آزاد جموں و کشمیر (آزاد کشمیر) ان دنوں ایک نازک اور پیچیدہ صورت حال سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف عوامی جذبات کا لاوا طویل عرصے کے مسائل، معاشی بےچینی، اشرافیہ کے استحقاق یافتہ رویوں، اور مہاجر کوٹہ جیسے حساس معاملات پر بھڑک چکا ہے، تو دوسری طرف حکومتی سطح پر مذاکراتی عمل کو متحرک کر کے امن و استحکام کی بحالی کی سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے۔ ان دونوں بیانیوں کے درمیان، وہ عام کشمیری شہری پس رہا ہے جو نہ احتجاجی سیاست کا حصہ ہے اور نہ حکومتی مراعات یافتہ طبقے کا۔ یہی وہ طبقہ ہے جسے ریاستی توجہ، شفاف مکالمہ، اور فوری ریلیف کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔حالیہ مظاہروں کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شدید احتجاج اور بدامنی کے دوران تین پولیس اہلکار جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ عوامی زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہے۔ پورے آزاد کشمیر میں ہڑتال، رابطوں کا تعطل، اور حکومتی رٹ پر سوالیہ نشان کھڑے ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں وزیر اعظم شہباز شریف کا فوری طور پر ایک اعلیٰ سطحی مذاکراتی کمیٹی کو مظفرآباد روانہ کرنا ایک بروقت اور ذمہ دارانہ اقدام ہے، جس کا مقصد صرف صورتِ حال کو معمول پر لانا نہیں بلکہ اس کے مستقل حل کی بنیاد رکھنا بھی ہے۔یہ مذاکراتی کمیٹی وفاقی وزراء رانا ثناءاللہ، احسن اقبال، سردار یوسف، قمر زمان کائرہ، سابق صدر آزاد کشمیر مسعود خان اور دیگر سینئر شخصیات پر مشتمل ہے، جو نہ صرف حکومتی مؤقف کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ ریاستی مسائل سے گہری واقفیت بھی رکھتے ہیں۔ اس کمیٹی کی موجودگی میں مذاکرات کی کامیابی کے امکانات اس وقت تک روشن ہیں جب تک دونوں فریق ایک دوسرے کو “دشمن” کے بجائے “شریک” سمجھیں۔اداریہ اس امر کی مکمل تائید کرتا ہے کہ عوامی احتجاج ہر جمہوری معاشرے میں ایک بنیادی حق ہے۔ اگر کوئی طبقہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے جائز مطالبات سنے نہیں جا رہے، یا اس پر اشرافیہ کو فوقیت دی جا رہی ہے، تو احتجاج کا راستہ اختیار کرنا اس کا آئینی و جمہوری حق ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ احتجاج پرامن رہے، عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچے، اور ایسا کوئی خلاء نہ چھوڑا جائے جسے پاکستان دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں۔جیسا کہ وفاقی وزیر احسن اقبال نے بجا طور پر کہا کہ کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں انتشار، عدم استحکام اور بداعتمادی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ یہی وہ پہلو ہے جس پر نہ صرف حکومت بلکہ عوامی قیادت کو بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے موجودہ صورت حال کو کشیدگی سے نکالنے کے لیے محض حکومتی اقدامات کافی نہیں بلکہ مشترکہ سیاسی دانش، سنجیدہ مکالمے، اور اعتماد کی فضا قائم کرنا بھی ضروری ہے۔آزاد کشمیر میں مہاجر کوٹہ، اشرافیہ کے مراعات یافتہ استحقاق، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، اور عوامی نمائندوں کی عدم شنوائی جیسے معاملات برسوں سے دبے ہوئے لاوے کی مانند موجود تھے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ عوام نے احتجاج کیا ہو، لیکن اس بار معاملہ ایک وسیع تر دائرے میں پھیل چکا ہے۔ اگرچہ آزاد کشمیر کا سیاسی منظرنامہ عمومی طور پر نسبتاً پرسکون رہا ہے، تاہم حالیہ کشیدگی نے واضح کر دیا ہے کہ اگر دیرینہ مسائل پر بروقت توجہ نہ دی جائے، تو وہاں بھی عوامی ردِعمل شدت اختیار کر سکتا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ عوام کے مسائل کو فوری اور دیرپا حل کی ضرورت ہے، اور عوامی جذبات کا احترام کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے ادارے صبر و تحمل سے کام لیں۔ اسی جذبے کے تحت انہوں نے نہ صرف امن قائم کرنے کی ہدایت دی بلکہ متاثرہ خاندانوں کی فوری مدد، واقعے کی شفاف تحقیقات، اور مذاکراتی کمیٹی کو توسیع دینے جیسے عملی اقدامات بھی کیے۔اب وقت آ گیا ہے کہ مرکز اور آزاد کشمیر کی حکومتیں ایک نئے سوشل کانٹریکٹ کی بنیاد رکھیں، جو عوامی اعتماد کی بحالی، شفاف وسائل کی تقسیم، اور فیصلہ سازی میں عوامی شرکت کو یقینی بنائے۔ ماضی کی طرح محض وقتی ریلیف، وعدے اور اعلانات اب عوام کو مطمئن نہیں کریں گے۔ انہیں عملی اقدامات، واضح ٹائم لائنز، اور مستقل بنیادوں پر مشاورت درکار ہے۔اس وقت سیاسی قیادت کی اصل آزمائش یہی ہے کہ وہ ذاتی مفادات اور جماعتی سیاست سے بالاتر ہو کر عوامی مسائل کو ترجیح دے۔ جیسا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ کشمیری عوام ہمارے جسم کا حصہ ہیں، ان کا درد ہمارا درد ہے۔ یہ جملے صرف الفاظ نہیں، بلکہ اگر ان پر عملدرآمد کیا جائے تو موجودہ بحران کو نہ صرف حل کیا جا سکتا ہے بلکہ ایک نئے دور کا آغاز بھی کیا جا سکتا ہے۔مذاکراتی عمل کو محدود وقت اور مخصوص افراد تک محدود نہ رکھا جائے۔ اس میں تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز، خاص طور پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے تمام معتبر رہنماؤں کو برابری کی سطح پر شامل کیا جائے، اور ان کے مؤقف کو سنا اور سمجھا جائے۔ اگرچہ کچھ شکایات کا تعلق وفاق سے ہے اور کچھ کا ریاستی حکومت سے، لیکن مسئلے کا حل صرف تبھی نکلے گا جب دونوں حکومتیں ایک دوسرے کو مکمل تعاون فراہم کریں۔وزارت داخلہ کی جانب سے اسلام آباد میں مشاورتی اجلاس کا انعقاد بھی اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ وفاق اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہا ہے، تاہم یہ ضروری ہے کہ ان اجلاسوں کے فیصلے زمینی حقائق میں بھی منتقل ہوں۔ صرف رپورٹس، کمیٹیوں اور بیانات سے تبدیلی نہیں آتی، جب تک ان کے نتیجے میں حقیقی اقدامات نہ کیے جائیں۔عوام اور ریاست کے درمیان تعلق صرف حکم کی بنیاد پر نہیں چلتا بلکہ اعتماد، شراکت اور احساسِ شمولیت اس رشتے کی بنیاد بنتے ہیں۔ جب عوام یہ دیکھیں گے کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے، ان کے مسائل پر عملی پیش رفت ہو رہی ہے، اور ان کے حقوق کو تسلیم کیا جا رہا ہے، تو وہ بھی ریاست کے لیے قربانی دینے، نظم و ضبط اپنانے، اور امن قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔آخر میں، یہ امر بھی ناقابلِ تردید ہے کہ دشمن قوتیں ہمیشہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتی ہیں جہاں وہ پاکستان کی داخلی کمزوریوں کو ہدف بنا سکیں۔ لہٰذا حکومت، سیاسی قیادت، ریاستی ادارے اور سول سوسائٹی — سب کو چاہیے کہ وہ کشیدگی کو مزید بڑھنے سے پہلے پہلے اس کا پرامن حل تلاش کریں۔ نہ صرف امن و امان بحال کریں بلکہ آزاد کشمیر کو ایک باوقار، خودمختار، اور ترقی یافتہ خطہ بنانے کے لیے طویل المدتی پالیسی اپنائیں۔ریاستی جبر، انتظامی لاپرواہی، اور سیاسی بے حسی کے بجائے اگر سنجیدہ مکالمہ، عوامی شرکت، اور شفاف حکمرانی کو اپنایا جائے، تو نہ صرف موجودہ بحران ختم کیا جا سکتا ہے بلکہ ایک پائیدار، منصفانہ اور بااعتماد نظام کی طرف پیش قدمی بھی کی جا سکتی ہے۔ مذاکرات، تحمل، اور عوامی شرکت — یہی وہ عناصر ہیں جو آج آزاد کشمیر میں امن و خوشحالی کی بحالی کی ضمانت بن سکتے ہیں۔
