بلوچستان کے ضلع مستونگ کی تحصیل دشت میں حالیہ دنوں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے بم حملے نے ایک بار پھر ریاستی اداروں کو یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ صوبے میں سیکیورٹی کی صورتحال تشویشناک حد تک نازک ہو چکی ہے۔ یہ حملہ، جس میں خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا—بلکہ صرف چار دنوں کے اندر اسی ٹرین کو نشانہ بنانے کی یہ دوسری کوشش تھی۔
350 مسافروں سے بھری یہ ٹرین جب کوئٹہ سے پشاور کی طرف رواں دواں تھی، تو دھماکے کے نتیجے میں اس کی چھ بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ مسافروں کی آنکھوں کے سامنے پانچ ماہ قبل پیش آنے والے دلخراش واقعے کی یادیں تازہ ہو گئیں، جب دہشت گرد تنظیم نے یہی ٹرین روک کر مسافروں کو یرغمال بنایا اور کئی افراد، بشمول سیکیورٹی اہلکار، جان کی بازی ہار گئے۔
یہ تمام واقعات اس افسوسناک حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جعفر ایکسپریس—جو بلوچستان کو دیگر صوبوں سے جوڑنے کی علامت سمجھی جاتی ہے—اب دہشت گردوں کی اولین ترجیح بن چکی ہے۔ اس ٹرین کو مسلسل نشانہ بنایا جانا نہ صرف عام شہریوں کے لیے خوف اور غیر یقینی کی فضا پیدا کرتا ہے بلکہ یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ ریاست ابھی تک صوبے میں مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام ہے۔
یہ محض ایک ریلوے لائن پر حملہ نہیں، بلکہ ایک علامتی پیغام ہے کہ بلوچستان کی شورش ابھی ختم نہیں ہوئی، بلکہ شدت اختیار کر رہی ہے۔ یہ واقعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جب تک اس شورش کی بنیادی وجوہات کو تسلیم کر کے ان کا حل تلاش نہیں کیا جاتا، تب تک ریاستی رٹ پر سوالیہ نشان برقرار رہے گا۔
بلوچستان کے سماجی اور سیاسی مسائل کو محض سیکورٹی آپریشنز سے حل کرنے کی پالیسی نہ صرف ناکام ہو چکی ہے، بلکہ اس نے عام شہریوں کو بھی بدظن کیا ہے۔ ہر اختلاف کو غداری قرار دے دینا، ہر سوال کو ریاست دشمنی میں شمار کرنا، ایک ایسا رویہ ہے جو مزید دوریاں پیدا کر رہا ہے۔ یہ روش بلوچستان کے عوام کو اپنے ہی وطن میں اجنبی بنانے کے مترادف ہے۔
ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنے رویے اور پالیسیوں پر از سر نو غور کرے۔ بلوچستان کے عوام کی آواز کو سننے، ان کے تحفظات کو تسلیم کرنے اور ان کے سیاسی نمائندوں کے ساتھ سنجیدہ مکالمے کا آغاز کرے۔ بصورت دیگر، جعفر ایکسپریس جیسے واقعات ہمیں بار بار یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ ہم ایک دیرینہ مسئلے کو محض وقتی سیکیورٹی اقدامات سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں—اور یہی سب سے خطرناک خام خیالی ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ریاست طاقت کے استعمال سے آگے بڑھے، اور بلوچستان کے لیے وہ دروازے کھولے جو انصاف، شمولیت، اور سیاسی مصالحت کی طرف لے جاتے ہوں۔ ورنہ جعفر ایکسپریس کی پٹری سے اترتی بوگیاں ہمیں آئندہ بھی بتاتی رہیں گی کہ ہم نے اصل مسئلے کی جڑوں کو پہچاننے سے انکار کر دیا ہے۔بلوچستان کی صورتحال کا تقاضا صرف سیکیورٹی ردعمل نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت حکمتِ عملی ہے—ایک ایسا قومی وژن جس میں بلوچ عوام کو ریاست کے شراکت دار کے طور پر شامل کیا جائے، نہ کہ صرف مشتبہ فریق کے طور پر دیکھا جائے۔ جعفر ایکسپریس پر حملے محض ریلوے نظام کی کمزوری کا اظہاریہ نہیں، بلکہ یہ اس وسیع تر احساسِ محرومی اور بیگانگی کی علامت ہیں جو بلوچستان میں برسوں سے پنپ رہا ہے۔
جب کسی ریاست میں عام شہری اپنے تحفظ کے بجائے اپنے سفر کو جان کا خطرہ سمجھنے لگیں، تو یہ صرف سیکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی نہیں بلکہ ایک اجتماعی ریاستی غفلت کا مظہر بن جاتا ہے۔ بلوچستان کو اگر واقعی قومی دھارے میں شامل کرنا ہے تو یہ صرف انفراسٹرکچر منصوبوں یا وسائل کی تقسیم کے وعدوں سے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے سیاسی اعتبار، باہمی اعتماد، اور سماجی احترام کی بنیاد پر ایک نیا عمرانی معاہدہ ضروری ہے۔
مزید برآں، موجودہ پالیسیوں میں فوری تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ جو ریاستی اقدامات محض زورِ بازو پر قائم ہوں، وہ دیرپا امن نہیں لا سکتے۔ بلوچستان کی نوجوان نسل کو اگر ترقی، روزگار اور انصاف میسر نہیں آئے گا تو اُن کے دلوں میں نفرت کے بیج بوئے جاتے رہیں گے، جنہیں شدت پسند گروہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہیں گے۔
اس وقت ہمیں ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو محض ردعمل نہ ہوں، بلکہ ایک واضح اور مستقل وژن کی علامت ہوں۔ جیسے:
بلوچستان کے نوجوانوں کو قومی اداروں میں نمائندگی دی جائے۔
لاپتہ افراد کے مسئلے پر شفاف تحقیق اور قانون کے مطابق پیشرفت کی جائے۔
مقامی قیادت کو اعتماد میں لے کر سیاسی مفاہمت کی راہیں کھولی جائیں۔
ترقیاتی منصوبے مقامی ضرورتوں اور مشاورت سے ترتیب دیے جائیں۔
جعفر ایکسپریس پر بار بار ہونے والے حملے ہمیں ایک ہی سبق دے رہے ہیں: اگر ہم نے بلوچستان کی آواز نہ سنی، اگر ہم نے صرف طاقت سے جواب دینے کی روش جاری رکھی، تو ہمیں صرف ٹرینوں کے پٹڑی سے اترنے کا ہی سامنا نہیں ہوگا، بلکہ وہ رشتہ بھی پٹڑی سے اتر جائے گا جو اس صوبے کو پاکستان سے جوڑتا ہے۔قوموں کی یکجہتی زبردستی سے قائم نہیں ہوتی، یہ اعتماد، احترام اور برابری کے رویوں سے پروان چڑھتی ہے۔ اب وقت ہے کہ بلوچستان کے ساتھ اس جذبے سے پیش آیا جائے—ورنہ آنے والی نسلیں نہ صرف ہمیں معاف نہیں کریں گی بلکہ خود بھی اس احساسِ بیگانگی کا شکار ہو جائیں گی جو علیحدگی کی راہوں کو ہموار کرتا ہے۔جعفر ایکسپریس پر حملے ایک الارم ہیں۔ اب یہ ریاست کی دانشمندی اور سنجیدگی کا امتحان ہے کہ وہ اس الارم کو سنے، سمجھے، اور اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے، اصلاح احوال کے لیے عملی اقدامات کرے۔پاکستان کی سالمیت، صرف سرحدوں کے دفاع سے نہیں، دلوں کے جیتنے سے محفوظ رہ سکتی ہے۔
