آج کی تاریخ

جنوبی بنجاپ: ڈاکوؤں، سہولت کاروں کی شامت، سی سی ڈی نے توبہ کا دروازہ بند کر دیا، وارداتیں کم

ملتان (اشرف سعیدی)سی سی ڈی (کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ) نے منشیات فروشوں، بغیر لائسنس اسلحہ رکھنے والوں اور نام نہاد عارضی توبہ کرنے والوں کے خلاف بھی گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ کار لفٹروں اور ڈاکوؤں کے سہولت کاروں کے لیے توبہ کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں جرائم پیشہ افراد کو چن چن کر گرفتار کیا جا رہا ہے۔ پولیس مقابلوں میں متعدد اشتہاری مارے جا چکے ہیں، جس کے بعد دلیر بدمعاش بھی پناہ کی تلاش میں ہیں۔ذرائع کے مطابق، جنوبی پنجاب میں کچے کے علاقے کے ڈاکوؤں کے سہولت کاروں کی فہرستیں تیار کر لی گئی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ڈاکوؤں کو مخبری اور اطلاع دینے والے افراد کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سی سی ڈی کی شفاف کارروائیوں پر عوامی حلقے مطمئن نظر آتے ہیں۔ کسی سنگین واردات کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ راہزنی اور موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں تاریخی طور پر پہلی بار نمایاں کمی آئی ہے اور لوگ سکون کی نیند سو رہے ہیں۔جنوبی پنجاب کے چار اضلاع مظفرگڑھ، رحیم یار خان، راجن پور اور بہاولپور میں ان زمینداروں اور بااثر افراد کے خلاف بھی کارروائیاں ہو رہی ہیں جو ڈاکوؤں کو اطلاع دیتے یا ان کی پشت پناہی کرتے تھے۔ یہ وہ جاگیردار تھے جو اغوا شدہ مظلوم افراد کے معاملات کا مک مکا کر کے ان کی رہائی کرواتے تھے۔ اب ان کی بھی گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔موجودہ صورتِ حال کے باعث پہلی بار عوام میں امن اور جرائم پیشہ عناصر پر خوف کا ماحول دیکھا جا رہا ہے۔ ماضی میں بعض کریمنل گروہوں کے افراد ایم این اے یا ایم پی اے کے باڈی گارڈز کے طور پر کام کرتے تھے، جس کی وجہ سے کسی واردات میں پکڑے جانے پر ان کی سفارش کی جاتی تھی اور نرمی برتی جاتی تھی۔ مگر اب جب ڈی جی سی سی ڈی کو فری ہینڈ دیا گیا ہے، تو سرکاری ڈالے ان باڈی گارڈز سے خالی نظر آتے ہیں۔راجن پور کے بعد خیرپور، یزمان، احمد پور شرقیہ اور کہروڑ پکا ایسے علاقے تھے جہاں کے رسہ گیر نہ صرف ڈاکوؤں کو پناہ دیتے بلکہ ان کے مقدمات کی پیروی بھی کرتے تھے۔ یہی لوگ گواہوں کو ڈرا دھمکا کر مقدمات سے دستبردار کرواتے تھے۔ اب ان کے خلاف بھی سخت ایکشن لیا جا رہا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے ہدایت کی ہے کہ جو بااثر زمیندار کسی بھی سطح پر جرائم پیشہ افراد کی جان بخشی کی سفارش کرے یا رعایت طلب کرے، تو اس کے خلاف بھی تحقیقات کی جائیں۔ اگر کہیں بھی اسے سہولت کاری میں ملوث پایا جائے، تو فوری گرفتار کیا جائے، تاکہ “نہ رہے بانس نہ بجے بانسری”۔جب سے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئی ہیں، جنوبی پنجاب میں کوئی نیا اغوا کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس سے پہلے کئی زمیندار کاروباری شخصیات کو اغوا کرواتے، تاوان لیتے اور بھتہ کی صورت میں خود بھی رقم وصول کرتے، جبکہ مغوی کو وعدے کے مطابق گھر پہنچا دیا جاتا۔ اکثر اغوا کار پنجند اور سیفن کے علاقے، خصوصاً قائم پور میں بدنام زمانہ رسہ گیروں کے ڈیرے پر قیام پذیر رہتے، جہاں سے انہیں قانونی تحفظ حاصل ہوتا۔ یہی لوگ ان مجرموں کو بڑی گاڑیوں میں علاقہ غیر کی سرحد پر چھوڑ آتے اور پولیس کچھ نہ کر پاتی۔اب کے بار مسجد میں جا کر توبہ کرنے والوں کو بھی معافی نہیں مل رہی، کیونکہ ان میں اکثر پیشہ ور مجرم ہیں جو پہلے بھی تھانوں اور افسران کے سامنے “توبہ” کے بہانے رہا ہوتے اور بعد میں دوبارہ وارداتوں میں ملوث پائے جاتے۔ لہٰذا اس بار ان افراد پر بھی توبہ کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں، اور انہیں بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ کسی فورس — سی سی ڈی — کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ لگتا ہے کہ ڈی جی ظفر چھٹہ جنوبی پنجاب میں جرائم کی جڑ ختم کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔ جو گروہ سالہا سال سے عوام کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے تھا، اب اس کے خاتمے کے لیے پرعزم اقدام کیے جا رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی یہ پہلی ایسی پالیسی ہے جس پر عوام نہ صرف خوش ہیں بلکہ ہر دوسرا شخص دعائیں دے رہا ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ سی سی ڈی میں تعینات تمام افسران نہ صرف تجربہ کار ہیں بلکہ مقامی علاقوں اور جرائم کے طریقہ کار سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ تاحال کسی علاقے سے کسی بے گناہ کی گرفتاری یا ہراسانی کی کوئی اطلاع نہیں ملی، یہی وجہ ہے کہ پنجاب بھر میں سی سی ڈی کی کارروائیوں کو سراہا جا رہا ہے۔عوامی حلقوں نے یہ اپیل بھی کی ہے کہ ان مخبروں اور سہولت کاروں کو بھی گرفتار کیا جائے جو وارداتوں سے پہلے مجرموں کو اطلاع دے کر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں تاکہ جرائم کا مکمل خاتمہ ممکن ہو سکے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں