ملتان (ایڈیٹر رپورٹنگ) بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر انڈر پریشر، ایمپلائز یونین کے ہاتھوں تشدد و حملے کے شکار ٹرانسپورٹ آفیسر مجاہد حسین کو انصاف ملا نہ غنڈہ گردی کے مرتکب ملازمین کیخلاف انکوائری شروع ہوسکی ، آر او مقرب اکبر معاملہ ٹھپ کرانے کے مشن پر چل پڑے ، متاثرہ ٹرانسپورٹ آفیسر نے گورنر پنجاب/ چانسلر کو درخواست و مقدمے کے اندراج کا عندیہ دیدیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں 15 نومبر بروز جمعہ کو ایمپلائز یونین کے صدر محمد حر غوری ، ڈرائیورز و کنڈیکٹرز کی جانب سے ٹرانسپورٹ آفیسر مجاہد حسین پر حملہ کیا گیا اور انہیں گریبان سے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ مجاہد حسین نے وائس چانسلر زکریا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری کو اس غنڈہ گردی کے خلاف کارروائی کی درخواست دی جس پر 10 روز گزرنے کے باوجود کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور نہ ہی باقاعدہ انکوائری کا آغاز ہوسکا ہے حالانکہ اس معاملے کے ناقابل تردید ثبوت فوٹیجز کی صورت موجود ہیں ۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وائس چانسلر انکوائری شروع کرانے کے معاملے میں انڈر پریشر آئے ہوئے ہیں اور انہوں نے آر او ڈاکٹر مقرب اکبر کو اس قدر گھمبیر معاملہ انتظامی پریشر سے ختم کرانے کی ہدایت کی ہے اور خود اسلام آباد روانہ ہوگئے ہیں ، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ٹرانسپورٹ آفیسر کو ایمپلائز یونین وائس چانسلر کے سیکرٹری امین زاہد اور ایک شعبے کے ڈائریکٹر کی ایماء پر مزید خوف و ہراس کا شکار کیا جارہا ہے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں ، ذرائع کا کہنا ہے کہ وائس چانسلر کی جانب سے آر او ڈاکٹر مقرب اکبر نے ایمپلائز یونین ، ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز کو یقین دہانی کرادی ہے کہ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا بلکہ نواز بچہ کو ٹرانسپورٹ آفیسر تعینات کرکے یونیورسٹی ٹرانسپورٹ پرانی طرز پر چلائی جائے گی۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ٹرانسپورٹ آفیسر یونیورسٹی انتظامیہ سے مایوس ہوکر گورنر پنجاب/ چانسلر اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو درخواست دینے کا ارادہ ظاہر کرچکے ہیں اور اس صورت حال میں زکریا یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی نشتر ہسپتال معاملے کی طرح ڈسپلن کے معاملے میں انتظامی غفلت پر بڑی انکوائری اور مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ زکریا یونیورسٹی کے آفیسرز اور ملازمین نے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری کے طرز عمل پر انتہائی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ وائس چانسلر نے ابتداء میں ڈسپلن کی خلاف ورزیوں اور یونیورسٹی کی تعلیمی شہرت کو نقصان پہنچانے پر جس زیرو ٹالرنس کا اعلان کیا تھا وہ کہاں گیا۔ اس حوالے سے وائس چانسلر سے موقف لینے کے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
