آج کی تاریخ

Let him die in the chair

جناب محسن نقوی جزاک اللہ

تحریر : میاں غفار (کار جہاں)

اب میں محسن نقوی کو نگران وزیر اعلیٰ نہیں لکھنا چاہوں گا کہ جو کچھ انہوں نے کوٹ لکھپت جیل میں دورے کے دوران خواتین قیدیوں کی فوری داد رسی کے لیے کیا۔ جس تحمل سے ان قیدی خواتین کی باتیں سنی، جس طرح فوری طور پر ایکشن لیا گیا۔ جس طرح کا کرب ان کے چہرے پر تھا، اللہ کرے ایسی سوچ اور درد دل رکھنے والا وزیر اعلی پنجاب سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں کو نصیب ہو۔ ہم نے تو دہائیوں سے وزرائے اعلی میں رعونت، تکبر، کروفر اور عام آدمی سے کراہت نما دوری ہی دیکھی اور جس کسی وزیر اعلیٰ میں عاجزی دیکھی اس کے پاس اختیار نہ دیکھا بلکہ اس کی حیثیت محض ’’دھیان کلینڈر‘‘ جیسی ہی دیکھی جو حکم تو دے نہیں سکتا تھا بس بیان ہی پر رانجھا راضی کرتا رہتا تھا۔ کیمرے کی آنکھ سے کچھ محفوظ رہنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے اور کوٹ لکھپت جیل میں جب ایک بوڑھی عورت نے وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو اپنا جرم بتاتے ہوئے کہا کہ اس کے بیٹے نے پسند کی شادی کی ہے مگر پولیس نے اسے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ وزیراعلیٰ نے فوری طور پر اپنے عملے کو اس خاتون کو قانونی معاونت فراہم کر کے رہائی کا حکم دیا۔ اسی طرح ایک نوجوان لڑکی چیک ڈس آنر کے کیس میں جیل میں تھی۔ اس سے خالی چیک لیا گیا تھا اور بعد ازاں اس پر 15 لاکھ کی رقم درج کر لی گئی اور جیل کی سلاخیں اس کا مسکن بنا دی گئیں۔ شائید ہی وزیر اعلیٰ کے علم میں یہ بات ہو کہ سود خوروں کے ستائے سینکڑوں نہیں ہزاروں مظلوم پنجاب کی جیلوں میں بے گناہی کی قید کاٹ رہے ہیں۔
جناب محسن نقوی صاحب۔ خدا گواہ ہے عوام کو صرف ریلیف تحفظ اور عزت نفس درکار ہے۔ دو کی جگہ ایک روٹی عزت اور تحفظ کے ساتھ ملتی رہے تو عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ انہیں عزت نفس اور تحفظ دینے والا کون ہے۔ کس دین سے، کس جماعت سے، کس مکتبہ فکر سے اور کس مذہبی گروہ سے اس کا تعلق ہے۔
2010ء کے سیلاب میں لیہ کے علاقے میں کوریج کے لیے گیا تو ایک عورت اپنی جوان بیٹیوں کے ہمراہ یورپ سے آنے والے ایک وسیع ٹینٹ میں بیٹھی تھی اس کے پاس قیمتی کراکری اور بستر بھی تھے۔ سیلاب نے اس کا گھر اور ہر چیز تباہ کر دی تھی۔ اس کے جانور بھی پانی میں بہہ گئے تھے ۔ میں نے اس عورت سے پوچھا جو قرآن مجید کی حافظہ بھی تھی اور اس کی دو بیٹیاں سکول ٹیچر تھیں کہ یہ امداد کہاں سے ملی تو اس نے انگلینڈ کی بجائے گلینڈ کہا اور دوپٹے کے دونوں پلو اٹھا کر کہنے لگی۔ یہ جس نے بھی ہمیں چھت اور سامان دیا ہے اللہ قیامت والے دن اس پر حضرت مریم کی چادر کا سایہ کرے اور اُسے حضرت مریم کی طرح پاک صاف جنت میں لے جائے۔ 13 سال گذر گئے اور اس کی دعا کا ایک ایک لفظ میرے کانوں میں آج بھی گونجتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ سیلاب کے دنوں میں ہمارے ایک قائد نے سیلاب زدگان کی داد رسی کے لیے اپنے ہوائی جہاز سے جنوبی پنجاب جانا تھا اور صحافیوں کی ٹیم بھی ان کے ہمراہ تھی۔ طیارہ اڑان بھرنے لگا تو انہیں فریش جوس مانگنے پر علم ہوا کہ ان کا عملہ پھل اور جوس جہاز میں رکھنا بھول گیا ہے۔ پھر قائد تھے اور غیض و غضب تھا۔ جہاز رکا رہا اور سٹارٹ بھی رہا کیونکہ ہمارے قائد اس میں غصے سے بھرے بیٹھے تھے۔ گاڑیاں دوڑیں،ہوٹر چلے کہ راستہ کلیئر ہو اور پھر لبرٹی مارکیٹ سے فریش جوس کے تھرماس لائے گئے تو طیارہ روانہ ہوا۔ ابھی تک محسن نقوی کی طرف سے ایسی کوئی ’’حرکت‘‘ سامنے نہیں آئی۔ اور امید ہے کہ آئے گی بھی نہیں کہ تربیت کے اثرات کب زائل ہوتے ہیں۔
جناب نقوی صاحب عرض یہ ہے کہ صرف کوٹ لکھپت جیل ہی نہیں۔ ایک دن اور ایک جیل کے سلسلے میں جنوبی پنجاب کے لیے چند دن وقف کریں آپ کو پولیس مظالم کی ایسی ایسی ہو شربا داستانیں سننے کو ملیں گی کہ شائید آپ کے لیے پر سکون نیند ایک کڑا امتحان بن جائے۔ مگر جو آپ کو اس کا اجر ملے گا وہ یقینی طور پر آپ کی آئندہ کی ساری زندگی پر بھی بھاری ہو گا اور جب وہ اجر روز محشر آپ کے پلڑے میں ڈالا جائے تو آپ عش عش کر اٹھیں گے۔ یہاں ہزاروں لوگ بے گناہی میں سالہا سال سے جیلیں کاٹ رہے ہیں۔ یہاں چن چن کر سب سے نالائق سب سے کرپٹ اور سب سے بیزار پولیس ملازم کو مقدمات کی پیروی دی جاتی ہے جو کئی کئی سال مقدمات لٹکانا اپنا عقیدہ سمجھتا ہے۔ جناب وزیر اعلی پنجاب لودھراں جیل جائیں آپ گوانتاموبے کے بے گناہ قیدیوں کو بھول جائیں گے۔ یہاں ایک ایک مقدمے میں جان بوجھ کر درجن بھر آدمیوں کے نام لکھوا دیئے جاتے ہیں اور پھر جو بے گناہ ہونے کے باوجود منہ مانگی خدمت کرتے جاتے ہیں، بری ہوتے جاتے ہیں ۔ لودھراں جیل میں تو ایک ایسا نوجوان بھی قید ہے جس پر کسی خاتون کی ’’بات نہ ماننے پر‘‘ ایک ہی پولیس اسٹیشن میں 21 مقدمات محض 6 ماہ میں درج ہوئے اور ان 21 مقدمات میں سے 19 مقدمات کے مدعیان نے اُسے اپنا ملزم قرار نہیں دیا اور وہ 19 مقدمات میں بری ہونے کے باوجود ڈیڑھ سال سے جیل کاٹ رہا ہے۔
جناب کسی بے گناہ کو جیل یا حوالات میں ایک رات بھی قید رکھنا دینی لحاظ سے کتنا بڑا ظلم ہے اس حوالے سے نبی پاک کے احکامات موجود ہیں مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نام رکھنے اور مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والوں کیلئے شائید دینی احکامات ان کی یونیفارم کے بوجھ تلے دب چکے ہیں اور جنوبی پنجاب کے ان باوردیوں کے سامنے یہاں کے عوام کتنے بے بس ہیں اس کا تصور بھی محال ہے۔آپ آگے بڑھیں اس خطے میں جیلوں میں قید مظلوموں سے ان کا کر سنیں، دادرسی کریں نیکی کمائیں پھر نزول رحمت اور اللہ کا فضل دیکھتے جائیں ۔

شیئر کریں

:مزید خبریں