ملتان (سٹاف رپورٹر) ملک بھر کی یونیورسٹیوں اور ہائر ایجوکیشن کے اداروں میں اساتذہ کرام نے سمسٹر سسٹم کی’’برکات‘‘سے بھرپور فوائد اٹھاتے ہوئے اپنی طالبات اور ٹیچرز کے ساتھ بغیر کسی ریکارڈ کے خفیہ شرعی نکاح کرنے شروع کر دیئے ہیں اور ’’خفیہ نکاح کا یہ محفوظ رواج‘‘ پروفیسر حضرات میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے بعض پروفیسر حضرات نے باقاعدہ نکاح خواں حضرات کی خدمات لے رکھی ہیں اور بعض نے مستقل بنیادوں پر نکاح خواں حضرات کی سہولت کاری لے رکھی ہے تاکہ غیر ریکارڈ یافتہ منکوحہ کو یہ تسلی دی جا سکے کہ وہ کوئی غیر شرعی کام نہیں کر رہے۔ روزنامہ قوم کو ملنے والی مصدقہ معلومات کے مطابق ملتان کی ایک بڑی یونیورسٹی کے چار ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس سمیت بعض ضعیف العمر پروفیسر حضرات نے بھی غیر ریکارڈ یافتہ خفیہ نکاح کر رکھے ہیں اور ان میں سے ایک ایسے’’ کاریگر‘‘ بھی ہیں جو تین خواتین سے اب تک خفیہ نکاح کے ذریعے مرحلہ وار استفادہ حاصل کر چکے ہیں اور ان میں ایک ٹیچر جبکہ دو طالبات شامل ہیں۔ پروفیسر مذکور جن کے ان خفیہ نکاحوں بارے روزنامہ قوم کے پاس مصدقہ معلومات ہیں، نے ایک لیڈی ٹیچر سے انہیں مستقل کرانے کے جھانسے سے خفیہ نکاح کے ذریعے استفادہ شروع کر رکھا ہے اور یہ ان کا تیسرا استفادہ ہے۔ ایک پروفیسر تو ایسے بھی ہیں جو اپنی خفیہ منکوحہ کو بیرون ملک کا دورہ بھی کروا چکے ہیں جبکہ ان پروفیسر حضرات کے اپنی ان شرعی منکوحہ خواتین کے ہمراہ اندرون ملک دوروں کا تو شمار ہی نہیں۔ بعض پروفیسر حضرات تو دیگر یونیورسٹیوں کے پروفیسر حضرات سے باقاعدہ درخواست کرتے ہیں کہ انہیں کسی انٹرویو یا کانفرنس کا دعوت نامہ بھجوایا جائے تاکہ وہ اپنی حقیقی زوجہ کو اعتماد میں لے کر خفیہ منکوحہ کے ہمراہ کانفرنس کے بہانے سفر کر سکیں اور ٹی اے/ ڈی اے سے اخراجات بھی پورے کرتے رہیں۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ اپنی طالبات اور نوجوان لیکچرار خواتین کے ساتھ خفیہ شادیاں کرنے والے ان پروفیسر حضرات کے نکاح کا چونکہ کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا لہٰذا ان کے گھروں میں موجود ان کی حقیقی اور مصدقہ ریکارڈ یافتہ بیویوں کو کسی بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے خاوند پروفیسر حضرات باہر کیا کرتوت کرتے پھر رہے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض پروفیسر حضرات نے اپنی غیر رجسٹرڈ خفیہ منکوحہ خواتین سے سال دو سال مستفید ہونے کے بعد جان چھڑانے کے لیے انہیں بھاری رقوم، گاڑیاں حتیٰ کہ گھر بھی خرید کر دیئے اور جان خلاصی کرائی۔ ایک سینئر پروفیسر تو اس حد تک خفیہ نکاح میں جکڑے گئے کہ انہیں دو سال بعد اپنے نکاح کا باقاعدہ اعلان کرکے ولیمہ کرنا پڑا اور دو ماہ بعد بچوں کے دبائو پر دوسری بیوی کو طلاق دے کر اس کی زندگی برباد کر دی۔ مذکورہ پروفیسر خاتون نے بددل ہو کر دوبارہ شادی ہی نہ کی اور تنہا زندگی گزار رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: اساتذہ و طالبات کے خفیہ نکاح، شوشل میڈیا پر ہلچل، فلرٹ پر پہلی بیویاں الرٹ
ملتان (سٹاف رپورٹر) اعلیٰ تعلیمی اداروں کے سینئر پروفیسرز اور یونیورسٹی اساتذہ کی اپنی طالبات اور بعض ٹیچر کے ساتھ خفیہ نکاح کے حوالے سے روزنامہ قوم میں جمعرات کے روز شائع ہونے والی خبر دن بھر موضوع گفتگو رہی، بعض پروفیسر حضرات نے اس خبر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تو بعض پروفیسر حضرات نے اس کو بھرپور انداز میں انجوائے کیا اور پزیرائی کی، بعض پروفیسر حضرات کی طرف سے اس خبر کے حوالے سے جو کمنٹس موصول ہوئے وہ بھی انہوں نے روزنامہ قوم کے ساتھ شیئر کیے جبکہ بعض پروفیسر حضرات نے روزنامہ قوم سے مطالبہ کیا کہ ادارے نے خبر تو شائع کر دی مگر نام شائع نہیں کئےلہٰذابرائے مہربانی ان پروفیسر حضرات کے ہر حالت میں نام شائع کریں تاکہ ایسے عناصر سب کے سامنے آ سکیں اور جب آپ نام شائع کریں گے تو پھر جو پروفیسر حضرات اجلی اور طیب شہرت کے حامل ہیں، کم از کم ان کو تو لوگ سوالیہ نظروں سے نہیں دیکھیں گے۔ بہاولپور سے ایک پروفیسر نے روزنامہ قوم کو گزشتہ صبح فون کرکے بتایا کہ آپ علی الصبح ہی اپنی خبریں سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں جنہیں میری اہلیہ بھی پڑھ لیتی ہے اور آج اس نے ناشتے کی ٹیبل پر مجھ سے معنی خیز نظروں سے عجیب و غریب سوال کیا جو پہلے کبھی نہیں کیا، کہنے لگیں کہ آپ کے پاس کتنی طالبات ایم فل اور پی ایچ ڈی کا تھیسز کر رہی ہیں۔ انہوں نے از راہ مذاق کہا کہ لگتا ہے اب ہمیں ناشتہ بھی حلف پر ملا کرے گا۔ حیران کن طور پر روزنامہ قوم میں خبر شائع ہونے کے بعد بعض لوگوں نے ایسے پروفیسرز کے مزید نام بھی ثبوتوں کے ساتھ بھیج دیئے جن کا روزنامہ قوم کو علم ہی نہ تھا۔ ایک پروفیسر کی اسسٹنٹ پروفیسر اہلیہ نے روزانہ قوم سے فون کرکے اپیل کی کہ برائے مہربانی تمام نام شائع کریں اور وعدہ کریں کہ آپ کارروائی کروائیں گے تو میں آپ کو بہت سے ثبوت فراہم کروں گی۔ روزنامہ قوم نے یہ اصولی فیصلہ کر رکھا ہے کہ کسی کا بھی نام سامنے نہ لایا جائے کیونکہ کچھ بھی ہو خواتین کی عزت ادارے کے نزدیک بہت اہم ہے۔ ویسے بھی روزنامہ قوم کا مقصد برائی کی نشاندہی کرتے ہوئے معاشرے کی اصلاح کرنا ہے۔