تحریر:میاں غفار(کار جہاں)
یہ پنجاب پولیس نے کیا غدر مچار کھا ہے۔ فرعون بغیر کفن دنیا میں حنوط شدہ اور محفوظ کیوں کر ہے کہ لوگ عبرت پکڑیں مگر ہے کوئی جو عبرت حاصل کرے۔ یہ عا رضی یونیفارم والے اس بات کو کیوں نہیں سمجھتے کہ ہم سب کا ابدی، لازمی اور مستقل یونیفارم تو سفید ہی ہے۔ جی ہاں وہی سفید کہ جس کی سلائی نہیں ہوتی! جی ہاں وہی سفید یونیفارم جس کے سر اور پائوں پر جو پٹی نما بیلٹ باندھی جاتی ہے وہ بھی سفید ہی ہوتی ہے اور جو بیلٹ ہمیں جیتے ہوئے بھی مردے کی طرح اکڑائے رکھتی ہے وہ کھونٹی پر ہی لٹکی رہ جاتی ہے۔
یہ تو سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ آپ اس حد تک چلے جائیں گے کہ بچوں کو کریمنل افراد کے ساتھ حوالات میں بند کریں ۔ ایسا کیا ہوا کہ معصوم بچوں کے گلے میں ان کے جرم کی تختیاں لٹکا کر آپ اپنی طاقت کا ایسا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک مڈل کلاس ملازم پیشہ فیملی میں آنکھ کھول کر بھی آپ کو مسائل میں گھرے ہوئے خاندانوں کے کم سنی میں جوانی دیکھے بغیر ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کر وقت سے پہلے بڑے ہونے والے لاکھوں بچے دکھائی نہیں دیتے۔ یہ کیا ظلم آپ نے شروع کروا رکھا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ پہلی فرصت میں قرآن مجید کی سورہ کہف کی آیات نمبر 32 تا 40 کا ترجمہ پڑھ لیں اور خدا را خبط عظمت سے باہر نکلیں۔جن بچوں نے لاہور کے ڈیفنس ایریا میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد کو حادثے میں موت کے گھاٹ اتارا وہ تو موٹر سائیکل پر نہ تھے پھر موٹر سائیکل سوار طلبہ پر عتاب کیوں؟ اور ہاں وہ تو چھوٹی گاڑی پر بھی نہ تھے۔ وہ ایک ایسی مضبوط گاڑی کو 170 کلو میٹر کی رفتار سے دوڑا رہے تھے کہ جس نے چھوٹی سی گاڑی کا کچومر نکال دیا اور آپ عذاب بن کر صوبے بھر کے بچوں پر نازل ہو گئے۔ آپ کو کیسے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ کسی بیوہ کا پندرہ سولہ سالہ بچہ ہی اپنی ماں کی چھت اور آسرا کیسے بنتا ہے کہ آپ نے تو ماں باپ کا سایہ اپنے سر پر بھرپور انداز میں دیکھا ہے تاہم ایسی لاکھوں مثالیں موجود ہیں۔ کیا آپ کے اس ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ موجود ہے؟ کیا ہر سکول جانے والا بچہ رکشہ افورڈ کر سکتا ہے؟ کیا ہر باپ میں اتنی استطاعت ہے کہ وہ دم توڑتے سرکاری سکولوں کے دور میں پرائیویٹ سکولوں کی بھاری فیسوں کے ساتھ رکشہ بھی افورڈ کر سکے؟ جناب یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور نہیں ہے جہاں میرے اور آپ جیسے ہزاروں طالب علم سٹی ٹرانسپورٹ سروس میں کارڈ دکھا کر مفت سفر کرتے تھے اور ایک شہر سے دوسرے شہر جانا ہوتا تو نصف کرایہ دے کر ڈٹ کر سیٹ پر قابض ہو جایا کرتے تھے۔ اگر کوئی بس والا طالب علموں کو سوار نہ کرتا تھا تو اس کا چالان ہوتا تھا اور آج 180 ڈگری پر دوسری جانب جا کر طالب علموں ہی کو حوالات کی “اضافی تربیتی سہولیات” فراہم کر رہے ہیں۔
آپ کے اس حکم نامے پر ایک سابق آئی جی نے جو تبصرہ کیا وہ عرض کئے دیتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ پنجاب کے شناختی کارڈ رکھنے والے جوان اور بوڑھے تو ڈاکٹر عثمان انور کو مان ہی گئے تھے بس بچوں سے تعارف ضروری تھا جو بہت اچھے طریقے سے ہو رہا ہے۔مزید کیا کہوں میاں غفار اور خاموشی اختیار کر لی۔ ایک ریٹائرڈ اعلی پولیس آفیسر نے کہا۔ یہ دن بھی اللہ نے دکھانے تھے۔ ایک نے کہا اللہ ہدایت دے مگر ہدایت بھی تو مانگنے والے ہی کو ملتی ہے۔
میں بہت مشکور ہوں اس ایس ایچ او کا جس نے میرے کہنے پر ایک بچے کو سکول بیگ سمیت چھوڑ دیا اور ساتھ یہ بھی کہا ہم مجبور ہیں۔ سخت احکامات ہیں بس آپ کسی سے ذکر نہ کرنا جبکہ ایک بچے کو اس کا والد کسی دوسرے تھانے سے 37 ہزار دے کرچھڑا لایا ہے کہ مذکورہ والد اپنے باپ یعنی گرفتار ہونے والے بچے کے دادا کو ایمرجنسی میں لے کر کارڈیالوجی سنٹر گیا اور بچہ دادا کی ادویات اور نسخہ جات لینے گھر گیا مگر گھر پہنچنے سے قبل حوالات پہنچ گیا۔ میں 37 ہزار لینے والے کے لیے دعا گو ہوں کہ اس نے حوالات میں داخلے سے پہلے تھانے کی ڈیوڑھی ہی سے اس بچے کو واپس بھجوا دیا اور ایک معصوم ذہن الجھنے سے بچ گیا۔ اِس لیے میرے خیال میں تو یہ بہت ہی سستا سودا ہے۔
جناب ڈاکٹر عثمان انور صاحب، آپ ایک کامیاب اینکر تو بن ہی چکے ہیں، کسی دن ذرا مائیک لے کر غریب اور پسماندہ بستیوں میں کسی بیوہ اور اجڑی بے آسرا ماں کے گھر جائیں تو آپ کئی دن سو نہیں پائیں گے کیونکہ کا نقشہ آنکھوں دیکھے بنا سمجھ نہیں آ سکتا۔ ضرور وقت نکالیں کہ آپ زیرک ہیں اور بہت زیادہ مستعد و روشن نگاہ بھی ۔ آپ کو ہزاروں ایسے بچے مل جائیں گے جو 18 سال سے کم عمر ہیں اور ان کے پاس تو موٹر سائیکل میں تیل ڈلوانے کے پیسے بھی مشکل ہی سے جمع ہوتے ہیں مگر وہ اپنی ڈھلتی عمر کی ماں کا بھی سہارا ہیں اور بہنوں کے محافظ بھی مگر محافظ سکواڈ والے نہیں۔ وہ اکلوتے سہارے صبح سے شام تک کیسے اپنے گھر کی ڈیوٹی دیتے ہیں اور علم بھی حاصل کرتے ہیں۔ بہنوں کو بھی سکولوں میں چھوڑتے ہیں۔ ماں کو بھی بازار لاتے اور لے جاتے ہیں۔ حتی کہ گھر کا سارا دارومدار ان پر ہی چلتا ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی سے سب کے سب اپنے چھوٹے چھوٹے گھروں کے ٹین ایج میں ہی بڑے بن چکے ہیں مگر انہیں آپ کے احکامات حوالات میں بند کرا کر پھر سے چھوٹے بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف آپ کے تھانوں کا یہ عالم ہے کہ چند ہفتے قبل تک تو پولیس کی پٹرولنگ کرنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے لیے بھی فیول نہیں تھا۔ پولیس کی گاڑی ہر جائز اور ناجائز فروشوں کی فراہم کردہ ’’امدادی رقوم‘‘ ہی سے پٹرولنگ کرتی رہی ہیں اور اب جبکہ فنڈز بھی آ چکے ہیں مگر جو لت لگ گئی ہے وہ نہیں چھوٹ رہی۔
جناب چاہیے تو یہ تھا کہ ایس او پی بنتا مگر یہ تو انگریز ہی بنایا کرتے تھے۔ ہم بے چاروں سے کہاں بنتے ہیں۔ کوئی ضابطہ طے ہوتا کہ جس کے پاس سکول بیگ ہے اُسے رعایت دی جاتی۔ جس بچے کے ساتھ اس کی والدہ یا بہن ہے اُسے جانے دیا جاتا مگر مفت ہاتھ آئے بٹیرے کو کون چھوڑتا ہے۔ ویسے جناب نے کمال ذہانت سے گزشتہ 6 ماہ کے دوران پنجاب پولیس کو کمائی کے دو بڑے ذرائع گفٹ کئے ہیں۔ پہلا ہیڈ یا ذریعہ پولیس کی گاڑیوں کو رواں رکھنے کے لیے عوام سے براہ راست امدادی رقوم کی طلبی کے سلسلے میں غیر اعلانیہ اجازت اور اب دوسرا سکول جانے والے بچوں کو حوالات دکھا کر۔ جناب آپ کوئی کارڈ بھی تو جاری کرا سکتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر تعلیمی اداروں میں جانے والے بچوں کا ٹریفک پولیس تعلیمی اداروں ہی میں ٹیسٹ لے سکتی تھی۔ بچون کا کوئی علیہدہ سے ڈرائیورنگ لائیسنس بھی بن سکتا تھا۔ اداروں کی طرف سے کوئی لیٹر جاری ہو سکتے تھے، مگر نہیں کہ انسان کی آنکھوں پر پڑنے والے تمام تر پردوں میں طاقت اور اختیار کا پردہ ہی سب سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے مگر وہ عارضی طاقت تو بخش دیتا ہے مگر دور اندیشی، صلہ رحمی اور مجموعی فلاح کا جذبہ پیدا نہیں ہونے دیتا۔
کاش ہم سمجھ پاتے کہ عارضی زندگی میں کوئی چیز مستقل کیسے ہو سکتی ہے خواہ وہ یونیفارم ہو یا وردی