جامعہ زکریہ میں تعلیم مہنگی، بجلی، گیس، پانی بل بھی طلبہ سے وصول، 44 کروڑ کی اضافی فیسیں

ملتان (سہیل چوہدری سے) بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ سے کروڑوں روپے اضافی فیسوں کی وصولی کا انکشاف ہوا ہے۔ بجلی،پانی اور گیس کے بل بھی غریب طلبا وطالبات سے وصول کیے جا رہے ہیں ۔تفصیل کے مطابق بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں طلبہ و طالبات سے مختلف مدوں میں اضافی فیسیں وصول کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہےجس سے یونیورسٹی انتظامیہ پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق یونیورسٹی کی جانب سے طلبہ سے کانووکیشن، ڈگری ایشو، آن لائن ٹیچنگ سپورٹ، سکاؤٹنگ اینڈ روورنگ، کنٹیجنسی، سپورٹس، ریسرچ فنڈ، ڈیجیٹل لائبریری، رجسٹریشن اور دیگر چارجز کے نام پر کروڑوں روپے اضافی وصول کیے جا رہے ہیںجو فیس سٹرکچر 2025 کے مطابق ہیں۔فیس سٹرکچر شعبہ خزانہ دار کا جاری کردہ ہے۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری نے حال ہی میں بتایا کہ اس سال تقریباً 7500 داخلے ہوئے ہیں، جن میں بی ایس (چار سالہ پروگرام)، اے ڈی پی (دو سالہ پروگرام)، بی ایس پانچواں سمیسٹر، ایم فل، پی ایچ ڈی، فارمیسی اور ڈی وی ایم (پانچ سالہ پروگرام) شامل ہیں۔ ان داخلوں کی بنیاد پر طلبہ سے اضافی فیسوں کی مد میں تقریباً 44 کروڑ روپے اضافی وصول کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ یونیورسٹی کی جانب سے وصول کی جانے والی اضافی فیسوں میںکانووکیشن فیس: 3000 روپےڈگری ایشو چارجز: 1000 روپےآن لائن ٹیچنگ سپورٹ: 8000 روپےسکاؤٹنگ اینڈ روورنگ فیس: 8000 روپےکنٹیجنسی فیس: 4000 روپےسپورٹس فیس: 8000 روپےریسرچ فنڈ: 4000 روپےڈیجیٹل لائبریری: 8000 روپےرجسٹریشن فیس: 5000 روپے (اس کے علاوہ ہر سمسٹر میں 750 روپے اضافی رجسٹریشن فیس)یوٹیلیٹی چارجز: 8000 روپے (بجلی، پانی اور گیس کے بل طلبہ سے وصول کیے جا رہے ہیں)لائبریری رینٹل فیس: 12000 روپے شامل ہے۔طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ چارجز غیر ضروری اور اضافی ہیں، خاص طور پر جب یونیورسٹی کے فیس سٹرکچر 2025 کے مطابق ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ “ہم پہلے ہی تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے میں مشکل کا شکار ہیں اور یہ اضافی فیسیں ہماری تعلیم کو مزید مشکل بنا رہی ہیں۔انکشافات کے مطابق پہلے سمسٹر میں تقریباً 7 کروڑ 20 لاکھ روپے اضافی فیسوں کی مد میں وصول کیے گئے، جبکہ دوسرے سمسٹر میں 8 کروڑ 51 لاکھ 25 ہزار روپے اضافی وصولی کا امکان ہے۔ یہ اعداد و شمار 7500 داخلوں کی بنیاد پر تیار کیے گئے ہیں، جو یونیورسٹی کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ظاہر کرتے ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے چارجز طلبہ کی تعلیم تک رسائی کو متاثر کر سکتے ہیں اور شفافیت کی ضرورت ہے۔یہ معاملہ اعلیٰ حکام کی توجہ کا منتظر ہے، اور طلبہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اضافی فیسوں کی واپسی اور فیس سٹرکچر کی نظرثانی کی جائے۔

مزید پڑھیں: بی زیڈ یو: کنٹرولر آفس کرپشن گڑھ، ’’مٹھائی دو ڈگری لو‘‘، طلبہ سے ڈیمانڈ

ملتان(وقائع نگار) بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے کنٹرولر آفس میں مبینہ کرپشن کا انکشاف، طلبہ کی ڈگریاں حاصل کرنے میں رکاوٹیں اور رشوت کا الزام ،بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے کنٹرولر آفس میں ڈگریاں جاری کرنے کے عمل میں مبینہ کرپشن اور بدعنوانی کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق دور دراز سے آنے والے طلبا و طالبات کو ڈگریاں حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، جہاں آفس کے بعض اہلکاروں پر الزام ہے کہ وہ رشوت کے عوض فوری ڈگریاں جاری کرتے ہیں جبکہ انکار کرنے والوں کے دستاویزات ضائع کر دی جاتی ہیں یا ڈگریاں چھپا لی جاتی ہیں۔یونیورسٹی کے سابق طلبہ کی جانب سے کی گئی شکایات میں کہا گیا ہے کہ کنٹرولر آفس میں ڈگریوں کے لیے مقررہ ریٹ چل رہے ہیں۔ ایک سابق طالب علم نے بتایا کہ “دور دراز سے آنے والے طلبہ کو راستے میں ہی روک کر ‘ڈیل کی جاتی ہے۔ اگر مٹھائی (رشوت کا استعارہ) نہ دی جائے تو ڈگری چھپا لی جاتی ہے یا یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ ڈگری متعلقہ پتے پر بھجوا دی گئی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی امیدوار رجسٹری نمبر کا مطالبہ کرے تو جواب ملتا ہے کہ متعلقہ کلرک چھٹی پر ہے۔شکایات میں نامزد اہلکاروں میں جونیئر کلرک آصف سعید، عبدالستار، اختر، جام منیر، راشد، عبدالحئی اور سٹور میں تعینات عبدالغنی شامل ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ اہلکار عرصہ دراز سے انہی سیٹوں پر تعینات ہیں اور ڈگریوں کے لیے جمع کرائی جانے والی دستاویزات کو مبینہ طور پر استعمال کر کے بدعنوانی کر رہے ہیں۔ جو طلبہ پیسے دیتے ہیں انہیں فوری ڈگری مل جاتی ہے جبکہ دوسروں کو مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے یا ان کی فائلیں ‘گم ہو جاتی ہیں۔بی زیڈ یو میں کرپشن کی یہ تازہ شکایات یونیورسٹی کی تاریخ سے مطابقت رکھتی ہیں۔ ماضی میں بھی بی زیڈ یو میں بدعنوانی کے متعدد کیسز سامنے آ چکے ہیں، جیسے کہ 2013 میں سابق وائس چانسلرز پر کرپشن کے الزامات، 2018 میں NAB کی جانب سے وائس چانسلر کے خلاف تحقیقات اور حال ہی میں 2025 میں جعلی ڈگریوں کی فروخت کا انکشاف۔2019 میں ایک ویڈیو رپورٹ میں کنٹرولر آفس کے افسران پر نتائج میں ہیرا پھیری کا الزام لگایا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ان شکایات کی تحقیقات کی جائیں تو مزید حقائق سامنے آ سکتے ہیں۔ طلبہ تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے اور نامزد اہلکاروں کو معطل کیا جائے۔یہ معاملہ اعلیٰ تعلیم میں شفافیت اور احتساب کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوئے تو یہ نہ صرف طلبہ کے حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ تعلیمی اداروں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں