ملتان (سٹاف رپورٹر) ایمرسن یونیورسٹی ملتان کے اپنے ہی باورچی کے ساتھ بد فعلی کے الزام میں مستعفی ہونے والے سابق ناجائز اور غیر اخلاقی وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رمضان اور غیر قانونی تجربے اور بغیر این او سی کے تعینات رجسٹرار ایمرسن یونیورسٹی ڈاکٹر محمد فاروق اور زکریا یونیورسٹی لودھراں کیمپس کے انچارج ڈاکٹر محمد شبیر کے گرد ان تمام امیدواروں نے گھیرا تنگ کر دیا ہے جنہوں نے ایمرسن یونیورسٹی میں بھرتیوں کے لیے انہیں لاکھوں روپیہ دے رکھا تھا اور جن کی بھرتیاں سنڈیکیٹ کے لاہور میں ہونے والے اجلاس میں روک کر انکوائری کا حکم دے دیا گیا تھا اور بڑے پیمانے پر انکوائری ان کے خلاف جاری ہے۔ ڈاکٹر شبیر جو کہ گزشتہ تین سال سے باضابطہ طور پر ڈاکٹر رمضان کی تمام تر ڈیلز کے حوالے سے فرنٹ مین ہوتے تھے، نے اپنی اہلیہ ڈاکٹر عظمیٰ نیاز گجر کو ویمن یونیورسٹی سے ایمرسن یونیورسٹی میں تعینات کروایا اور پھر غیر قانونی طور پر انہیں چار شعبہ جات کی سربراہی دلوائی اور ایمرسن یونیورسٹی میں لاقانونیت کی انتہا یہ ہے کہ ڈاکٹر شبیر گجر کی اہلیہ ڈاکٹر عظمیٰ نیاز گجر سے سینئر اور اپر گریڈ کے فیکلٹی ممبران کو ان کی ماتحتی میں دے دیا گیا تھا۔ یہ بات زبان زد عام ہے اور یونیورسٹی میں ہر کسی کو واضح میسج بھی ڈاکٹر رمضان گجر کے چارج لینے کے فوراً بعد ہی دے دیا گیا تھا کہ جس کا جو بھی معاملہ ہے وہ ڈاکٹر شبیر کے ذریعے ڈاکٹر رمضان کے پاس جائے تاکہ کسی کو شک بھی نہ ہو کیونکہ بظاہر تو ڈاکٹر شبیر کا تعلق زکریا یونیورسٹی ملتان سے ہے اسی لیے کسی کو براہ راست شک نہ ہو اور محفوظ طریقے سے یومیہ کی بنیاد پر ہر مرحلے اور ہر کام کے عوض پیسے کمائے جا سکیں۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ رپورٹ حساس اداروں کے پاس بھی پہنچ چکی ہے ان معلومات کی روشنی میں ان سب کے خلاف تحقیقات بھی جاری ہیں جبکہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تمام تر سہولت کاری کے باوجود بالآخر ڈاکٹر رمضان کے خلاف باورچی اعجاز حسین کی طرف سے تھانہ بی زیڈ میں دائر کردہ بداخلاقی کے جرم میں مقدمہ درج کر کے کارروائی کی درخواست پر جلد عمل درآمد ہو جائے گا اور پولیس میں موجود ڈاکٹر رمضان کے سہولت کار بھی آخر کار انہیں سہولت دینے میں ناکام ہو جائیں گے۔
