ہمارے سماج میں جب بھی کسی جامعہ میں جنسی ہراسانی، بلیک میلنگ یا اخلاقی جرائم کا انکشاف ہوتا ہے تو کچھ حلقے فوری طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ واقعات ’’معمول‘‘ ہیں، میڈیا انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، یا یہ کہ چند ’’اوور ری ایکشن‘‘ نے جامعات کی مجموعی تصویر کو خراب کر دیا ہے۔ یہ طرزِ فکر نہ صرف خطرناک ہے بلکہ خواتین اور کمزور طبقات کے تحفظ کے لیے نقصان دہ بھی۔ ایسے رویے دراصل مسئلے کی سنگینی کو کم کر کے طاقت ور طبقوں کو بچاتے ہیں اور متاثرہ طالبات کو مزید خاموشی پر مجبور کرتے ہیں۔
جامعات میں جنسی ہراسانی اور استحصال کوئی معمولی واقعات نہیں بلکہ یہ تعلیم کے تقدس پر حملہ ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے مستقبل کے خواب لے کر آتے ہیں۔ اگر ان اداروں کے اندر اساتذہ، منتظمین یا ہم جماعت طلبہ طاقت کے رشتوں کو استعمال کر کے طالبات کو ہراساں کریں تو یہ صرف انفرادی جرم نہیں بلکہ پورے تعلیمی ڈھانچے کو کھوکھلا کرنے کا عمل ہے۔ ایسی وارداتیں متاثرہ طالبات کے اعتماد کو مجروح کر دیتی ہیں، ان کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے، اور کئی دفعہ وہ ذہنی دباؤ کے باعث اپنی زندگی کے دیگر امکانات سے بھی محروم ہو جاتی ہیں۔
اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ خواتین کی خاموشی ’’رضامندی‘‘ نہیں۔ خوف، سماجی دباؤ اور عزت خراب ہونے کے خدشے نے ہمیشہ خواتین کو گواہی دینے سے روکے رکھا ہے۔ اگر کوئی طالبہ اپنی شکایت درج کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے تو یہ یونیورسٹی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک ایسا ماحول فراہم کرے جہاں متاثرہ خواتین خود کو محفوظ اور بااعتماد محسوس کریں۔ اس کے برعکس، واقعات کی اہمیت گھٹانا یا انہیں ’’میڈیا کے کھیل‘‘ کے طور پر پیش کرنا دراصل طاقت ور مجرموں کے لیے ڈھال فراہم کرتا ہے۔
ترقی پسند نقطہ نظر یہ ہے کہ ایسے جرائم کو دبانے یا نظر انداز کرنے کے بجائے پوری سنجیدگی سے لیا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر جامعہ میں ہراسانی کے خلاف آزاد اور شفاف کمیٹیاں قائم ہوں جن کے ارکان طلبہ، اساتذہ اور سول سوسائٹی کے نمائندے ہوں۔ ان کمیٹیوں کو قانونی اختیارات دیے جائیں کہ وہ شکایات سنیں، تحقیقات کریں اور فوری انصاف فراہم کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ گواہی دینے والی طالبات کی شناخت اور عزت کی مکمل حفاظت کی جائے تاکہ انہیں مزید دباؤ یا انتقام کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ کہنا کہ ’’میڈیا اسکینڈلز کو بڑھا دیتا ہے‘‘ دراصل ایک فرسودہ دلیل ہے۔ سوشل میڈیا اور آزاد ذرائع ابلاغ کی بدولت اب ایسے جرائم چھپانا ممکن نہیں رہا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان انکشافات کو انصاف کی طرف بڑھنے کا موقع بناتے ہیں یا انہیں محض سنسنی خیز قرار دے کر بھلا دیتے ہیں؟ ایک ترقی پسند معاشرہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ میڈیا کی کوریج ہی نے بہت سے متاثرین کو زبان دی اور طاقت ور مجرموں کو بے نقاب کیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان واقعات کو بنیاد بنا کر قدامت پسند حلقے مخلوط تعلیم کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اصل جرائم کو کم تر یا غیر اہم ثابت کیا جائے۔ جواب اس پروپیگنڈے کو بے نقاب کرنے میں ہے، نہ کہ متاثرہ خواتین کو خاموش کرنے میں۔ ہمیں یہ واضح کرنا ہوگا کہ مسئلہ مخلوط تعلیم نہیں بلکہ طاقت کے ناجائز استعمال اور ادارہ جاتی ناکامی ہے۔ خواتین کو الگ جامعات یا گھروں تک محدود کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ خواتین کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیلنا ہے۔
یہ بھی افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی)، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور گورنرز کی جانب سے قائم کردہ کمیٹیوں نے وائس چانسلرز، رجسٹرارز اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر تقرری کے وقت امیدواروں کے رویوں، نفسیاتی ساخت اور کردار کو جانچنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا۔ بہاولپور یونیورسٹی، ایمرسن یونیورسٹی ملتان، سندھ یونیورسٹی جامشورو اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کی حالیہ مثالیں صاف ظاہر کرتی ہیں کہ تعیناتی کے عمل میں امیدواروں کا نفسیاتی معائنہ نہیں کیا گیا، نہ ہی جدید سائنسی آلات اور تحقیقات کی روشنی میں ان کے رویوں کو پرکھا گیا۔ ان کے ماضی کے ریکارڈ کو بھی نظر انداز کر دیا گیا، حتیٰ کہ جب امیدواروں پر سنگین الزامات یا بدعنوانیوں کی اطلاعات موجود تھیں تب بھی انہیں نظرانداز کر کے عہدے دے دیے گئے۔
یہی صورتحال اس وقت بھی سامنے آتی ہے جب ایسوسی ایٹ پروفیسر یا پروفیسر کے عہدوں پر ترقی دی جاتی ہے۔ امیدواروں کے چال چلن، طلبہ کے ساتھ رویے یا ادارہ جاتی رپورٹوں کو جانچنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ بعض اوقات انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس میں سنگین خدشات کے باوجود انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ جامعات میں طاقت ور کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں جو بعد ازاں اپنی پوزیشن کو استعمال کر کے طالبات اور کمزور طبقات کے ساتھ زیادتیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اگر تقرریوں اور ترقیوں کے وقت یہ احتیاطی تدابیر اپنائی جاتیں تو آج ایسے شرمناک واقعات سامنے نہ آتے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ادارہ جاتی سطح پر اصلاحات لائی جائیں۔ جامعات میں اعلیٰ عہدوں پر تقرری کے لیے نفسیاتی جانچ، اخلاقی معائنہ اور ماضی کی کارکردگی کی سختی سے چھان بین کی جائے۔ صرف علمی قابلیت اور تحقیقی مقالے کسی شخص کو قیادت کا اہل نہیں بناتے۔ قیادت کے لیے کردار، رویہ اور ذمہ داری کا شعور سب سے پہلی شرط ہے۔ جب تک یہ پہلو نظرانداز کیے جائیں گے، جامعات کے اندر جنسی ہراسانی اور طاقت کے ناجائز استعمال کے واقعات ختم نہیں ہوں گے۔
یہ وقت ہے کہ ہم انصاف اور احتساب کو مرکز میں رکھیں۔ یہ خام خیالی ہے کہ خاموشی یا معمول پر لانے کی کوشش سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ مسئلے کو اس کی پوری شدت کے ساتھ تسلیم کرنا اور نظام کو جواب دہ بنانا ہی ترقی پسند راستہ ہے۔ یہی راستہ ہمارے تعلیمی اداروں کو محفوظ، شفاف اور باوقار بنا سکتا ہے۔
