ججز خط کیس میں ایک نیا موڑ آ گیا ہے اور سپریم کورٹ اب اس کیس کا ازد خود نوٹس لیکر سماعت کر رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے، جب وفاقی کابینہ کو یہ کہتے ہوئے معاملے کو سنبھالنے کی ہدایت کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے چیف جسٹس کے نام ایک خط لکھا ہے جو کہ پریشان کن ہے، مبصرین کو فکر تھی کہ خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت کے معاملے میں حکومت کی جانب سے تحقیقات ایک غیر موثر اقدام ثابت ہوگی۔
قانونی برادری کے اندر سے آوازیں ابھی بھی بلند ہو رہی تھیں کہ سپریم کورٹ نے اپنی ذمہ داری کو نظرانداز کیا ہے اور تحقیقات کا پورا کنٹرول حکومت کے حوالے کر دیا ہے، ایک معزز سابق جج، ریٹائرڈ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو باضابطہ طور پر ججوں کے خط کی تحقیقات کے لئے انکوائری کمیشن کے سربراہ کے طور پر مقرر کیا گیا۔
تاہم، پیر تک – 300 سے زائد وکلاء کے ایک کھلے بیان کے بعد، اور چھ آئی ایچ سی ججوں کے براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر غور کرنے کی سرگوشیوں کے درمیان، اور مسٹر جیلانی کی جانب سے ایک شائستہ ‘نہیں، شکریہ کے بعد، یہ منصوبہ بکھرتا ہوا محسوس ہوا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیر کو اعلان کیا کہ ان کی عدالت نے معاملے کا سو موٹو نوٹس لیا ہے، یہ مطالبہ مانتے ہوئے کہ خط کو آرٹیکل 184(3) میں بیان کردہ اپنے دائرہ اختیار کے تحت سپریم کورٹ کے ذریعے اٹھایا جائے۔ سات رکنی بینچ اب اس معاملے کی سنوائی کر رہا ہے۔
اگرچہ بینچ کے سائز اور تشکیل پر کچھ حلقوں کی طرف سے کچھ خدشات ظاہر کیے گئے ہیں، تاہم یہ ترقی قانونی برادری کے لئے ایک بڑی کامیابی ہے اور اسے مثبت قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ عدالت اب ماضی کے اہم مقدمات کی طرح کارروائی کو براہ راست نشر کرنے کا انتظام کرے گی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے جو معاملات اٹھائے ہیں انہوں نے کافی سنسنی پیدا کی ہے، اور اس لئے عوامی مفاد میں ہوگا کہ ان کا بھی شفاف طریقے سے ازالہ کیا جائے۔
قانونی برادری کو انکوائری کمیشن کی شکل میں سمجھوتہ قبول نہ کرنے اور خط کو سپریم کورٹ کے ذریعے اٹھانے کے لئے زور دینے پر بہت زیادہ ستائش ملنی چاہئے۔
مسٹر جیلانی کی چھ موجودہ ججوں پر انکوائری کرنے سے انکار کرنے کی اچھی طرح سے وجہ بتائی گئی ہے، اور اس کی بھی تعریف کی جانی چاہئے۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس نے حکومت کی جانب سے ان کی نامزدگی کے غور کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے شائستہ طور پر اشارہ کیا کہ چونکہ خط سپریم جوڈیشل کونسل اور اس کے چیئرمین کو مخاطب کیا گیا تھا، اس لئے ادارہ جاتی معاملے میں ان کا دخل دینا مناسب نہیں ہوگا۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے طے کی گئی تحقیقات کے دائرہ کار پر بھی اعتراض کیا، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ وہ ججوں کے خط میں اٹھائے گئے مسئلے، یعنی جب وہ دباؤ میں ہوتے ہوں تو ججوں کو کیا کرنا چاہئے، سے متعلق نہیں لگتے۔
ایسا کرتے ہوئے، مسٹر جیلانی نے اس دلیل کو بہت مضبوط کیا جو دوسروں نے کہا تھا: عدلیہ کو اس مسئلے کو اندرونی طور پر حل کرنا چاہئے۔ اب امید کی جاتی ہے کہ وہ ایسا پرجوش طریقے سے کریں گے۔
معیشت کہاں کھڑی ہے؟
وفاقی فنانس ڈویژن نے اپنی تازہ ترین اکنامک رپورٹ میں بتایا ہے کہ نگران حکومت کے دور میں رواں مالیاتی سال کے پہلے چارہ ماہ کےاختتام پر میں کل مقامی نمو /چی ڈی پی 2 اعشاریہ 50 فیصد رہی اور اگلے چارہ ماہ میں یہ اور کم ہوکر محض ایک فیصد پر آگئی – معشیت کی نمو پر اس سے زیادہ ناقص کارکردگی کا مظاہرہ اور نہیں ہوسکتا- وفاقی فنانس ڈویزن کی اس رپورٹ کی روشنی میں یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ آخر سابق نگران حکومت میں بڑے دعوؤں کے ساتھ شامل کیے گئے مالیاتی بیوروکریٹس اور بڑے سرمایہ دار کس اہلیت کی بنا پر اس کابینہ میں شامل کیے گئے تھے؟
اس قدر بری شرح نمو کا سبب کیا تھا؟ اس رپورٹ میں بیان کیے گئے اعداد و شمار میں پہلا سبب تو فوری نظر آتا ہے اور وہ ہے بڑے پیمانے پر مصنوعات کی تیار کرنے والے شعبے – ایل ایس ایم میں پہلے سے جارہی منفی شرح نمو جو جولائی تا دسمبر 2023ء میں منفی صفر اعشاریہ 40 فیصد تھی وہ اور کم ہوکر منفی صفر اعشاریہ باون فیصد رہ گئی- فروری میں معشیت کی شرح نمو کے ایک فیصد رہنے کے عمل میں دیکھا جائے تو حکومت اس کا سبب سمینٹ سیکٹر کی نمو منفی دس اعشاریہ اٹھانوے فیصد ہونا بتاتی ہے جس کا کل جی ڈی پی میں حصّہ چار اعشاریہ پینسٹھ فیصد بنتا ہے لیکن وہ اپنی ہی رپورٹ میں بیان کردہ کپباس سے بنے دھاگے کی نمو کے جی ڈی پی میں صفر اعشاریہ پچاس فیصد، کپڑے کی صنعت کے جی ڈی پی میں سات اعشاریہ انتیس فیصد اور ہوزری کے جی ڈی پی میں نمو کے اندر چھے اشاریہ صفر آٹھ فیصد کو بالکل نظر انداز کیا جبکہ ان تینوں کی تیاری کی صنعت میں ترقی کی شرح بالتریت صفر اعشاریہ پچاس فیصد(0ء50)، صفر اعشاریہ چھے فیصد (0ء6) اور اٹھائیس اعشاریہ صفر چھے فیصد (28ء06) رہی –
ان مہینوں کا موازانہ اس دور حکومت سے کیا گیا ہے جب اسحاق ڈار وزیرخزانہ تھے جب کزشتہ سال مالیاتی سال 2024ء کے سال جنوری میں معشیت کی نمو منفی 5ء59 فیصد نوٹ کی گئی اور اسے دیکھتے ہوئے اس سال جنوری 1ء84 فیصد گروتھ رہی۔
مارچ 28، 2024ء کو محکمہ شماریات پاکستان نے اپنی ویب سائٹ پر ایک پریس ریلیز اپ لوڈ کی جس میں کہا گیا تھا کہ نیشنل اکاؤنٹس کمٹی کے اجلاس میں یہ بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے پہلے دوسرے چارہ (اکتوبر تا دسمبر) میں پہلے چارہ ماہ (جولائی تا ستمبر) کی طرح منفی گروتھ (منفی صفء84٪)۔ اس دورانیہ میں کان کنی وغیرہ کی صنعت نے منفی 4ء17 فیصد گروتھ دیکھی کیونکہ گیس کی پیداوار میں نمایاں کمی آئی تھی ، ماربل انڈسٹری نے منفی 40ء13 فیصد ، لائم اسٹون انڈسٹری نے منفی 20 فیصد کمی دیکھی-
بڑے پیمانے کی مصنوعات کی تیاری کی صنعت جس کی بنیاد کوانٹم انڈیکس آف مینوفیکچرنگ پر ہے نے کوکنگ آئل ، ہوزری اور فرپیلائزرز کی صنعتوں میں ترقی کی وجہ سے 0ء35٪ گروتھ دیکھی۔
بجلی، گیس اور پانی کی سپلائی کی صنعت نے 1ء54 فیصد کی جو مثبت گروتھ دکھائی اس کی وجہ آئی پی پیز ، ہائیڈور اور نیوکلئیر پلانٹس کی آؤٹ پٹ میں اضافہ تھا- تعمیراتی صنعت سیمنٹ کی پیداوار میں منفی 8ء7 فیصد کمی کے سبب منفی 17ء59 فیصد تک پہنچ گئی-
اس ساری تفصیلات سے تین اہم مشاہدات نوٹ میں آتے ہیں: کوکنگ آئل بڑے پیمانے پر درامد ہوتا ہے۔ جبکہ فرٹیلائزر انڈسٹری کو رعایتی نرخوں پر مقامی گیس فراہم کی جاتی ہے۔ گیس اور بجلی کی پیداوار میں ترقی کا کوئی مللب اس لیے نہیں بنتا کہ وہاں گیس اور بجلی دونوں کی کھپت میں کمی ائی ہس اور اس کا ایک بڑا سبب بے تحاشا قیمتوں میں اضافہ ہے۔ اور یہ جو عام سرکاری اخراجات میں کمی کا دعوا کیا جارہا ہے اس میں کمی صرف ترقیاتی اخراجات میں نظر آتی ہے جبکہ کرنٹ اخراجات جو ہیں ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ان کے لیے مقامی بینکوں سے بے تحاشا قرضے لیکر فنڈز کی فراہمی جاری ہے۔ اور اس سے پرائیویٹ سیکٹر کے قرضوں کا ایک بڑا حجم جمع ہوگیا ہے۔
صارفین کی قیمتوں کا اشاریہ فروری 2024ء میں 28 فیصد تک بڑھ گیا جو کہ گزشتہ سال فروری میں 26ء2 فیصد تھا- حکومت کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سیی پی آئی میں بھی کم از کم 2ء5 فیصد کم کرکے دکھا رہی ہے۔
موجودہ اکنامک اپ ڈیٹ کا تنقیدی جائزہ صاف بتاتا ہے کہ نگرانوں کی رحضتی کے وقت سے لیکر اب تک پاکستان کی معشیت کے تمام اہم شعبے زوال پذیر ہیں اور ان کے اشاریے اس معشیت کی بدتر حالت کا اظہار ہیں جس میں حکومت کا سارا کاروبار کمرشل بینکوں سے بھاری قرضے لے کر چلایا جا رہا ہے اور کرنٹ اخراجات میں کوئی بھی کمی کرنے سے گریز ہے۔
اس صورت حال سے نکلنے کے لیے روایتی سوچ سے باہر نکل کر اقدامات اٹھانے کی کوشش کرنا ہوگی- اس میں سب سے بڑا کام بڑی ادارہ جاتی اصلاحات ہیں- حکومت کو ایک یا دو سال کے لیے بجٹ میں اپنے کرنٹ اخراجات میں انتہائی کمی لانا بھی شامل ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی ترغیب تب ہی ملے گی جب سویلین و فوجی اسٹبلشمنٹ مل کر اتفاق رائے سے ڈپلومیسی بنائیں گی-