چانڈکا میں موجود جیئے سندھ سٹوڈنٹ فیڈریشن اور پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں اور غیر سندھی طلبہ جن میں پنجابی پٹھان کشمیری گلگتی اور سندھ کے مہاجر طلباء کی ایک سوچ تھی جی ایم سید کے بارے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں وہ قیام پاکستان سے پہلے سندھ اسمبلی کے ممبر تھے اور انہوں نے ہی سندھ اسمبلی میں قرارداد پاکستان پیش کی تھی جس کا بعد میں ساری زندگی انہیں افسوس رہا اس سے بھی پہلے غالباً 33-1930 میں انہوں نے پنجاب جس میں موجودہ ہندوستان کا مشرقی پنجاب بھی شامل تھا، م کا دورہ کیا تھا اور انہیں سندھ میں آبادکاری کی دعوت دی تھی، جی ایم سید ایک پڑھے لکھے اور دانشور شخصیت کے حامل تھے قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ اختلاف کی وجہ لیاقت علی خان کے زمانے میں انہیں اختلاف رائے رکھنے والے رہنمائوں کی طرح غدار قرار دیا گیا قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی الاٹمنٹ کے چکر مہاجرین نے سندھ میں لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا ۔ میرے والدین بھی مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے مگر پنجاب کے مہاجرین جو کہ تعداد میں تقریباً 75 لاکھ تھے اکثر کا ریکارڈ محکمہ مال میں موجود تھا پنجاب میں الاٹمنٹ میں کچھ لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے مگر کچھ شریف اور وضع لوگ اپنا اصلی کلیم بھی نہ حاصل کر سکے کچھ ایسے خاندانوں کو تو میں بھی جاتنا ہوں لیکن جو مہاجرین دہلی، اتر پردیش یا اندھرا پردیش سے آئے تھے ان کا کوئی ریکارڈ نہ تھا جبکہ تحریک پاکستان میں بھی انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا جبکہ موجودہ پاکستان میں بھی سوائے جی ایم سید کی قرار داد پاکستان کے، کسی اور کس کوئی خاص کردار نہیں تھا ریفرنڈم میں صوبہ فرینٹیر نے بھی پاکستان کے حق میں عوامی رائے دوسری کوئی کارروائی تھی ان علاقوں کے مہاجرین ایک تو 1955ء تک پاکستان میں لیاقت علی خان کی دی اجازت کی وجہ سے آباد ہوتے رہے اور انہوں نے ہندوئوں کے چھوڑے ہوئے کاروبار اور جائیدادوں پر بھی قبضہ کرلیا اس دور کا مشہور لطیفہ تھا انڈیا میں ہمارے پودینے کے باغ تھے۔ یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ سندھیوں نے اردو سپیکر مہاجرین کا کھلے دل سے استقبال کیا مگر پاکستان سے پہلے سندھیوں کی جو زمینیں ہندوئوں کے پاس رہن تھیں وہ بھی مہاجرین کو الاٹ کر دی گئیں بیورو کریسی میں بھی اردو سپیکر مہاجرین چھائے ہوئے تھے اور پنجابی بھی بیورو کریسی کا حصہ بنے ان حالات میں جی ایم سید نے سندھی حقوق کیلئے جئے سندھ پارٹی بنائی جو سندھی فیشلرازم پر یقین رکھتی تھی غلام محمد بیراج سے آباد ہونے والی زمینیں بھی فوجی جرنلز اور بیورو کریسی میں تقسیم کرنے کی وجہ سے جی ایم سید کے موقف کو تقویت ملی۔ جب بھٹو ملک کے وزیراعظم تھے انہوں نے 1973ء کا متفقہ آئین بھی بنا دیا تھا۔ اسی آئین کے تحت صوبائی محبت اور اخوت بڑھانے کیلئے پنجاب سے 10 طلبہ کو چانڈکا میں سندھ سے 10 طلبہ کو قائد اعظم میڈیکل میں داخلہ دیا جانا تھا میں آرمی سند پر چانڈکا میں داخل ہوا تھا کیونکہ میرے والد فوج سے صوبیدار ریٹائرڈ ہوئے تھے ذوالفقار علی بھٹو نے جی ایم سید کے حامی سندھ کے بہت بڑے شاعر آیاز سندھی کو سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا تھا ان کا بیٹا سلیم آیاز چند ماہ ہی ہمارا کلاس فیلو رہا پھر وہ لیاقت میڈیکل حیدر آباد مائیگریٹ ہو گیا آیاز سندھی کے بارے میں کافی باتیں مشہور ہوئی آیاز سندھی کا سکھر سے تعلق تھا سکھر کے ہم جماعت بتاتے تھے کہ سلیم آیاز اور اس کی بہنوں کو اس کی والدہ نے چھپ کر قرآن مجید پڑھایا تھا ’’ولا عالم بالصواب‘‘ اسی طرح ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایاز سندھی کے سامنے ایک دیہات سے تعلق رکھنے والے سندھی نے اپنی گھٹری میں سے روٹی نکالی اور کچے پیاز کے ساتھ روٹی کھائی کمیٹی کے نل سے پانی پیا اور پھر ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا آیاز سندھی نے جب یہ دیکھا تو اس دیہاتی کو مارنا شروع کردیا لوگ اکٹھے ہو گئے اور آیاز سے پوچھا آپ اس غریب کو کیوں مار رہے ہیں تو اس نے کہا کہ سوکھی روٹی پیاز کے ساتھ کھا کر بھی اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا پھر اللہ اسے گوشت اور پلائو کیسے دے گا۔
میں پھر بھٹک گیا بات ہو رہی تھی جی ایم سندھ کی تحریک کو بھٹو صاحب نے جئے سندھ کے لوگوں کو ملازمتیں دیکر کمزور کر دیا تھا جس کی وجہ سے جی ایم سید بھٹو صاحب کے بھی خلاف ہو گئے تھے۔ یہی وہ پس منظر اور حالات تھے جس کی وجہ سے سندھی نوجوانوں کی تحریک کو پذیرائی مل رہی تھی مگر پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن بھی مختلف تعلیمی اداروں میں موجود تھی ۔
جب سندھ میں سندھی زبان کو صوبائی زبان قرار دیا گیا تو کراچی والوں اور دوسرے صوبوں میں طوفان کھڑا کر دیا گیا اور بھٹو مخالف قوتیں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئیں جب میں 1979ء میں ہندوستان گیا تو وہاں پر اس وقت 49 زبانوں کو صوبائی زبانوں کا درجہ حاصل تھا بنگلہ زبان کے مسئلہ پر میں پہلے لکھ چکا ہوں ان حالات میں جئے سندھ کے بیانئے کو اور مضبوط کیا ۔ چانڈکا میں کراچی اور دوسرے طلباء کی تعداد بہت کم تھی زیادہ تر سکھر ، لاڑکانہ ، کشمور اور دادو سانگھڑ وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے اس وقت بھی قبائلی نظام تھا جو کہ ابھی تک ہے۔ بھٹو صاحب نے جب سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کیا تو کراچی والوں نے سخت اعتراض کیا جب ہندوستان میں اندرا گاندھی کے دور میں شیڈیول کاسٹ ( یعنی دلت یا چوڑے چمار) کیلئے 33% کوٹہ مقرر کیا گیا تھا تو بھی اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے سخت احتجاج کیا تھا جن طبقات کو پانچ ہزار سال سے پس ماندہ رکھا ہوا تھا ان کو سماج میں اوپر لانے کا اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں تھا۔
آج جب میں اپنے کلاس فیلو کے بچوں کو FCPS سرجن فزیشن دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ان کے والد اس وقت کم نمبروں کی وجہ سے ہو سکتا ہے اچھے ڈاکٹر نہ بنے ہوں مگر ان کی اولادیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور وہ کراچی اور حیدر آباد کے طالب علموں کے مقابلے میں امتحان میں پاس ہوئے۔ نذیر سومرو کے بیٹے اور بیٹی کا FCPS میں کامیابی سے مجھے دلی خوشی ہوئی۔
اسی دور میں جئے سندھ کی طرف سے پنجابی ، بلوچ اور پٹھانوں کے بارے میں یہ نظریہ بھی پیش ہوا کہ یہ Sons of soil یعنی (دھرتی کے بیٹے ہیں) تو اس کے مقابلے میں اردو سپیکر مہاجرین کی طرف سے کہا گیا اب ہمارا جینا مرنا اسی دھرتی پر ہے باقی علاقوں کے لوگ تو یہاں سے کما کر اپنے آبائی علاقوں کو پیسے بھیج دیتے ہیں لہٰذا ہمیں بھی نئے سندھی تسلیم کیا جائے۔
