تحریر : میاں غفار (کار جہاں)
عارف حسین لاہور میں منفرد شناخت رکھنے والا کرائم رپورٹرتھااور وہ میرا چہیتا شاگرد بھی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کا فوٹو گرافر رہا اور کمال کا فوٹو گرافر تھا۔آج کل برطانیہ میں ہوتا ہے اور شریفانہ زندگی گزارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے کاروبار کے لیے بنک سے قرض لیا اور بیماری کی وجہ سے ڈیفالٹرہو گیا۔ اُسے سر میں شدید درد اٹھتا اور کئی دن جاری رہتا۔ اب وہ مکمل صحت یاب ہے۔ بنک کی وجہ سے ڈیفالٹ کئے جانے کے بعد ریکوری کا لیٹر عارف حسین کو موصول ہوا تو اُسے دوبارہ سر درد ہوا۔ وہ اپنے عیسائی یعنی ہمیں بتائے گئے فارمولے کے مطابق کافر ڈاکٹر کے پاس گیا اور تمام کیفیت سے آگاہ کیا۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر بنک انتظامیہ کو خط لکھا اور بتایا کہ ان کی وجہ سے میرے مریض کی طبیعت خراب ہوئی ہے۔بنک نے حالات و واقعات کا جائزہ لیے بغیر نوٹس جاری کیوں کیا۔ کیوں نہ میں آپ کے خلاف ہرجانہ فائل کروں۔ بنک انتظامیہ کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ قرض معاف ہوا۔ معذرت علیحدہ سے کی گئی۔ بنک کی طرف سے تحریری معافی نامہ علیحدہ بھجوایا گیا بنک کا عملہ پھول لے کر عیادت کے لیے عارف حسین کے گھر آیا اور اسے پیشکش کی کہ بنک ان کے علاج کے اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہے۔
میرے دوست کی بہن کی شادی امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر سے ہوئی جو اس کا کزن تھا شادی کی تاریخ طے ہوئی تو اس نے فون کر کے درخواست کی کہ شادی کی تاریخ میں تین ہفتوں کی توسیع کر دیں۔ بکنگ وغیرہ مکمل تھی۔ والد نے ناراض ہوتے ہوئے وجہ پوچھی تو کہنے لگا دراصل میرے ایک نوجوان مریض کو حادثہ پیش آیا تھا وہ چھوٹا جہاز گرنے سے شدید زخمی ہوا۔ اب وہ ریکوری میں ہے اور اگلے آئندہ دس دن میں چلنے کے قابل ہو جائے گا میں اس کی ریکوری کو انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔ جس مریض پر ہم سب ڈاکٹروںنے محنت کی اسے اپنے پائوں پر کھڑے دیکھنا Celebrate کر کے پاکستان چلا آؤنگا اور پھر شادی کی تاریخ میں 33 دن کی توسیع کرنا پڑی کہ بکنگ 33 دن بعدکی ملی۔ اس کے مذکورہ امریکی ہسپتال میں یہ ایس او پی تھا کہ اگر کوئی نوجوان یا شدید زخمی جس کے بچنے کی امید نہ ہوتی بچ جاتا تو تمام’’ کافر‘‘ ڈاکٹر اس کی صحت یابی کا جشن مناتے اور ان کے ساتھ رہ کر پاکستانی ڈاکٹر بھی ایک مہذب مسلمان ہو گیا۔
یہ بھکر کاکلمہ گو اور ہمارے علمائے کرام کے دن رات کے دعووں کی روشنی میں پکا ’’جنتی ‘‘ڈاکٹرہے کہ کلمہ گو سے اور پھر ہمارے علمائے کرام نے رب العالمین کو (نعوذ باللہ) محدود کرنے کی ’’مخلفانہ ‘‘کوشش کرتے ہوئے رب المسلمین بنا رکھا ہے کہ یہ ڈاکٹر بھی ماننے والا ہے۔ نام بھی مسلمانوں جیسا ہے ڈاکٹر احسن وہ دوران ڈیوٹی کسی’’ خاص دوست ‘‘ سے گفتگو کر رہاتھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان ژوب روڈ کے علاقے گڑھا بلوچاں کی سید زادی دعا زہرہ ابتدائی طبی امداد کے لیے بھکر کے ضلعی ہسپتال لائی جاتی ہے۔ اُس کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں اور انہی اکھڑتی سانسوں سے اسے 110 کلو میٹر کا سفر کروا کر بھکر کے سرکاری ہسپتال میں اس لیے لایا گیا تھا کہ شاید کسی کی مسیحائی اس سید زادی کو بچا لے اور ہم روز محشر آقائے نامدار کا سامنا کرتے ہوئے کہہ سکیں کہ ہم نے کربلا میں تو کوتاہی کی مگر بھکر میں آل محمد کی ہر ممکن خدمت کی مگر نہیں کہ شہر ہر دور میں ہی غالب رہا ہے خواہ وہ ڈاکٹر جیسے مقدس پیشے میں گھس کر بیٹھا ہو۔
سید زادی دعا زہرا کا والد ڈاکٹر کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہے اور اس کے دیگر رشتے دار اس کے لیے ہاتھ اللہ کے حضور اٹھاتے ہیں کہ غیبی امداد آ جائے۔جب کئی منٹ گذرنے کے بعد بھی شمر صفت ڈاکٹر جان کئی کے عالم میں بچی کو طبی امداد نہیں دیتاتو اس کے والد کے بندھے ہاتھ ڈاکٹر کے گریبان تک پہنچ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر واویلا کرتا ہے کہ ہسپتال میں دہشت گرد گھس آئے ہیں پھر ایک سید زادی اپنے باپ پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش اُسی طرح دیکھتی ہے جس طرح کربلا میں اس کی جیسی بے بس ماں سیدہ زینب اپنے بھائی اور رشتے داروں پر برستے تیر دیکھتی رہی تھی۔ چٹان جیسے حوصلے، سیدہ فاطمہ جیسی تربیت اور حضرت علی جیسی استقامت کی حامل سیدہ زینب تو برداشت کر پائی مگر دعا زہرا اپنے والد پر تشدد برداشت نہ کر سکی اور شکایت لے کر اللہ کے حضور پیش ہو گئی۔
میرے دوست حافظ صاحب کہ جن کی آنکھیں بے نور مگر دل روشن ہےکہا کرتے ہیں کہ چرند پرند حشرات الارض حتی کہ درندے بھی ایک دوسرے کے قریب ہو رہے ہیں مگر انسان ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں اور پاکستان میں گذشتہ 50 سال کی اخلاقی،انتظامی، تعلیمی اور مادری ’’تربیت‘‘ نے یہ رفتار اور بھی بڑھا دی ہے۔ تعلیم یافتہ اور طاقت یافتہ طبقے کے پاس سب کچھ ہے نہیں تو اخلاق اور صلہ رحمی نہیں۔ چند ماہ پہلے ساہیوال کے ڈاکٹر کی گفتگو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو طاقت یافتہ خوش ہوئے ہوں گے ویسے بھی پاکستان میں طاقت یافتہ کی اکثریت کی کمزوری عورت ہی ہے اور عورت کی قربت ان کی تربیت اور ذمہ داریوں کو منٹوں میں غارت کر دیتی ہے۔
بھکر میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کربلا سے بھکر تک سید زادیوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ کیا نبی پاک ہمارے درمیان میں قرآن مجید کے بعد اپنی سنت اور اہل بیت چھوڑ کرنہیں گئے تھے۔
یہ ڈاکٹر بھی سزا نہیں پائے گا کہ یزیدی نظام اسے بچانے کے لیے میدان میں آئے گا کہ یزید کسی فرد کا نام نہیں۔ اختیار، اقتدار ، اخلاقیات، سہولیات پر قبضے کے نظام کا نام ہے اور اسے دوام بخشنے کے لیے ڈاکٹر کو بچانا ضروری ہے کہ ظلم کے نظام کے مطابق تو ڈاکٹرہی کو تحفظ دینا بنتا ہے۔