تحریر:میاں غفار(کار جہاں)
میرے علم میں نہیں مگر کوئی صاحب علم بتا رہے تھے کہ ٹریفک کے حوالے سے دو درجن کے قریب قوانین ہیں جن میں سے آخری آپشن ایف آئی آر ہے مگر اِسے پہلا آپشن بنا کر صوبے بھر میں نافذ کر دیا گیا ہے۔ یہ ظلم اور دھونس صرف پنجاب ہی میں ہے۔ نہ سندھ میں، نہ کے پی کے میں نہ آزاد کشمیر میں اور نہ ہی بلوچستان میں، حالانکہ عدالت کا حکم تو پورے ملک کے لیے ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ بلوچستان، سندھ، کے پی کے اور آزاد کشمیر کے علاوہ گلگت بلتستان کے بچے بھی تو اسی طرح سے تعلیمی اداروں میں موٹر سائیکلوں پر جا رہے ہیں اور اس طرح جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں کہ وہاں تو ایسا کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔ یہ صرف پنجاب ہی پر’’خصوصی عنایت‘‘ کیوں ؟ میری ڈیرہ اسماعیل خان میں احمد مغل سے بات ہوئی۔ انہوں نے کنفرم کیا کہ کے پی کے میں کسی بھی نو عمر بچے کے خلاف اس قسم کی کارروائی نہیں ہو رہی۔ پھر میں نے حیدر آباد ڈویژن کے حالات معلوم کرنے کے لیے ٹنڈو اللہ یار کے دوست صحافی قاضی نعیم الدین کو فون کیا تو انہوں نے سندھ کے تمام ڈویژنوں سے کنفرم کر کے بتایا کہ وہاں کسی بھی شہر میں ایسا کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔ میں نے بلوچستان میں احمد بگٹی سے معلومات لیں تو اُسے علم ہی نہ تھا کہ ایسا بھی پنجاب میں ہو رہا ہے۔ میں نے ملک بھر میں اپنی صحافتی تنظیم آل پروفیشنل نیوز پرسنز الائنس جس کا میں مرکزی صدر بھی ہوں سے وابستہ صحافی حضرات سے پنجاب کے علاوہ ملک بھر سے معلومات لیں۔ ہر جگہ سے ایک ہی جواب تھا نہیں کوئی کارروائی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پنجاب ہی ٹارگٹ کیوں کیا جا رہا ہے۔ میں ایسے کئی احکامات کا حوالہ دے سکتا ہوں جس میں ہائی کورٹ کے احکامات پراٹارنی جنرل نے پیش ہو کر حقائق بتائے اور احکامات کی نوعیت بدلی۔
کہتے ہیں کہ کسی بھی بچے کی یادداشت میں 12 سے 17 سال کے درمیان جو بھی واقعہ بیٹھ جائے وہ ساری عمر نہیں بھول پایا۔ مجھے ایک مرتبہ ایک سیشن جج جو کہ اب ریٹائرڈ ہو چکے تھے اور جن سے میری بہت دوستی تھی ،کہنے لگے میں نے محسوس کیا ہے کہ تمہارے دل میں عدلیہ کے لیے احترام کا وجود بہت ہی کم ہے بلکہ ہے ہی نہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے تو میں نے انہیں بتایا کہ لاہور میں راوی روڈ کے علاقے میں ہماری دکانیں اور گھر تھا جس میں کرائے دار تھے جو کہ 1967ء سے چلے آ رہے تھے۔ ایک دوکان کا کرایہ 1980 ء میںبھی 30 روپے ماہوار تھا اور وہ بھی نہیں ملتا تھا۔ والد صاحب نے ہمارے ایک رشتے دار وکیل چوہدری مجاہد احمد مرحوم کو کہہ کر مقدمات دائر کروا دیئے۔ ایک مرتبہ مجاہد صاحب کو کسی مقدمے کے سلسلے میں فیصل آباد جانا تھا اور اسی روز تاریخ بھی تھی۔ والد صاحب ان دنوں غالباً میانوالی میں تعینات تھے اور بڑے بھائی انجینئرنگ یونیورسٹی میں لہٰذا مجھے کہا گیا کہ آپ جا کر پیشی لے لینا، میں ہاتھ میں کتابیں لیے خلیل احمد انور نامی سول جج کی عدالت میں گیا تو میں نے چشمہ پہنا ہوا تھا۔ عدالت کے دروازے پر ہی ہرکارے نے عقبی جانب سے میری گردن دبوچ لی اور مجھے جج صاحب کے سامنے پیش کر دیا کہ اس نے توہین عدالت کی ہے مجھے جج صاحب نے ڈانٹا اورکہا کہ تمہیں عدالت میں حاضر ہونے کے آداب ہی نہیں۔ مجھے تب تک سمجھ ہی نہ آیاکہ مجھ سے کیا غلطی ہوئی تھی۔ اسی دوران اہلمند بولا باہر جائو اور برآمدے میں کھڑے ہو کر عینک اتارکر واپس آئو۔ تب میں باہر گیا‘ عینک جیب میں ڈالی اور اوسان بحال کر کے واپس کمرے میں آیا تو جج صاحب اٹھ کر جا چکے تھے۔ دراصل والد مرحوم اس دور کے ایک معروف برانڈ کی عینک پہنا کرتے تھے۔ جب اس کے جوڑ ہل جاتے تو وہ ہمیں مل جاتی اور وہ خود نئی خرید لیتے۔ بس میرا یہی جرم تھا۔ میں عدالت میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا تو وہی اہلمند جس نے مجھے کہا تھا کہ باہر جا کر عینک اتار کر واپس آئو‘ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کام ہے؟ میں نے کہا کہ ’’چاچا جی مجاہد صاحب نے بھیجا ہے تاریخ لینی ہے۔‘‘ اس نے کہا تاریخ ایسے ہی تو نہیں ملتی۔ میں نے چچا مجاہد کی ہدایت کے مطابق پہلے ہی سے 25 روپے جیب میں رکھے ہوئے تھے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے وہ پیسے نکال کر اہلمند کو دیئے اور مجھے تاریخ مل گئی۔ یقین کیجئے کہ میری زندگی کی یہ پہلی رشوت تھی جو میں نے عدالت کے اہلکار کو دی۔ بس وہ دن اور آج کا دن۔ نہ مجھے خلیل احمد انور بھول سکے اور نہ ہی وہ واقعہ۔ بہت سالوں بعد میں لیاقت پور ضلع رحیم یار خان گیا تو خلیل احمد انور وہاں تعینات تھے۔ میں نے ان سے شکوہ کیا کہ آپ کی وجہ سے میری نظر میں نظام انصاف کی عزت نہیں رہی۔ یہ سارا واقعہ سننے کے بعد مجھ سے ریٹائرڈ سیشن جج دوست نے کہا تم سچے ہو میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتا۔
گذشتہ 9 ماہ میں کون سا ایسا ’’میڈل‘‘ ہے جو پنجاب پولیس نے اپنے ماتھے پر نہیں سجایا۔ گھروں میں گھسی‘ عورتوں پر تشدد ہوا‘ عورتوں کو غلیظ گالیاں سننے کو ملیں‘ حالانکہ پنجاب کی صدیوں سے یہ روایت ہے کہ عورت آ جائے تو مردوں کی آنکھیں جھک جاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کسی موٹر سائیکل پر عورت سوار ہوتی تھی تو ٹریفک پولیس والے روکا ہی نہیں کرتے تھے۔ اگر کہیں کوئی واقعہ بھی ہوتا تو ٹریفک پولیس والے عورتوں کو دیکھ کر کہا کرتے تھے ’’بہن جی! آپ ادھر پیچھے کھڑی ہو جائیں‘‘
’’باعث فخر‘‘ ہے کہ ملتان شہر کا گذشتہ روز موٹر سائیکل چلانے والے نو عمر بچوں کی گرفتاری کا سکور 130رہا۔ خدارا! دیکھیں کیسے مائیں عدالتوں میں دھکے کھا رہی ہیں‘ خدارا گھریلو عورتوں کو پولیس اور عدالتی نظام پر نہ چھوڑیں۔ خدارا! یاد کریں کہ چند سال قبل ملتان کے ایک تھانے میں تھانے دار نے گرفتار ہو کر آنے والے بچے کے ساتھ بدفعلی کی تھی اور پھر صلح بھی بچے کے ورثا ہی کو کرنی پڑی تھی۔ خدارا ان معصوم ذہنوں پر رحم کریں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا وہ مشہور واقعہ یاد کریں کہ جب کافر کا وہ سر قلم کرنے لگے تو اس نے حضرت علی کی طرف تھوک پھینک دیا اور سیدنا علی نے اپنی تلوار میان میں رکھ دی کہ اب یہ معاملہ میری ذاتی عناد نہ بن جائے۔ حضور ! کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ان کی پیروی کریں اور آخری جرم ایف آئی آر سے پہلے کے دو درجن سے زائد جرائم پر ہی اکتفا کر لیں۔