ملتان (ریسرچ سیل) بیورو کریسی اور سرکاری افسران کی پسندیدہ چراگاہ جنوبی پنجاب کی ایک اور سرکاری دفاتر و کالونی دھکا شاہی سے بنے ہوئے ایک ڈپٹی کمشنر کے ہاتھوں مسمار ہونے جا رہی ہے اور کوٹ ادو میں واقع یہ سو سال پرانی انہار کالونی جس کی ملکیت محکمہ انہار کے پاس ہے، ایک ایسے ڈپٹی کمشنر سید منور بخاری اپنی سرکاری رہائش گاہ بنانے کے لیے فتح کرنے جا رہے ہیں جو دو سال گزرنے کے باوجود اپنی تنخواہ بھی بطور ڈپٹی کمشنر وصول کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور ان کی تنخواہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فنانس اینڈ پلاننگ مظفرگڑھ کے کھاتے اور ٹائٹل سے دی جا رہی ہے کیونکہ بزدار حکومت کے خاتمے کے بعد کوٹ ادو کا بطور ضلع سٹیٹس ہوا میں ہی معلق ہے مگر مذکورہ ڈپٹی کمشنر سید منور بخاری کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کسی طاقتور شخصیت کے قریبی دوست کے کوٹ ادو کے رہائشی سسرال انہیں ہر طرح کی سہولت کاری فراہم کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ کھل کر من مانیاں کر رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں بیوروکریسی کی طرف سے اپنی ذاتی رہائش گاہیں اور کلبز بنانے کے لیے دوسرے سرکاری محکموں تعلیمی اداروں رہائشی کالونیوں حتیٰ کہ تاریخی باغوں کو مسمار کرکے سرکاری رہائش گاہیں بنانے کا رواج اس لئے بہت طاقت پکڑ چکا ہے کہ اس خطے کے سیاستدان اس قسم کے اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنا تو درکنار، بیوروکریسی کے اس طرح کے عارضی مفادات کے لئے مستقل سہولت کاری فراہم کرنےمیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں جت جاتے ہیں اور کسی پلیٹ فارم حتیٰ کہ اسمبلی میں بھی آواز بلند کرنے کی جرات نہیں کرتے جبکہ مظفرگڑھ کے سیاست دانوں کا تو سہولت کاری کے حوالے سے ریکارڈ بہت “منفرد” ہے۔ اس سے قبل ماضی کے فیاض بشیر نام کے ایک ڈپٹی کمشنر کی شہر کے وسط میں ایکٹروں پر مشتمل تاریخی سرکاری رہایش گاہ کے تین اطراف میں سڑکوں پر ٹریفک کے شور کی وجہ سے ان کی نیند میں خلل آتا تھا تو انہوں نے اس شہر کے ڈیڑھ سو سال قدیم لذیذ کھجوروں کے ضلع کونسل کے ملکیتی تلیری باغ کا اپنی نئی سرکاری رہائش گاہ کے لئے انتخاب کر لیا اور کئی ایکڑ اراضی پر ڈی سی ہاوس کی تعمیر کرکے باغ اجاڑ کر رکھ دیا پھر اس میں سیشن جج کی رہائش گاہ بھی بنا دی گئی اس طرح تاریخی تلیری باغ میں نایاب اقسام کے کھجور کے پودے کنکریٹ کی نذر کر دئیے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی بہترین اقسام کی کھجوروں کے درختوں کی تمام تر اقسام پنجاب کے اس واحد سب سے بڑے کھجوروں کے اس باغ میں پائی جاتی تھیں۔ روزنامہ قوم کو ملنے والی معلومات کے مطابق اپنی تعمیر سے اب تک اس وسیع و عریض رہائش گاہ کی تزئین و آرائش اور دیکھ بھال پر مامور ملازمین کی تنخواہوں کو شامل کرکے 60 کروڑ سے زائد کے اخراجات ہو چکے ہیں۔ لودھراں میں تعینات مہر عبدالرؤف نامی ایک سابق ڈپٹی کمشنر نے تعلیمی ادارے کو جم خانے پر قربان کر دیا مگر کسی سیاست دان نے اس پر آواز بلند نہ کی اور کسی نے اسمبلی فلور پر اس معاملے پر بھرپور آواز نہ اٹھائی۔ حالانکہ جم خانہ گئے تمام ممبران کے پاس سرکاری و ذاتی گاڑیاں ہوتی ہیں اور شہر سے باہر کسی بھی پرسکون جگہ پر یہ جم خانہ بنایا جا سکتا تھا مگر علم دشمن سابق ڈپٹی کمشنر لودھراں نے ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ برائے خواتین کو اٹھا کر شہر سے باہر پٹھان والے پھاٹک سے آگے پھینک دیا جہاں طالبات کے لیے جانا کسی طور پر بھی محفوظ نہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مہر عبدالرؤف نامی یہ تحفہ جہانگیر ترین سندھ سے لے کر آئے تھے۔ ملتان شہر کے عین وسط میں قیام پاکستان سے قبل کی ہائی وے کالونی کو طاقت کے ایوانوں سے جاری ہونے والے حکم نامے کے ذریعے چند ہی ہفتوں میں خالی کروا کر مسمار کر دیا گیا اور اب وہاں ہائی کورٹ کے ملتان بینچ کا ایکسٹینشن بلاک بن رہا ہے جبکہ اس کالونی سے نکالے جانے والے کلیریکل ور نچلے درجے کے ملازمین کو تین سال میں کالونی کے لیے ابھی محض جگہ ہی الاٹ ہوئی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ وہ ہیڈ محمد والا کے علاقے میں الاٹ ہوئی ہے جہاں ہائی وے ملازمین کی رہائشی کالونی بنے گی اور شہر کے باہر سے غریب ملازمین کے بچوں کے لیے دور دراز کے تعلیمی اداروں میں جانا ایک مستقل عذاب ہو گا۔









