تحریر : میاں غفار (کار جہاں )
ایک طرف پنجاب پولیس معصوم طلبہ کو موٹر سائیکل اور سکول بیگز سمیت پکڑے ہی جا رہی ہے اور دوسری طرف شہری پولیس یونیفارم میں ڈکیتی کرنے والے پولیس اہلکاروں کو رنگے ہاتھوں پکڑ رہے ہیں۔ ملتان کے تھانہ چہلیک کے علاقے نواں شہر میں شہریوں نے اے ٹی ایم سے رقم نکلوا کر جانے والے ایک شہری کو روک کر پولیس یونیفارم میں ملبوس دو اہلکاروں کو زبردستی رقم چھیننے کی کوشش کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں دھر لیا۔ معلوم ہوا کہ ان ڈاکوئوں میں سے ایک تو شفیق نام کا پولیس کانسٹیبل ہے جبکہ اس نے اپنے عمیر نامی ساتھی ڈاکو کو بھی پولیس ہی کی یونیفارم پہنا رکھی تھی۔ شہریوں نے واردات کو ناکام بناتے ہوئے دونوں ڈاکو پولیس کے حوالے کر دیئے تاہم پولیس کا یونیفارم والے ڈاکوئوں سے رات گئے تک ’’حسن سلوک‘‘ جاری تھا اور یہ سوچ بچار ہو رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا مزید سلوک کیا جائے۔
گذشتہ چند سال سے پولیس سمیت سرکاری اداروں نے یہ پریکٹس شروع کر رکھی ہے کہ من مانی کرنے کیلئے عدلیہ کا سہارا لیا جائے۔ یہ عدالتوں سے فیصلہ نہیں لیتے صرف ڈائریکشن لیتے ہیں اور پھر اس ڈائریکشن کو تو حکم کا درجہ دے دیا جاتا ہے جس میں ان کا اپنا فائدہ اور بھلا ہو اور جو ڈائریکشن ان کے فائدہ میں نہ ہو اس کا جواب ہی نہیں دیا جاتا، وہ عدالتوں کی راہداریوں میں ہی رلتی رہتی ہے۔ عدالتوں کے لیے بھی ڈائریکشن دینا نسبتاً آسان ہے اور فیصلہ دینا ایک صبر آزما عمل ہے۔ دو سال قبل اچانک عدلیہ کا حکم آیا کہ موٹر وے پر کوئی ایسی گاڑی نہیں چڑھے گی جس پر موٹر وے کا ای ٹیگ نہ لگا ہوا ہو۔ ہزاروں گاڑیاں رک گئیں۔ باراتیں 12 گھنٹے بعد بھی نہ پہنچ سکیں۔ موٹر ویز کے انٹری پوائنٹ پر رش نے لوگوں کے ہوش اڑا دیئے۔ لوگ مریضوں کو لے کر موٹر ویز کے انٹری پوائنٹ پر گھنٹوں دھکے کھاتے رہے سینکڑوں بچے امتحانی مراکز میں پہنچ ہی نہ سکے کہ وہ عام شہریوں کے بچے تھے اگر یہی بچے کسی طاقتور کے ہوتے تو امتحانی سنٹر از خود چل کر اُن کے پاس آ جاتے۔ جس وقت یہ عدالتی حکم جاری ہوا تب موٹر ویز اتھارٹی کے پاس ای ٹیگ کا نظام ہی مکمل نہ تھا۔ لاہور تا پشاور تو سسٹم موجود تھا مگر لاہور سے سکھر کی طرف جاتے ہوئے عبدالحکیم کے علاقے درکھانہ پر یہ سسٹم غائب ہو جاتا تھا اور درکھانہ سے آگے سکھر تک پرانے سسٹم کے تحت پرچیاں ہی چلتی تھیں۔ یہ سسٹم نہ ٹوبہ رجانہ انٹری پوائنٹ پر موجود تھا نہ جڑانوالہ‘ سمندری ‘ننکانہ اور نہ ہی شرقپور میں موجود تھا۔ موٹر وے پولیس اور اتھارٹی کی موجیں لگی ہوئی تھیں۔ لائنوں میں لگ کر کروڑوں روپیہ لوگ سرکاری خزانے میں جمع کروا رہے تھے اور لوگوں کو یہی بتایا جا رہا تھا کہ ہم تو بے بس ہیں۔ عدالت کا حکم ہے کہ کوئی بھی گاڑی جس پر ای ٹیگ نہ ہو‘ موٹر وے پر نہ چڑھے تاہم یہ حکم چند ہفتے بعد اپنا اثر کھو بیٹھا اور پھر کئی ماہ تک ای ٹیگ کے بغیر گاڑیاں پرانے نظام کے تحت ہی موٹر وے پر سفر کرتی پائی گئیں۔ اِس موجودہ حکم میں بھی مکمل معلومات دیئے بغیر عدالت کا سہارا لیکر معصوم بچوں کے ساتھ کہیں کھلواڑ تو نہیں کیا جا رہا اور بچوں سے حوالات بھرے جا رہے ہیں۔
جناب ڈاکٹر صاحب‘ آپ میرے لیے بہت محترم ہیں اِس خطے جسے جنوبی پنجاب کہتے ہیں ،کے لاکھوں افراد خلیجی ریاستوں میں مزدوریاں کر رہے ہیں اور وہ اپنے بچے وہاں ساتھ نہیں لے جا سکتے، ایسے لاکھوں گھروں کے یہی یہ نو عمر بچے محافظ بھی ہیں ، نوکر بھی ہیں اور ڈرائیور بھی۔ خدارا انہیں اپنی ’’حفاظت‘‘ میں نہ لیں۔ میں جب یہ سطور لکھ رہا تھا تو اخبار میں کام کرنے والی ایک سابقہ ٹیلی فون آپریٹر، جس کی نظر سے کالم کی پہلی قسط گزری، کا کئی سال بعد فون آ گیا۔ اس کی شادی فیصل آباد ہو گئی تھی اس نے بتایا کہ اس کے ساتھ بھی اسی طرح ہوا ہے اور اس کا بیٹا بھی ایک رات حوالات دیکھ آیا ہے۔ اب وہ روتا ہے اور بہن کو بھی سکول چھوڑنے نہیں جاتا۔ کوئی ایک مثال ہو تو لکھوں۔ حضور یہاں تو بھرے پڑے ہیں لوگ اس حکم نامے کے بعد اور خدارا اس چنگاری کو آگ میں تبدیل نہ ہونے دیں۔
پنجاب کی صورتحال یہ ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں ڈھائی کروڑ موٹر سائیکلز ہیں اور صرف 48 لاکھ افراد موٹر سائیکل چلانے کے لائسنس ہولڈر ہیں گویا ابھی بھی 2 کروڑ موٹر سائیکل صوبے بھر میں بغیر لائسنس ڈرائیور حضرات چلا رہے ہیں۔کیا کبھی ان پر اس طرح سے بھرپور ہاتھ ڈالا گیا؟۔ حضور اپنا سسٹم تو ٹھیک کر لیں ۔ایک ریٹائرڈ ایس پی چوہدری شریف ظفر جو بہت اچھی شہرت کے حامل ہیں ‘ کی تعیناتی ڈیرہ غازی خان میں بطور ڈی پی او ہوئی تو انہوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ ضلع میں 60 فیصد موٹر سائیکل محکمہ ایکسائز کے پاس رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں اور سالہا سال سے سڑکوں پر بھی چل رہے ہیں۔ انہوں نے سختی کی اور ہزاروں موٹر سائیکل بند کئے مگر یہ سلسلہ آج بھی موجود ہے۔ آج بھی جنوبی پنجاب میں ہزاروں ان رجسٹرڈ موٹر سائیکل سڑکوں پر لاقانونیت پھیلا رہے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے اس طرف توجہ دی جاتی مگر اب مزید کیا کہوں۔ پولیس حکام کی طرف سے جو نیا حکم نامہ جاری ہوا ہے جس کی مکمل تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ جس تھانے کی حدود میں کوئی کم عمر موٹر سائیکل سوار کسی کے ساتھ ایکسیڈنٹ کرے گا تو مذکورہ سرکل کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او قابل گرفت ہوں گے۔
حضور! یہ تو ڈھیلی نیکر فارمولا ہے جو کسی منصوبہ بندی کے تحت عوام پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ میں ڈھیلی نیکر فارمولا جو جنرل ضیاء الحق کے دور سے غیر اعلانیہ طور پر وقفوں وقفوں سے نافذ العمل رہا ہے‘ عرض کئے دیتا ہوں۔ ہوا یوں کہ ایک عورت اپنی سہیلی سے اپنی پریشانی شیئر کرتے ہوئے کہنے لگی کہ میں اپنے بیٹے کی طرف سے بہت پریشان ہوں وہ پہلے اپنے دانتوں کے ساتھ اپنے ناخن کاٹتا ہے پھر وہ کھردرے ناخن اپنے ناک میں بار بار گھماتا ہے اور ناک زخمی کر لیتا ہے، خون رسنے لگتا ہے، سوزش اور الرجی ہو جاتی ہے۔ میں اسے ڈاکٹروں کے پاس بھی لے کر گئی ماہر نفسیات کو بھی دکھایا، اس کے اساتذہ سے بھی مدد طلب کی اور ہاتھ بھی باندھے رکھے مگر وہ باز ہی نہیں آتا۔ سہیلی نے کہا لو اس میں پریشانی والی کیا بات ہوئی، میرا بیٹا بھی اسی طرح کرتا تھا میں نے اسے ڈھیلے لاسٹک والی نیکر سلوا دی ہے اب وہ دونوں ہاتھوں سے نیکر پکڑے رہتا ہے اور جب اس کے ہاتھ ہی فارغ نہیں رہتے تو وہ ناک میں انگلی کیسے ڈال سکتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر ڈھیلی نیکر فارمولا نافذ العمل ہے دیکھیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔(جاری ہے)