ملتان (سہیل چوہدری سے)جنوبی پنجاب کے بڑے ہسپتالوں میں ٹرسٹ کی آڑ میں کروڑوں روپے کے ٹیکس چوری کرنے اور بیرون ممالک سے اربوں روپے فنڈز وصول کرنے کا انکشاف ہوا ہے تفصیل کے مطابق جنوبی پنجاب خاص طور پر ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان اور رحیم یار خان جیسے اضلاع میں قائم متعدد بڑے نجی ہسپتال ٹرسٹ ایکٹ 1882ء کے تحت رجسٹرڈ ہیں، مگر ان کی عملی سرگرمیاں مکمل طور پر کمرشل بنیادوں پر چل رہی ہیں۔ ان اداروں کی جانب سے ٹیکس چھوٹ کے نام پر اربوں روپے کی بچت کی جا رہی ہے، جبکہ بیرون ممالک سے ملنے والی فنڈنگ کو فلاحی کاموں کی بجائے منافع بخش کاروبار میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک تازہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، یہ صورتحال نہ صرف قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ غریب مریضوں کو بھی دھوکہ دے رہی ہے۔تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے اکٹھا کیے گئے اعداد و شمار اور دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ملتان میں واقع مشہور ہسپتالوں جیسے بختاور امین میموریل ہسپتال، چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے زیر انتظام یونیٹس اور روشنی ویلفیئر آرگنائزیشن جیسی ٹرسٹ رجسٹرڈ اداروں کی آمدنی کا 70 فیصد سے زائد حصہ کمرشل سروسز (جیسے پرائیویٹ رومز، جدید مشینری کی مدد اور کاسمیٹک سرجری) سے آتا ہے۔ ان ہسپتالوں کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی دفعہ 2(36) کے تحت فلاحی اداروں کی حیثیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے ان کی کمائی پر ٹیکس معاف ہے۔ تاہم، وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی رپورٹس کے مطابق، ایسے اداروں کی تعداد ملک بھر میں 500 سے زائد ہے، جن کی مجموعی ٹیکس بچت سالانہ 10 ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ایک سابق ٹیکس افسر نے بتایا کہ “یہ ہسپتال فلاحی ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر ان کی فیس سٹرکچر پرائیویٹ ہسپتالوں سے بھی مہنگی ہے۔ ملتان کے بختاور امین ہسپتال میں ایک نارمل ڈلیوری کی فیس 1 لاکھ روپے تک پہنچ جاتی ہے، جبکہ ٹرسٹ کی آڑ میں سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی چھوٹ لی جاتی ہے۔” اسی طرح جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع میں قائم ہسپتال جیسے ساؤتھ پنجاب ہسپتال اور مین اسٹریم ایسوسی ایشن آف پرسنز ود ڈس ایبلٹیز (میپ ڈی) بھی اسی طرز پر کام کر رہے ہیں، جہاں فلاحی فنڈز کو کمرشل اکاؤنٹس میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔یہ معاملہ مزید سنگین اس وقت ہو جاتا ہے جب بات ٹرسٹوں کے ذریعے ملنے والی بیرونی فنڈنگ کی آتی ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی فنڈنگ کو منظم کرنے والا فارن کنٹری بیوشن ایکٹ 2014ء اور این جی اوز پالیسی 2022ء موجود ہے، جو تمام رجسٹرڈ اداروں کو وزارت داخلہ سے اجازت لینے کا پابند کرتی ہے۔ مگر ملتان اور جنوبی پنجاب کے ہسپتالوں میں یہ فنڈز فلاحی کاموں کی بجائے نئی عمارتوں، مشینری کی خریداری اور انتظامی اخراجات میں استعمال ہو رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، ان ٹرسٹوں کو امریکہ، سعودی عرب اور یورپی یونین سے سالانہ 5 ارب روپے سے زائد کی فنڈنگ ملتی ہے، جو گلوبل فنڈ فار ایڈز، ٹی بی اینڈ ملیریا جیسی تنظیموں کے ذریعے آتی ہے۔حال ہی میں کراچی کے انڈس ہسپتال کے ٹی بی پروگرام میں 4.2 ملین ڈالر (تقریباً 12 کروڑ روپے) کے فراڈ کا انکشاف ہوا، جہاں پرائیویٹ کنٹریکٹس اور جعلی بلنگ کے ذریعے فنڈز کا غلط استعمال کیا گیا۔ جنوبی پنجاب میں بھی ایسے ہی واقعات کی اطلاعات ہیں۔ ملتان کے ایک بڑے ٹرسٹ ہسپتال کو 2023ء میں یورپی ڈونرز سے 2 کروڑ روپے ملیریا پروگرام کے لیے دیے گئے، مگر اس کی آڈٹ رپورٹس غائب ہیں اور فنڈز کا 60 فیصد حصہ “انتظامی اخراجات” میں خرچ ہو گیا۔ ایک این جی او ورکر نے بتایا کہ “یہ فنڈز غریبوں تک پہنچنے کی بجائے ہسپتال مالکان کی لگژری لائف کو سپورٹ کر رہے ہیں۔پنجاب حکومت کی جانب سے حالیہ برسوں میں فلاحی ہسپتالوں کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجاویز سامنے آئی ہیں۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس نے جون 2024ء میں ایک بل منظور کیا جس کے تحت 50 بیڈز سے زائد ہسپتالوں کو سیلز ٹیکس چھوٹ سے محروم کر دیا گیا ہے۔تاہم، وفاقی سطح پر ابھی تک کوئی ٹھوس ایکشن نہیں ہوا۔ ایف بی آر کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ “ہم ان ٹرسٹوں کا آڈٹ کر رہے ہیں، مگر سیاسی دباؤ کی وجہ سے کارروائی سست ہے۔”ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا حل شفاف آڈٹنگ، فنڈز کی ٹریکنگ اور ٹرسٹوں کی کمرشل سرگرمیوں پر ٹیکس عائد کرنا ہے۔ شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت فوری طور پر ان ہسپتالوں کی چھوٹ واپس لے اور غریب مریضوں کے لیے فلاحی پروگرامز شروع کرے۔







