آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

توانائی پالیسی کی بنیادی خامیاں

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کی جانب سے حکومت کے اس منصوبے پر اٹھائے گئے اعتراضات کہ 2035ء تک بجلی کی پیداواری صلاحیت کو تقریباً پچاس فیصد بڑھا کر 64 ہزار میگاواٹ تک لے جایا جائے، نہ صرف بجا ہیں بلکہ قابلِ سنجیدہ غور بھی ہیں۔ اپٹما نے درست نشاندہی کی ہے کہ “انڈیکیٹو جنریشن کیپیسٹی ایکسپنشن پلان” (آئی جی سی ای پی) غیر حقیقی مفروضات پر مبنی ہے۔ یہ منصوبہ یہ سمجھتا ہے کہ محض آبادی اور مجموعی قومی پیداوار میں اضافے سے بجلی کی طلب خود بخود بڑھ جائے گی۔ یہ مفروضہ نہ صرف سادہ لوحی پر مبنی ہے بلکہ توانائی کے شعبے کو مزید عدم استحکام سے دوچار کرنے کا خطرہ بھی رکھتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ بجلی کی پیداواری صلاحیت کا تقریباً نصف استعمال ہی نہیں ہو رہا۔ صنعتیں، گھریلو صارفین، دکاندار اور کسان سبھی گرڈ سے مہنگی بجلی خریدنے کے بجائے متبادل اور سستی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ چھتوں پر سولر پینل، نجی چھوٹے پلانٹس اور دیگر آف گرڈ حل تیزی سے فروغ پا رہے ہیں۔ ایسے میں مزید میگاواٹ شامل کرنا ایک ایسے دائرے کو مزید گہرا کرنے کے مترادف ہے جو پہلے ہی معیشت کو جکڑ چکا ہے: اوور کیپیسٹی، بڑھتے ہوئے نرخ، غیر استعمال شدہ پلانٹس، اور سرکلر ڈیٹ کا ناقابلِ کنٹرول حجم۔گزشتہ ایک دہائی میں یہ صورتحال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ ٹیریف میں سب سے بڑا حصہ بجلی کے فی یونٹ لاگت کے بجائے فکسڈ کاسٹ” یا کپیسٹی چارجز کا ہو گیا ہے۔ یہ وہ اخراجات ہیں جو حکومت کو پیداواری پلانٹس کو استعمال ہو یا نہ ہو، بہرحال ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس نے گھریلو صارفین کے لیے بجلی کو ناقابلِ برداشت اور صنعتوں کے لیے عالمی منڈی میں غیر مسابقتی بنا دیا ہے۔ نتیجتاً بجلی کی کھپت مزید سکڑ رہی ہے اور طلب کا بحران گہرا ہو رہا ہے۔ مگر افسوس کہ آئی جی سی ای پی جیسے منصوبے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے فرضی خوش فہمیوں میں مبتلا رہتے ہیں۔یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ اس منصوبے کے پچھلے ورژن بھی بارہا اسی طرح کی غیر حقیقی پیش گوئیوں کی بنیاد پر بنائے گئے تھے۔ توانائی کے ماہرین نے بارہا خبردار کیا ہے کہ نہ صرف بجلی کی طلب کا تخمینہ غلط ہے بلکہ مستقبل کے لیے زیادہ تر توجہ فوسل فیول پر مرکوز رکھنا بھی ایک سنگین غلطی ہے۔ ان دونوں عوامل نے مل کر پاکستان کے پاور سیکٹر کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اس وقت ضرورت یہ نہیں کہ مزید میگاواٹ شامل کیے جائیں بلکہ یہ ہے کہ موجودہ ڈھانچے کو اصلاحات کے ذریعے قابلِ عمل اور صارفین کے لیے قابلِ برداشت بنایا جائے۔ سب سے بڑی ترجیح بجلی کو سستا اور قابلِ بھروسہ بنانا ہونی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے لازمی ہے کہ کپیسٹی چارجز کو کم کیا جائے، ترسیلی و تقسیمی نظام کو بہتر بنایا جائے اور پیداواری پلانٹس کی استعداد کو حقیقت پسندانہ انداز میں استعمال کیا جائے۔اگر منصوبہ بندی محض اہداف بڑھانے کی سیاست پر مبنی رہی اور “کتنی پیداوار بڑھائی گئی” کے کھوکھلے اعدادوشمار کو کامیابی سمجھا گیا تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ صنعتیں مزید بحران کا شکار ہوں گی، گھریلو صارفین مزید مہنگائی کی چکی میں پسیں گے اور بالآخر لوگ گرڈ سے مزید دور بھاگیں گے۔ یہ وہ راستہ ہے جو نہ صرف توانائی کے شعبے بلکہ قومی معیشت کو بھی کھائی کی طرف لے جائے گا۔پاکستان کے لیے توانائی پالیسی کا محور “سستی اور پائیدار بجلی” ہونا چاہیے، نہ کہ بے مقصد میگاواٹ کے اضافے کی دوڑ۔ بصورتِ دیگر، موجودہ بحران ایک مستقل المیہ میں تبدیل ہو جائے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں