انکم ٹیکس آڑدننس میں فنانس ایکٹ 2022 کے تحت 7 ای شق متعارف کرائی کئی ہے جس میں غیر منقولہ جائیداد پر ٹیکس لگایا گیا ہے جس سے حکومتی عہدے داروں کو الاٹ کی جانے والی جائیداد کو مستثنی قرار دیا گیا ہے۔ ہماری حکمران اشرافیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ہمیشہ معاشی بوجھ اٹھانے میں اپنے کردار سے ہمیشہ فرار اختیار کرتی رہی ہے۔ اس نے اپنے حصّے کا بوجھ اٹھانے سے ہمیشہ عملی طور پر انکار کیا ہے جبکہ اس کی جانب سے فرضی قربانیوں کے بھاشن اتنے ہیں کہ اگر ان کا ریکارڈ جمع کیا جائے تو سینکروں دفتر جلدوں کے تیار ہوجائيں کے۔ اس کی تازہ ترین مثال انکم ٹیکس آرڈننس میں فنانس ایکٹ 2022 کے تحت متعارف کرائی جانے والی 7ای شق ہے جو غیر منقولہ جائیداد پر ٹیکس لکانے سے متعلق ہے۔ اس قانون سازی میں حکومت کی جانب سے سرکاری حکام کو الاٹ کی جانے والی زمین کو اس ٹیکس سے مثتنی قرار دیا گیا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکومت جس بھی منتخب و غیر منتخب اسٹبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے عہدے دار کو سرکاری زمین کا کوئی ٹکڑا الاٹ کرے گی اس پر غیرمنقولہ جائیداد پر لگائے گئے ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوگا- اس استثنی سے صاف پتا چلتا ہے کہ پاکستان کا حکمران اشراف طبقہ کیسے اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ جبکہ یہی حکمران طبقہ عوام پر پوری طاقت کے ساتھ ٹیکسوں کے بوجھ کو منتقل کرتا ہے اور نئے قربانی دینے کے خطبے بھی دیتا ہے۔ اوسوسناک امر یہ ہے کہ اس طرح کی اشرافیائی قانون سازی پر وہ اراکین پارلیمنٹ بھی مکمل خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں جو اپنے آپ کو نام نہاد درمیانے طبقے سے قرار دیتے نہیں تھکتے۔ ہم اب ایسی حکومت اور ایسے معاملات کو برداشت کرنےکی سکت نہیں رکھتے جو ٹیکسز کے عمومی اطلاق میں اشرافیہ کو مقدس گائے بناکر ان پر معاشی بوجھ منتقل کرنے کے آڑے آتے ہوں۔نئے حکمرانوں کو یہ بات جتنی جلدی سمجھ آئے گی اتنا ہی ان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ایک طرف تو اپنے اخراجات میں خاطر خواہ کمی لائیں- معاشی ابتری اور بحران کے دنوں میں مراعات اور اخراجات کی کٹوتی اور کمی کی ثقافت کا اطلاق صرف عوام پر نہیں ہونا چاہئیے اس کا اطلاق خواص اور حکمران اشرافیہ پر بھی مکمل طور پر لاگو کیا جانا بنتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنے سائز میں کمی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز اپنی تقریر میں ٹھیک کہا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف بارہ کے قریب وزراتوں کو ختم کرکے 200 ارب بجا سکتے ہیں اور اس سے پی ائی اے کے معاملات درست ہوسکتے ہیں لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ اگے جاکر کٹوتی اور اخراجات میں کمی کی ثقافت کو اشرافیہ پر لاگو کرنے والے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ عوام بہت جلد اس بات کا ادراک کرلیں گے کہ حکومت اور اس کے عہدے داران موجودہ معاشی بحران کو حل کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں جب وفاقی کابینہ کی تشکیل اور اس کا سائز سامنے آئے گا- میرٹ، اہلیت کے ساتھ ساتھ کابینہ کا ساغز اس بات کا صاف اشارہ دے گا کہ وزیراعظم کے نزدیک اپنے اتحادیوں کو خوش رکھنا زیادہ عزیز ہے یا گڈ کورننس اور مستحکم معاشی انتظام کاری؟
رمضان پیکج : شہریوں کی عزت نفس پامال ہونے سے بچائیں
میڈیا اور سوشل میڈیا میں پنجاب کے 38 اضلاع کی انتظامیہ کی جانب سے چیف منسٹر پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کی جانب سے اعلان کردہ رمضان پیکج کی شہریوں میں تقسیم کی اسکیم کے تحت شہریوں میں راشن کی تقسیم کیے جاتے وقت مرد و خواتین کی تضاویر اور وڈیو کلپ شئیر کیے گئے ہیں جس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہماری نوکر شاہی کے اندر شہریوں کی عزت نفس سے کہیں زیادہ اپنی تشہیر زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ انہیں اپنی پروجیکشن کے مقابلے میں خود پنجاب کی نومنتخب حکومت کے اچھے کاموں کی شہرت خراب ہونے کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
نومنتخب جواں ہمت چیف منسٹر محترمہ مریم نواز شریف نے پہلی مرتبہ رمضان بازار میں تماشا لگاکر غریبوں میں راشن کی تقسیم کے روایتی فرسودہ طریقے کو ختم کرکے شہریوں کو ان کے دروازے پر رمضان کے لیے راشن کی فراہمی کیے جانے کا اعلان کیا تھا- یہ بہت زبردست اور قابل تعریف اقدام ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ بیوروکریسی ميں نادیدہ قوتیں ان کے اچھے اقدام کو بھی برا بنانے کی کوشش کر رہی ہیں- اس کا ایک ثبوت پنجاب کے 38 اضلاع میں رمضان پیکج کے تحت پہلے راشن کی تقسیم کے وقت غریب اور مستحق خواتین و مرد حضرات کی تصویریں میڈیا کو بھجوانا اور سوشل میڈیا پر انہیں وائرل کرنے کا عمل ہے۔ اس سلےلے کو فی الفور روکے جانے کی ضرورت ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ چیف منسٹر پنجاب محترمہ مریم نواز شریف پنجاب کی صوبائی اور لوکل ایڈمنسٹریشن کے افسران اور اہلکاروں میں ذاتی پروجیکشن، شہرت کے لیے اخلاقی اقدار اور شہریوں کی عزت نفس کی پامالی کے بڑھتے ہوئے کلچر اور روایت کی روک تھام کے لیے چیف سیکرٹری پنجاب کو فی الفور اقدامات اٹھانے کے لیے ہدایت جاری کریں۔ دنیا بھر میں ریاستی بیوروکریٹک ڈھانچے کے کل پرزے اور اوپر سے نیچے تک ہیرارکی ‘لو پروفائل میں رہتی ہے اور عوام کے نمائندے ہائی پروفائل ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اب ایسا لگ رہا ہے جیسے انتظامی سربراہی عوام کے منتخب چیف ايگزیکٹو کی بجائے غیرمنتخب ہئیت حاکمہ کے کل پرزوں کے پاس ہے۔ پنجاب کی انتظامی سربراہ محترمہ مریم نواز شریف کے لیے یہ ایک چیلنج کی مانند ہے کہ وہ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدام اٹھائيں –
پولیس کے نجی عقوبت خانے : قانون کا مذاق اڑانا بند کریں
روزنامہ قوم ملتان میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق تھانہ دولت گیٹ ملتان پولیس نجی عقویب خانہ قائم کرکے زیرحراست ملزمان پر تھرڈ ڈگری/ غیرقانونی تشدد کرنے کا الزام سامنے آیا ہے۔ یہ عقویب خانہ واٹر ورکس روڈ کے قریب ایک جھگی میں قائم کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ تھانہ دولت گیٹ ملتان پولیس کی جانب سے قائم نجی عقوبت خانے کا انکشاف اس وقت ہوا جب تھانہ دولت گیٹ پولیس کی زیرحراست ایک ملزم عمران اقبال کی اہلیہ نے میڈیا کو اطلاع دی کہ اس کے شوہر کو چوری کے الزام میں تھانہ دولت گیٹ پولیس نے گرفتار کرکے واٹر ورکس روڈ پر قائم نجی عقوبت خانے میں مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا جہاں پر ملزم اقبال نے تشدد سے تنگ آکر گلے پر بلیڈ پھیرکر خو کشی کی کوشش کی جس کے بعد پولیس نے اسے طبی امداد کے بعد دو فرضی مقدمات میں نامزد کرکے جیل بھجوا دیا-
پولیس رینج ملتان کی حدود میں قائم پولیس تھانوں کےاہلکاروں پر نجی عقوبت خانے قائم کرنے اور دوران تفتشش ملزمان پر تشدد کیے جانے سمیت غیرقانونی ہتھکنڈوں کے استعمال کے الزامات پر مبنی میڈیا رپورٹس میں ائے دن اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب تک پولیس کے اعلی حکام پولیس تھانوں کی سرپرستی میں نجی عقوبت خانوں کے خاتمے اور پولیس کی حراست میں ملزمان پر تشدد کے استعمال کو روکنے کے لیے نظر آنے والے اقدامات اٹھانے میں ناکام رہے ہیں- سائلین کے ساتھ پولیس کے غیرانسانی سلوک کی شکایات میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ کہنے کو جنوبی پنجاب میں ایڈیشنل آئی جی پنجاب، آر پی او ملتان سمیت تھانوں پر نگرانی کے کئی ایک دفاتر قائم ہوچکے ہیں لیکن سوآئے لیپا پوتی پر مبنی اقدامات کے کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا- آئی جی پنجاب نے پنجاب پولیس کے امیج کو بہتر بنانے کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کی جو حکمت عملی اپنائی وہ اب ‘ذاتی پروجیکشن بلکہ فیشن شوز میں یا کسی بڑے فلمی ایونٹ میں شوبز کی سیلبرٹی واک کی شارٹ ریل جیسی بنتی جا رہی ہے جس میں حقیقت سے دور شاندار قسم کی آئی ٹی تکنیک اپناکر پولیس افسان اور اہلکاروں کی ‘آنیاں جانیاں تو دکھائی جا رہی ہیں لیکن مسائل اور مشکلات اپنی جگہ جوں کی توں موجود ہیں- ملتان پولیس بھی پنجاب پولیس کے دیگر علاقوں کی طرح ‘ملزم اور ‘مجرم کے درمیان فرق کرنے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے۔
ملتان پولیس کے تحت نجی عقوبت خانوں کے قیام کا انکشاف خود ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب ڈاکٹر کامران خان کے لیے ایک چتاؤنی سے کم نہیں ہے جو کریمنالوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور وہ تھرڈ ڈگری کے خوفناک نفسیاتی اثرات سے اچھے سے واقف ہیں – ان کے ہوتے ہوئے اگر نجی عقوبت خانے پولیس قائم کرتی اور دوران تفتشش تھرڈ ڈگری کا استعمال کرتی ہے تو یہ انتہائی فکر مندی کا سبب ہے –
تھانہ دولت گیٹ پولیس پر نجی عقوبت خانے کا قیام کرکے ملزمان پر انسانیت سوز تشدد کرنے کا الزام سنگین تو ہے ہی ، ساتھ ہی یہ پنجاب کی نئی چیف منسٹر محترمہ مریم نواز شریف کی جانب سے پنجاب کے عام شہری کی عزت نفس اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کی ہدایت کا مذاق اڑانے کے مترادف بھی ہے۔ کیا پولیس کے اندر مبنیہ کالی بھیڑیں نوجوان پرعزم چیف منسٹر کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ انہیں شہریوں کا قانون کی بالادستی پر کھویا ہوا اعتماد لوٹانے کی کوششوں میں ناکام بنادے گی؟