جامعات میں میرٹ پامال، شفافیت معدوم، گورنر پنجاب کا سخت نوٹس ،نگرانی و اصلاحات کا اعلان

ملتان (سٹاف رپورٹر) پنجاب کے گورنر اور سرکاری جامعات کے چانسلر نے صوبے کی تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں وزارت قانون اور ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی مشورے کے بغیر ایمرجنسی پاورز کے استعمال، بھرتیوں اور انتخابی عمل کے دوران قوانین اور قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری اصلاحاتی اقدامات کا حکم دے دیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی صورت میں وائس چانسلر کو ایمرجنسی اختیارات استعمال کرنے پڑیں تو اس معاملے کا جائزہ قانون و پارلیمانی امور کی وزارت کی مشاورت سے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کرے گا، تاکہ کسی بھی غیر قانونی اقدام کی گنجائش باقی نہ رہے۔ مزید بتایا گیا کہ کئی وائس چانسلرز اپنے ایمرجنسی اختیارات کا استعمال “مقررہ طریقہ کار” کے بغیر کر رہے ہیں۔ قوانین کے مطابق وائس چانسلر کو محدود نوعیت کے ایمرجنسی اختیارات تو حاصل ہیں، مگر انہیں استعمال کرتے وقت باقاعدہ ضوابط کی پاسداری ضروری ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ بعض یونیورسٹیاں سینڈیکیٹ کی منظوری کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایمرجنسی اختیارات کو معمول بنا رہی ہیں، جو قانونی طور پر غلط ہے۔ گورنر سیکرٹریٹ سے جاری نوٹیفکیشن نمبر No.GS(U-1)1-4/2025-57 کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی بھرتیوں، انضباطی کارروائیوں اور انتظامی امور کی شکایات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ نوٹیفکیشن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اس صورتحال کے باعث گورنر کے دفتر میں یونیورسٹیوں کے ایکٹس اور آرڈیننسز کے تحت دائر ہونے والی نظرثانی کی درخواستوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں بھی جامعات کے خلاف بھرتیوں اور فیصلوں سے متعلق بے شمار رٹ پٹیشنز دائر ہو رہی ہیں، جنہیں قانونی و انتظامی غلطیوں کے ازالے کے لیے گورنر/چانسلر کے دفتر کو بھیجا جا رہا ہے۔ سرکاری دستاویز کے مطابق یہ رجحان اس بات کی علامت ہے کہ یونیورسٹیوں کے اندر فیصلہ سازی کا نظام شفافیت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ نوٹیفکیشن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حالیہ بھرتیوں میں متعدد بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں میں جمع کروائے گئے ریکارڈ سے پتہ چلا کہ باقاعدہ کوڈل تقاضے پورے کیے بغیر تعیناتیاں کی گئیں، جس سے پورا عمل مشکوک اور ناقابل قبول ہو گیا۔ کچھ جامعات میں ایسے عہدوں پر بھرتیاں کی گئیں جن کی کوئی واضح تعریف یا منظور شدہ قواعد موجود ہی نہیں تھے۔ اس کے علاوہ اشتہار جاری ہونے کے بعد آسامیوں کی تعداد من مانے طریقے سے بڑھا دی گئی، جس سے بیرونی امیدواروں کو نقصان پہنچا اور اندرونی امیدواروں کے لیے راستہ ہموار کیا گیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اس سے پہلے بھی بعض یونیورسٹیوں میں پچھلی تاریخوں میں کی گئی تعیناتیوں کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں، جنہیں گورنر نے 21 اپریل 2020 کے نوٹیفکیشن کے ذریعے کالعدم قرار دیا تھا۔ اس کے باوجود ایسے واقعات کا دوبارہ منظر عام پر آنا انتظامی کمزوریوں کو ظاہر کرتا ہے۔ گورنر پنجاب نے تمام یونیورسٹیوں کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ آئندہ ہر بھرتی، انٹرویو، انتخاب اور انتظامی فیصلے میں مکمل قانونی تقاضے پورے کیے جائیں اور کسی بھی عمل کے آغاز سے قبل گورنر/چانسلر کے دفتر کو مکمل طور پر اعتماد میں لیا جائے۔ اس کے ساتھ انتظامی محکموں کو بروقت اطلاع دینا بھی لازم قرار دیا گیا ہے تاکہ غیر ضروری قانونی چارہ جوئی اور عدالتوں میں مقدمات کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو روکا جا سکے۔ یہ حکم نامہ صوبے کی تمام سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز، ہائر ایجوکیشن، ایگرکلچر، انڈسٹریز، کامرس اینڈ انویسٹمنٹ اور اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے محکموں کو ارسال کر دیا گیا ہے۔ گورنر سیکرٹریٹ نے واضح کیا ہے کہ صوبے کی یونیورسٹیوں میں میرٹ، شفافیت اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں اور اب کسی قسم کی بے ضابطگی برداشت نہیں کی جائے گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں