے بلکہ اصل میں نئے پروگرام کی ہی شرائط ہیں- اس لیے اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اس جائزے کی فوری تکمیل کے بعد وفاقی وزیر توانائی مصدق ملک انرجی سیکٹر میں غالب بدعنوانی اور بدانتظامی سے کمر توڑ گردشی قرضے پر بڑی روک لگانے کے لیے درکار سٹرکچرل اصلاحات کا نفاذ شروع کردیں گے۔ تیل و گیس کی فل ریکوری کا حصول ممکن بنانے کے لیے وزرات خزانہ کو اپنی انرجی لاگت ریکوری پالیسی میں بڑا پالیسی بدلاؤ لانا پڑے گآ جس میں انرجی ریکوری کا سارے کا سارا بوجھ پہلے سے انرجی ٹیکسز کے بوجھ تلے کراہ رہے عام صارف پر نہ پڑے۔ وفاقی وزیر خزانہ کو کثیر جہتی اور دو طرفہ اقدامات سے فائد اٹھانے کے لیے تین اقدامات کی ضرورت ہوگی- سب سے پہلے تو حکومت کے کرنٹ اخراجات کرنے والوں میں سے جو اخراجات کا زیادہ بڑا حصّہ خرچ کرنے والے ہیں ان کی جانب سے انہیں ٹھوس اور پائیدار حمایت ملے۔ وہ ایک واضح حقیقی متعینہ مدت کے اندر اپنے اخراجات میں خاطر خواہ کمی لائیں جیسے حکومت کو آئی ایم ایف پاکستان کی معشیت کے میکرو اکنامک اشاریے بہتر بنانے کے لیے دے رہا ہے۔ اسے حکومت کی ڈیٹا اکٹھا کرنے والی مشینری کے ساتھ نتھی نہ کیا جاسکے جس نے گزشتہ 20 سال میں یہ کرکے ہی نہیں دیا-پنشن اخراجات میں اصلاحات جو کہ کرنٹ اخراجات کا بڑا حصّہ کم کردیں گی جیسا کہ مقامی اور بین الاقوامی اسٹڈیز سے ظاہر ہوا ہے تو حکومت کو اسے فوری طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس حوالے سے کوئی مزاحمت نظر ائے تو اس کے ساتھ وہی سلوک ہوا چاہیے جو 1970ء میں مارگریٹ تھیچر وزیراعظم برطانیہ نے نجکاری کے راستے میں روکاوٹ کھڑی کررہے تھے۔وزیر حزانہ کو بجٹ کی آمدن کے پہلو پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ بجٹ کے حوالے سے خود کو انتظامی اقدامات تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ وہ بجٹ ریونیو میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں پر زیادہ انحصار کی پالیسی پر نظر ثانی کریں گے۔(75 سے 80 فیصد بجٹ کا ٹیکس ریونیو ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے آتا ہے اوریہ درمیانے اور غریب طبقات کے لیے یہ بہت بڑا بوجھ ہے) – براہ راست ٹیکسوں میں اشرافیہ میں شامل تمام گروپوں بشمول تاجروں (ریٹلرز) اور ایگری کلچرل فارم مالکان کے لیے ہر طرح کی ٹیکس چھوٹ اور سبسڈی واپس لے لی جائے۔ کارپوریٹ سیکٹر کی آمدنی پر سپر ٹیکس عائد کیا جائے اور ان دآئریکٹ ٹیکسز کے خاتمے اور آمدن پر ڈائریکٹ انکم ٹیکس سے چھوٹے اور درمیانے تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس چھوٹ ملے گی۔وزیر حزانہ کو تیسرا بڑا جرات مندانہ اقدام افراط زر کو قابو میں لانے کے لیے اٹھانا ہوگا- اس کے لیے انہیں مقامی بینکوں سے انتہا کو پہنچے ہوئے قرضے لینے کی شرح میں واضح کمی لانا ہوگی- کیونکہ افراط زر کی بلند شرح کی قیمت بہت چکانا پڑتی ہے۔اس کی ایک قیمت تو عالمی کریڈٹ ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ نيگٹو کر رکھی ہے جس نے غیر ملکی قرضوں، بانڈڑز اور گرانٹ کے لیے بلند ترین مارک اپ کی شرط رکھی جا رہی ہے۔ معشیت کی اس وقت جو کمزوریاں ہیں انہیں دیکھتے ہوئے صاف بات ہے کہ وزیر خزانہ کو عالمی مالیات ڈونرز کی جانب سے ایسے فیصلے ڈکٹیٹ کرائے جائیں گے جس کا ردعمل اشرافیہ کیطرف سے دیکھنے کو ملے گا اور واحد راستا یہ ہے کہ اس نظام اقتدار کے تمام بڑے اسٹیک ہولڈر خود حکومتی مراعات اور سبسڈیز سے دست بردار ہونا پڑے گا او امراء کے لیے ٹیکس چھوٹ ختم کرنی پڑے گی –
جنوبی ایشیائی ممالک، ويزا فری کوریڈور کب بنے گا؟
حکومت نے چمن باڈر سے پاکستان و افغانستان میں اود و رفت کے لیے پاسپورٹ کو لازمی شرط قرار دیا ہوا اور اس پابندی کے خلاف افغانستان کی سرحد پر واقع چمن قصبے کے لوگ پانج ماہ سے احتجاج کر رہے- مقامی آبادی میں سخت عدم اطمینان اس خطے میں جاری احتجاج کا ہی عکاس نہیں ہے بلکہ یہ اس خطے کی مجموعی خراب معاشی صورت حال کا اظہار بھی ہے۔ اس صورت حال سے صرف سرحدی قصبے کی غریب آبادی متاثر نہیں ہو رہی بلکہ مستحکم تاجر، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ممبران بھی اس سے شدید متاثر ہورہے ہیں اور وہ بھی اس احتجاج کا حصّہ بن رہے ہیں- حکومت کا موقف ہے کہ اس نے افغان سائیڈ سے پاکستان کے اندر دہشت کردون کی دراندازی کو روکنے کے لیے سرحدوں کے دونوں اطراف سے لوگوں کی آمد و رفت کو ریگولیٹ کرنے کے لیےپاسپورٹ کے لازمی ہونے کی شرط عائد کی ہے۔ لیکن اس پابندی نے اس علاقے کی معاشی زندگی پر بہت برے اثرات مرتب کیے ہیں- چھوٹے پیمانے کی تجارت سے جڑی اس قصبے کی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد اس پابندی سے شدید متاثر ہوئی ہے۔ صرف ٹرکوں کو آنے جانے کی اجازت دیے جانے سے ہزاروں ڈیلی ویج مزدوروں کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس پابندی کے صرف وقتی برےاثرات نہیں ہوں گے بلکہ دور رس برے اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ اس سے کئی انسانی اور سماجی بد اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ اس لیے اس معاملے پر ایک وسیع سوچ کی ضرورت ہے جس کے تحت سب ہی اسٹیک ہولڈرز سے حکومت کو مشاورت کرنے کی ضرورت ہے۔ افغان طالبان حکام کو بھی اس بڑے مشاورتی عمل میں شریک کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک متوازن حل کی ضرورت ہے۔مظاہرین کے مطالبات، ویزا پالیسی کے خاتمے سے لے کر چھوٹے تاجروں کے فلاحی پیکجوں کی بحالی تک، تسلیم، احترام اور سمجھ بوجھ کی وسیع تر درخواست کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آمد پر ویزا کی سہولت اور سرحدی منڈیوں کے قیام کی تجویز نئے ضوابط کے معاشی اثرات کو کم کرنے کی جانب ایک تعمیری قدم ہے۔ یہ اقدامات، مقامی صنعتوں میں سرمایہ کاری اور انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے تجویز کردہ ملازمتوں کے مواقع کے ساتھ، چمن اور وسیع تر بلوچستان میں پائیدار ترقی کی بنیاد کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔ نئی حکومت کو اپنی سرحدی برادریوں کی جائز ضروریات اور حقوق کے ساتھ قومی سلامتی کی ضرورت کو متوازن کرنا چاہیے۔ اسے مظاہرین کے ساتھ مشغول ہونا چاہیے، ان کی شکایات کو سمجھنا چاہیے، اور طویل مدتی ترقیاتی اہداف کے لیے کام کرتے ہوئے عبوری حل تلاش کرنا چاہیے۔ مظاہرین کے ساتھ مکالمہ اور سفارت کاری، اس پیچیدہ مسئلے پر تشریف لانے کے لیے کابل کے ساتھ کام کرنے کے ساتھ ساتھ، کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ان صفحات میں پہلے ذکر کیا گیا ہے، اس بات کو یقینی بنانا کہ حفاظتی اقدامات کو سزا کے طور پر نہ سمجھا جائے، بلکہ تمام پاکستانیوں بشمول چمن میں رہنے والوں کی فلاح و بہبود کو بڑھانے کے لیے ایک وسیع حکمت عملی کے حصے کے طور پر ضروری ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ ہمدردی، مشغولیت، اور اقتصادی بااختیار بنانے کے لیے مشترکہ کوششوں کے ذریعے نشان زد کیا جانا چاہیے، جس سے خطے میں امن اور خوشحالی کی بنیاد رکھی جائے۔پاکستان پہلے ہی ہمسایہ ممالک سے ویزا فری سہولت نہ ہونے اور ہمسایہ ممالک کے شہریوں کی ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کی روکاوٹوں کے بغیر آزادی نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی کافی نقصان برداشت کررہا ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ ایسے ہمسایہ ممالک جن کی زمینی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں ان سے تجارت کے لیے راہداری دوسرے ممالک کو بنانا پڑ رہا ہے ۔ جیسے دبئی ایک راہداری کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ اس لیے پاکستان کی نئی حکومت کو سرحدوں کو نرم بنانے، جنوبی ایشیاء کی دیکر حکومتوں سے ویزا فری ٹورسٹ وزٹ کی لوگوں کو سہولت فراہم کرنے جیسے معاہدے کرنے چاہئیں اس سے ٹور انڈسٹری، فوڈ انڈسٹری سمیت پاکستان کی معشیت نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کے ارباب اختیار کو ویزا پابندی سے آزاد جنوبی ایشیا کے قیام کے لیے کوششیں کرنا ہوگی- ایک فری ٹریڈ کوریڈور پورے جنوبی ایشیا کو غربت کی دلدل سے باہر کھینچ لے گا-