ملتان(سٹاف رپورٹر)ایمرسن یونیورسٹی میں کرپشن اور اقربا پروری کیلئے خاص طور پر سرگودھا سے لا کر غیر قانونی طور پر یونیورسٹی میں رجسٹرار تعینات ہونے والے ڈاکٹر محمد فاروق پر بھی ہراسمنٹ کے الزامات کے تحت انکوائری اسی وائس چانسلر ڈاکٹر رمضان نے نہ صرف دبا دی بلکہ درخواست دہندہ کو بھی شدید دباؤ میں رکھا کہ وہ اپنی درخواست واپس لے گئی۔ درخواست دہندہ جو کہ خاتون فیکلٹی ممبر ہیں کی درخواست پر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے لیٹر بھی جاری کر رکھا ہے مگر ڈاکٹر رمضان، ڈاکٹر فاروق کو تحفظ دیتے رہے۔ یاد رہے کہ رجسٹرار کی تقرری کے لیے عمر کی حد 50 سال ہے مگر اسے 53 سال کی عمر میں ڈاکٹر رمضان نے سرگودھاسے لا کر رجسٹرار بنا لیا۔ بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر فاروق نے اپنے کیریئر کا آغاز گوجرانوالہ بورڈ میں کلر ک کی حیثیت سے کیا پھر بورڈ کی ملازمت کا فائدہ اٹھاتے اٹھاتے سرگودھا یونیورسٹی میں غیر قانونی طور پر بھرتی ہو گئی جہاں ان کے خلاف کرپشن کے متعدد الزامات تھے مگر اس’’ ہیرے‘‘ کو ڈاکٹر رمضان نے پہچان کر ایمرسن یونیورسٹی میں رجسٹرار کے عہدے پر قواعد و ضوابط کے برعکس رکھ لیا اور اس وقت ڈاکٹر فاروق ہی ڈاکٹر رمضان کا فرنٹ مین بنا ہوا ہے۔صوبائی وزیر تعلیم کو ملتان کے بعض اساتذہ کی طرف سے جو ریکارڈ فراہم کیا گیا ہے اس میں ڈاکٹر فاروق کے واٹس ایپ میسجز بھی موجود ہیں جن میں ان کے ملازمتوں کیلئے لین دین کی مبینہ طور پر تصدیق ہوتی ہے۔ 1993 میں میٹرک کی بنیاد پر ڈاکٹر فاروق گوجرانوالہ تعلیمی بورڈ میں گریڈ5 میں جونیئر کلر بھرتی ہوئے پھر گریڈ 7میں ترقی ہوئی۔ گوجرانوالہ بورڈ کے سابق کلرک نے جب سرگودھا یونیورسٹی میں بطور ایڈمن آفیسر ملازمت حاصل کی تو اپنی سی وی میں کلر ک کے بجائے’’ منسٹریل پوزیشن‘‘ کا لفظ لکھا اور یہی جملہ ایمرسن یونیورسٹی میں اپلائی کرتے وقت لکھا۔ سرگودھا یونیورسٹی میں ایڈمن آفیسر کے طور پر 2003 سے 2007 تک، پھر ٹاؤٹی اور رشوت جمع کر کے اوپر تک دینے کی غیرمعمولی مہارت نے انہیں پروموشن دلوادی اور 2007 سے 2018 تک اسسٹنٹ رجسٹرار کے عہدے پر براجمان رہ کر ہر وائس چانسلر کی انکھوں کا تارا بنے رہے۔ 2018 سے 2021 تک ڈپٹی رجسٹرار اور پھر 2021 سے 2022 تک ڈپٹی کنٹرولر، پھر 2022 سے ایڈیشنل کنٹرولر گریڈ 19 میں آگئے۔ ان کی تمام تر تعیناتیاں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ غیر قانونی قرار دے چکا ہے اور انہیں گوجرانوالہ بورڈ میں اسی گر یڈ7 میں واپس بھیجنے کا حکم دیا گیا مگر اس پر ڈاکٹر رمضان کی نظر پڑ گئی اور وہ ڈاکٹر فاروق کو بغیر کسی این او سی ایمرسن یونیورسٹی لے آئے جہاں وہ سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور وائس چانسلر کے ساتھ ہر طرح کی کرپشن،رشوت خوری اور قواعد و ضوابط کو روندنےمیں بھی ملوث ہیں۔
