آج کی تاریخ

حکمران اور سہولت کار

تحریر: طارق قریشی

پاکستان میں اقتدار پر آنے کے لیے سہولت کاری کا کھیل لیاقت علی خان کی شہادت بلکہ یوں کہیں کہ لیاقت علی خان کی شہادت بھی سہولت کاری کا حصہ ہی تھی۔ اسی لیے شہادت کے فوراً بعد سہولت کاروں نے گورنر جنرل کے عہدے پر سیاست دانوں کے بجائے افسر شاہی سے اپنا ایک نمائندہ ملک غلام محمد کو تعینات کرا دیا۔ گزشتہ سات دہائیوں سے ہمارے سہولت کاروں کے پاس کسی بھی سیاست دان کو میدان سے باہر کرنے کا ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہے غداری کا تمغہ، ہندوستان کا یار قرار دینا ہو اس موقع پر بھی یہی کیا گیا ملک میں موجود سب سے ذہین سیاستدان حسین شہید سہروردی کو غدار قرار دے دیا گیا کچھ سیاست دانوں کو تھانہ کچہری کے ذریعے خاموش کرایا گیا۔ اس طرح پاکستان میں اقتدار کے کھیل میں سہولت کاری اور سہولت کار اس طرح داخل ہو گئے کہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود سہولت کاری کا کھیل ختم نہیں ہونے کو نہیں آ رہا۔ ابتدائی ایام میں سہولت کاروں کی تکون میں افسر شاہی کا پلڑا بھاری تھا۔ ملک نیا نیا آزاد ہوا تھا فوج کی تعداد اور وسائل بھی محدود تھے عدلیہ بھی اتنی آزاد نہ تھی اس لیے سہولت کاری کی تکون میں افسر شاہی کا حصہ غالب تھا۔ کھیل کا بنیادی مقصد پاکستان کی عوام میں سیاست اور سیاست دانوں کے خلاف نفرت کو اجاگر کرنا اس کھیل میں سیاست دانوں کو کمزور اور نااہل ثابت کرنے کےلیے ابتدائی طور پر افسر شاہی کے اراکین ہی اوپنر بلے باز کے طور پر لگائے گئے۔ کبھی چوہدری محمد علی تو کبھی محمد علی بوگرہ درمیان میں تھوڑے تھوڑے عرصے کے لیے سیاست دانوں کو بھی مسند اقتدار پر لایاجاتا مگر مقصد ان کی نااہلی ثابت کرنا ہی رہا اس سارے کھیل میں سہولت کاروں کے ساتھ بیرونی طاقتوں کی آشیر باد بھی شامل تھی۔ اس حوالے سے اصل مہرہ ایوب خان تھا جسے انتہائی ابتدائی ایام میں ہی چن لیاگیا تھا۔ ایوب خان کی کرپشن اور نااہلی کے قصے قائداعظم تک پہنچ گئے تھے قائداعظم نے فوج کے سربراہ کو ان کے خلاف تحقیقات کرنے اور سزا دینے کا حکم دیاتھا مگر اصل سہولت کاروں نے اپنے ایجنٹ کو تحقیقات سے بھی بچا لیا۔ سزا دینا تو درکنار ایوب خان کو سزا کے بجائے ترقی دے کر مشرقی پاکستان تعینات کر دیا گیا قائد اعظم کی بیماری کے دوران انہیں بتایا گیا کہ تحقیقات جاری ہیں قائد کے انتقال تک سہولت کاروں نے اپنے اس بڑے مہرے کو مشرقی پاکستان میں ہی رکھا۔ قائد کے انتقال کے بعد سہولت کاروں نے اپنے کھیل میں آخری رکاوٹ لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا پھر جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ شہید کرانے والوں کا بھی سب کو علم ہے اور شہید کرنے والوں کا بھی۔ قاتلوں کو بھی انعامات سے نوازا گیا‘ سہولت کاروں کو بھی‘ محروم رہے تو شہید کے لواحقین۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ایوب خان کو مسند اقتدار پر بٹھانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اب ایک طرف سیاستدانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز تو دوسری طرف ایوب خان کو سینئر ترین افسر بنانے کیلئے سازشی کھیل کا آغاز۔ سینئر ترین افسر کو فضائی حادثے کا شکار تو بقایا سینئر افسروں پر وہی غداری اور بھارتی ایجنٹ ہونے کے داغ لگا کر میدان سے فارغ کر دیا گیا۔ اس طرح ایک نااہل اور بدعنوان شخص کو پہلے فوج کا سربراہ بنایا گیا بعد میں صحیح وقت کے انتظار میں انہیں بار بار مدت ملازمت میں توسیع دے کر میدان میں موجود رکھا گیا۔ 1947ء سے لے کر 1958ء تک گیارہ سال مکروہ کرداروں کی اس تکون نے اس نئی مملکت کی بنیادوں تک کو کھوکھلا کر دیا۔ ایک طرف اپنے اقتدار کو قائم کرنے کی خاطر سیاست دانوں کو عوام کی نظر میں گرایا دوسری طرف ون یونٹ کے نام پر بنگالی اکثریت کو پیغام دیا گیا کہ آپ کیلئے اقتدار شجر ممنوعہ ہی رہے گا۔ آگے چل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد پاکستانی سہولت کاروں کا مشرقی پاکستان کی عوام سے کیا جانے والا یہ سلوک ہی تھا۔ سہولت کاروں کے اس مکروہ اتحاد میں پاکستانی افسر شاہی اور عدلیہ کا حصہ ایوب خان کے اقتدار میں آنے کے بعد کم ہوتا چلا گیا۔ افسر شاہی اور عدلیہ میں ابتدائی ایام میں کچھ آزاد منش لوگ بھی اپنی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے سامنے آئے مگر طاقت وروں کے سامنے کوئی نہ ٹھہر سکا۔ ملک آدھا ہو گیا اور ہمیں بدترین فوجی شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر سہولت کاروں نے نہ کوئی سبق سیکھا نہ سیکھنے کے لئے تیار تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی عوامی نمائندے کے طور پر اقتدار میں نہیں لایا گیا تھا بلکہ تاریخ نے ثابت کیا کہ انہیں اقتدار میں لانا سہولت کاروں کے بڑے کھیل کا حصہ تھا۔ ایک طرف عوام کی نظر میں شکست کے غم و غصہ کو تحلیل کرنا تھا تو دوسری طرف نئی منصوبہ بندی کیلئے کچھ وقت کا حصول۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی تمام تر ذہانت اور قابلیت کے باوجود اس کھیل کو نہ سمجھ سکے۔ کچھ انہیں اقتدار میں پہنچنے کی جلدی بھی تھی۔ اقتدار میں آنے کے بعد اگرچہ بھٹو کو جلد ہی سہولت کاری کے کھیل اور سہولت کاروں کا علم ہو گیا اسی لئے انہوں نے اپنی دانست میں سہولت کاروں کو کنٹرول کرنے کیلئے متفقہ آئین پر تیزی سے کام شروع کیا۔ ڈیڑھ سال کے عرصے میں قوم کو متفقہ آئین کا تحفہ بھی دے دیا۔ بھٹو اپنی تمام تر ذہانت و قابلیت کے باوجود خود کو جمہوری سربراہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اقتدار پر مکمل کنٹرول کی اس خواہش نے سہولت کاروں نے ان کے خلاف کھیل کو آسان بنا دیا۔ متفقہ آئین دینے کے قلیل عرصے بعد ہی پہلے اقتدار سے محرومی بعد میں زندگی سے محرومی پاکستان میں سہولت کاروں کی سب سے بڑی کامیابی ٹھہری۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد گذشتہ چار دہائیوں سے اس ملک میں سہولت کاروں کا راج ہے۔ کسی کا دعویٰ عوام میں مقبولیت کا جتنا مرضی بڑاہو۔ حقیقت یہی ہے کہ یہاں مسند اقتدار پر وہی بیٹھا جسے سہولت کاروں نے اجازت دی۔ عوامی مقبولیت کے زور پر نہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو منزل مراد ملی نہ نواز شریف کو۔ اس دوران انکوبیڑ کے ذریعے کبھی جونیجو کبھی ظفر اللہ جمالی کبھی شوکت عزیز پیدا کئے گئے۔ سہولت تکاروں کی تکون میں بھی اب افسر شاہی کی حیثیت تو اس طوائف جیسی ہو گئی ہے جو ہر کسی کے ساتھ بستر میں شریک ہونے کو تیار ہے مگر تکون کے باقی دوسرے ابھی ایک دوسرے سے مغلوب ہونے کیلئے تیار نہیں نظر آ رہے۔ سیاست اور سیاستدانوں کا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان ہے تو دوسری طرف کپتان جیسا شخص کہ میں نہیں تو کچھ نہیں۔ صاحبان اقتدار کو انتخابات کیلئے مناسب وقت کا انتظار ہے تو کپتان کہتا ہے میرا راستہ روکو گے تو سب تباہ کر دوں گا۔ اس سارے کھیل میں جہاں سیاستدانوں کیلئے کچھ اچھا نظر نہیں آ رہا وہیں سہولت کاروں کی باہمی آویزش بھی منظر کو دھندلا رہی ہے۔ سات دہائیوں سے ملک اور آج اس صورتحال سے قوم کے مستقبل پر مکمل کنٹرول کرنے والے سہولت کار بھی پریشان ہیں تو اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والے اور انتظار کرنے والے بھی کچھ حاصل نہیں کر پا رہے۔ عوام تو مفت آٹے کے فریب میں کبھی تو کبھی آنے والے بجٹ میں کسی ان ہونی کے انتظار میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں