تحریر:طارق قریشی
۔ 1970ءمیں منعقد ہونے والے تمام انتخابات کے نتائج نے جہاں تمام سیاسی مبصرین کو حیران کر دیا وہیں جماعت اسلامی کے اکابرین کیلئے یہ نتائج حیرانی کے ساتھ ساتھ شدید صدمے کا بھی باعث بنے۔ آگے چل کر یحییٰ خان کی جانب سے شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار حوالے نہ کرنے کے عمل نے مشرقی پاکستان میں پاکستانی حکومت اور فوج کے خلاف نفرت علیحدگی کی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی نے فوج کی ذیلی تنظیم بن کر عوامی اکثریت کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ سیاسی کارکنان کی جانب سے مسلح جدوجہد کا حصہ بننے کا پاکستان میں یہ پہلا موقع تھا۔ تقریباً ایک سال کی مہم جوئی کے بعد مشرقی پاکستان کا سقوط ہو گیا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے ساتھ ہی پاکستانی فوج نے اقتدار کسی باقاعدہ قانون کے بغیر ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار کی منتقلی مارشل لاء ریگولیشن کے تحت کی گئی۔ بھٹو نے سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طورپر پاکستان کی حکومت سنبھال لی۔ آگے چل کر اسمبلی کے ذریعے بھٹو پہلے صدر اور بعد میں آئین سازی کے نتیجے میں وزیر اعظم بن گئے۔ 1972ء سے لے کر 1977ء تک بھٹو کے دور حکومت میں جماعت اسلامی کیلئے انتہائی نامساعد حالات رہے۔ 1970ء کے انتخابات میں بدترین شکست نے سید مودودی جیسے مضبوط اعصاب کے مالک پر بھی بہت برا اثر ڈالا۔ پہلی فرصت میں سید مودودی نے اس شکست کا سارا بوجھ اپنے سر پر لیتے ہوئے خود کو جماعت کی امارت سے علیحدہ کر لیا۔ امارت کے ساتھ ساتھ سید مودودی نے اپنے آپ کو جماعت کے تمام سیاسی معاملات سے بھی علیحدہ کرتے ہوئے جماعت کی تمام ذمہ داریوں سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ سید مودودی کی علیحدگی کے بعد جماعت کی امارت کیلئے نیا نام تلاش کرنا بھی ایک کٹھن مسئلہ تھا۔ جماعت کے اکابرین نے آخر کار متفقہ طور پر سید مودودی کے دیرینہ ساتھی اور جماعت اسلامی کے ابتدائی اراکین میں شامل میاں طفیل محمد کو اس منصب کیلئے چن لیا۔ میاں طفیل محمد پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے مگر ان کی پوری زندگی جماعت اسلامی کے گرد ہی گھومتی رہی تھی ۔ ذاتی طور پر مخلص اور شریف النفس آدمی تھے۔ میاں طفیل کو جماعت اسلامی کے امیر کی ذمہ داری سنبھالتے ہی بڑا کٹھن وقت دیکھنا پڑا۔ عام انتخابات میں ناکامی کے باوجود جماعت اسلامی کو پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں پر یہ فوقیت حاصل تھی کہ اس کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے حوالے سے سب سے بڑی تنظیم تھی۔ خیبر سے کراچی تک تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی منتخب کردہ طلبہ یونینز پر اسلامی جمعیت طلبہ ہی طالب علموں کی پسندیدہ جماعت تھی۔ نوجوان طالب علموں کی قیادت نے جماعت اسلامی کو اسمبلی میں قلیل تعداد ہونے کے باوجود حزب اختلاف کی سب سے اہم جماعت بنا دیا تھا۔ بھٹو حکومت بھی جماعت اسلامی کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی تھی اس لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے قائدین کو بدترین فسطانیت کا سانا کرنا پڑا۔ سرکردہ قائدین کو قید میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ انہیں بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی سب سے توانا آواز ڈاکٹر نذیر کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا۔ یہ آزمائش جاری تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء میں قبل از وقت عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے بھٹو کے خلاف متحد ہو کر الیکشن میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان قومی اتحاد کے نام سے اتحاد قائم ہو گیا۔ 9جماعتوں کے اس اتحاد نے ایک نشان اور ایک جھنڈے تلے انتخاب لڑنے کا اعلان کر کے پاکستان کی سیاست میں یکطرفہ ٹریفک کا خاتمہ کر دیا۔ پیپلز پارٹی بھٹو کی قیادت میں انتخابات کو یکطرفہ کارروائی سمجھتے ہوئے انتخابات میں اپنے آپ کو ناقابل شکست سمجھ رہے تھے۔ قومی اتحاد کی انتخابی مہم نے ان کی سوچ تبدیل کر دی۔ ابتداء میں قومی اتحاد جماعت اسلامی کے پاس کوئی بڑے عہدے موجود نہیں تھے۔ قومی اتحاد کی صدارت مفتی محمود جبکہ مرکزی قیادت اصغر خان کے پاس تھی۔ انتخابات کے آغاز میں ہی ذوالفقار علی بھٹو صوبائی وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے دیگر نمایاں افراد کی زبردستی بلا مقابلہ کامیابی نے انتخابات کی شفافیت کو مشکوک بنا دیا تھا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج آتے ہی قومی اتحاد نے ان نتائج پر دھاندلی کے الزامات لگائے ہوئے دو دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ ابتداء میں ذوالفقار علی بھٹو نے حزب اختلاف کے احتجاج کو کوئی اہمیت نہ دی مگر چند دنوں میں ہی حزب اختلاف کی یہ تحریک ملک بھر میں پھیل گئی۔ احتجاجی تحریک میں جماعت اسلامی اپنی تنظیمی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی بھرپور حمایت کے باعث سب سے نمایاں حیثیت اختیار کر گئی۔ بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں تک احتجاجی تحریک کی قیادت اب جماعت اسلامی کے افراد کے پاس ہی تھی۔ تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ جنرل ضیاء نے بھٹو مخالف جماعتوں کو اپنی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی تو قومی اتحاد میں موجود سیاسی جماعتوں میں تقسیم پیدا ہو گئی۔ اصغر خان اور شاہ احمد نورانی جنرل ضیاء کے ساتھ کابینہ میں جانے کیلئے تیار نہ تھے ۔ جماعت اسلامی نے کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ اس زمانے میں جنرل ضیاء اور میاں طفیل محمد کے درمیان رشتے داری کا بھی شور اٹھتا رہا۔ ماموں بھانجے کی پھبتی بھی کسی جاتی رہی۔ کابینہ میں جماعت کی شمولیت کا عرصہ اگرچہ مختصر تھا مگر اس دوران جماعت کے اکابرین نے اپنے نوجوان حامیوں کو پی آئی اے‘ سول ایوی ایشن جیسے اداروں کے ساتھ ساتھ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن جیسے اہم اداروں میں تعینات کرا لیا۔ کالج اور یونیورسٹیاں تو اب بلا شرکت غیرے اسلامی جمعیت طلبہ کے مکمل کنٹرول میں آ گئے۔ جنرل ضیاء نے عام انتخابات منسوخ کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تو جماعت اسلامی حکومت کی غیر اعلان شدہ پسندیدہ جماعت تھی۔ جنرل ضیاء کی حمات نے جماعت اسلامی کے خلاف عام پاکستانی ووٹرز میں نفرت پیدا کر دی تھی۔ تمام تر مثبت اشاروں کے باوجود جماعت اسلامی ایک بھر اپنے اندازوں میں ناکام رہی۔ ملک بھر میں بلدیاتی اداروں میں جماعت اسلامی کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکی۔صرف کراچی شہر میں پیپلز پارٹی اور شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان کی مخالفت میں جماعت اسلامی کو حکومت کی حمایت سے کراچی میونسپل کارپوریشن کا میئر بنانے میں کامیابی حاصل ہو گئی۔ اسی دوران 1979ء میں افغانستان میں روسی حملے نے خطے کی سیاست تبدیل کر دی۔ (جاری ہے)۔
امریکہ اپنے تمام تر ذرائع کے ساتھ روس کو افغانستان میں شکست دینے کے لئے پاکستان کی پشت پر آ کھڑا ہوا۔ افغان جنگ اب جہاد میں تبدیل ہو گئی۔ افغانستان میں جہاد کے نام پر لڑنے والے گروپوں کی قیادت کرنے والے زیادہ تر قائدین نظریاتی طور پر جماعت اسلامی سے قربت رکھتے تھے۔ جماعت اسلامی اب پاکستانی حکومت کے ساتھ ساتھ افغان جنگ کے عالمی کھلاڑیوں کیلئے بھی اہمیت حاصل کر گئی تھی۔ اس اہمیت کے باعث جماعت اسلامی نے ملکی سیاست میں بھی اہمیت حاصل کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی لیکن اب جنرل ضیاء کو دنیا بھر کی حمایت حاصل ہو چکی تھی انہیں ملک میں سیاسی جماعتوں کی حمایت یا مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ جنرل ضیاء نے جماعت اسلامی کے ناجائز مطالبات ماننے سے انکار کرتے ہوئے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔ دوسری طرف اپنی قانونی حیثیت مضبوط کرنے کی خاطر جنرل ضیاء نے ریفرنڈم کے ذریعے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کا فیصلہ کر لیا۔ ملک بھ میں ریفرنڈم کے نام پر ایک ڈرامہ رچایا گیا۔ جنرل ضیاء باقاعدہ پاکستان کے صدر بن گئے۔ صدر بننے کے بعد جنرل ضیاء نے ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا فیصلہ کیا۔ 1979ء میں سید مودودی کی وفات کے بعد میاں طفیل سیاست میں آہستہ آہستہ غیر فعال ہوتے جا رہے تھے۔ اسی دوران افغان جہاد میں جماعت اسلامی کی نمائندگی قاضی حسین احمد کی ذمہ داری تھی۔ قاضی حسین احمد اس حوالے سے پاکستان اور پاکستان سے باہر جماعت اسلامی کی شناخت بن گئے تھے۔ غیر جماعتی انتخابات میں صرف جماعت اسلامی ہی ایسی جماعت تھی جسے حتی المقدور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔ غیر جماعتی ہونے کے باوجود جماعت اسلامی ملک بھر میں ایک نشان ’’چھتری‘‘ کے تحت انتخابات میں حصہ لے رہی تھی۔ میدان خالی دیکھتے ہوئے جماعت ایک بار پھر ملک گیر کامیابی کے گھمنڈ میں گرفتار نظر آئی۔ عوامی مزاج اس کے بالکل برعکس تھا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے پندرہ سال بعد ایک بار پھر جماعت کے سارے خواب چکنا چور کر دیئے۔ انتخابات میں عوام نے جماعت اسلامی کے امیدواروں کو یکسر مسترد کر دیا۔ یہاں تک کہ دوسری مرتبہ میئر کے عہدے پر منتخب ہونے والے کراچی کے میئر عبدالستار افغانی بھی بری طرح ہار گئے۔ 1988ء میں طیارہ حادثہ میں جنرل ضیاء کے انتقال نے ملک میں ایک بار پھر سیاسی منظر تبدیل کر دیا۔ سپریم کورٹ نے آئندہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے کا حکم دیا تو اسٹیبلشمنٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کیلئے سیاسی جماعتوں کے اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔ قاضی حسین احمد اب جماعت اسلامی کے نئے امیر تھے۔ افغان جہاد کے حوالے سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سب سے قریبی رابطوں کے باعث جماعت اسلامی اسلامی جمہوری اتحاد میں نمایاں تھی۔ جماعت اسلامی کو اسلامی جمہوری اتحاد میں اس کے حصہ سے زائد حصہ بھی ملا مگر چند نشستیں ہی جماعت کے حصہ میں آ سکیں۔ جنرل ضیاء اور میاں طفیل محمد کا مبینہ رشتہ داری کا بندھن تو ٹوٹ گیا تھا مگر جماعت اسلامی اور اسٹیبلشمنٹ کا مستقل بنیادوں پر رشتہ ابھی قائم تھا۔ قاضی حسین احمد نے اسلامی جمہوری اتحاد میں اپنی ناکامی کے بعد تنہا اور جارحانہ سیاست کا فیصلہ کیا۔ عوام میں جماعت کو مقبول بنانے کیلئے کبھی پاسبان تو کبھی اسلامی فرنٹ کے نام پر موسیقی سے لبریز جلسوں کا اہتمام شروع کیا۔ اسٹیبلشمنٹ جماعت اسلامی سے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کو کمزور بنانے کیلئے قاضی حسین احمد کے اس نئے انداز سیاست میں ان کا ہمقدم تھا۔ 1993ء کے عام انتخابات میں نواز شریف کا راستہ روکنے کیلئے قاضی حسین احمد پاکستانی اسلامی فرنٹ کے نام کے ساتھ زور و شور کے ساتھ سیاسی میدان میں اترے۔ دو سو سے زائد قومی اسمبلی کے امیدوار بھی کھڑے کئے مگر عوام نے نہ قاضی حسین احمد کے جارحانہ انداز کو مانا نہ اسلامی فرنٹ کے موسیقی سے بھرپور جلسوں کو۔ جماعت ایک بار پھر مکمل ناکام دکھائی دی