تحریر : میاں غفار (کار جہاں)
۔29 ویں چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی تقریب حلف وفاداری میں ایک خوبصورت منظر دیکھنے میں آیا کہ جونہی صدر مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی اور چیف جسٹس حلف کے لیے کھڑے ہوئے تو جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سامنے سے اٹھ کر سٹیج پر آئیں اور چیف جسٹس کے پہلو میں سر جھکائے خاموش کھڑی ہو گئیں اور جونہی حلف ختم ہوا وہ ایک بھی لفظ بولے بغیر خاموشی سے چھڑی کے سہارے سٹیج سے اتر کر سامنے کرسیوں کی طرف روانہ ہو گئیں۔ کیا ہی خوبصورت اور منفرد منظر تھا کہ وہ بھی اس حلف میں شریک ہوئیں جو ان پر واجب نہ تھا۔
کاش یہ پابندی لگ جائے کہ حلف اٹھانے والے ہر اہم عہدے دار کی اہلیہ بھی خواہ وہ تقریب میں ہوں یا نہ ہو۔ ویڈیو لنک پر حلف میں شریک ہوں کہ حلف کی پاسداری پر بہت زیادہ نمایاں کردار انہی بیگمات کا ہے کہ جن کی خواہشات پوری کرتے کرتے شوہر حضرات قبر میں اتر جاتے ہیں اور اپنی ابدی زندگی اس عارضی زندگی کی رنگینیوں پر قرباں کر کے ایک مسلسل جاری رہنے والے عذاب اور نہ ختم ہونے والے گناہ کے مرکزی کردار بن جاتے ہیں۔ کافی دن ہو گئے مسلم لیگی سرگرم کارکنوں کی گالیاں نہیں سنی اب لکھوں گا تو وہ شروع ہو جائیں گے۔ کوئی فیصل آباد سے معترض ہو گا تو کوئی رحیم یار خان سے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جو کبھی میاں برادران کے قریب ہی نہیں رہے اور چیلنج انہیں کرتے ہیں جنہوں نے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے علاوہ میاں محمد شریف اور اس خاندان کے سب سے طیب اور پارسا انسان میاں عباس شریف مرحوم کو قریب سے دیکھا اور مشاہدہ کیا ہے۔
پہلی مرتبہ میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو بھولو پہلوان کی بھانجی اورمصری شاہ لاہور کے ایک پانچ مرلے کے گھر میں ڈاکٹر حفیظ کے گھر جنم لینے والی بیگم کلثوم نواز جب خاتون اول بنیں تو انہوں نے وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد جاتے ہی تمام فانوس فینسی لائیٹس، قالین اور پردے تبدیل کرنے کا حکم دیدیا جو کہ پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ نے اس دور میں1990 میں آج سے 33 سال قبل لاکھوں روپے خرچ کر کے نئے خریدے تھے۔ میاں نواز شریف کے شاہانہ مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے پاک پی ڈبلیو ڈی نے ایک ایسے آفیسر کو وزیراعظم ہاؤس کی تزئین و آرائش کی ذمہ داری سونپی تھی جو کہ خود بھی بہت نفیس تھے اور ان کا انتخاب بھی اعلیٰ تھا مگر حکم بیگم غالب آیا اور سب کچھ اس دور میں لاکھوں روپے کے خرچ سے تبدیل کر دیا گیا مگر پرانا سامان جو کہ بالکل ہی نیا تھا کہاں گیا یہ کسی کو معلوم نہیں اورراوی بھی اس بارے خاموش ہے تاہم یہ کنفرم ہے کہ وہ پاک پی ڈبلیو ڈی کے پاس واپس نہیں گیا۔
بیگمات کس طرح سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں اور کس طرح اپنے شوہروں کو کرپشن پر مجبور کرتی ہیں اس کی ہزاروں نہیں لاکھوں مثالیں موجود ہیں اور پاکستان میں تو کچھ زیادہ ہی ہیں۔ میں نے دو سال قبل کالم میں ایک واقعہ لکھا تھا اور میرے کالم کا عنوان تھا 800 روپے کا کھیرا کیونکہ اس وقت ڈیزل 150 روپے سے کم تھا اس لیے وہی کالم آج لکھتا تو کھیرا 1600 کا ہو جاتا۔ ہوا یوں کہ رائے ونڈ روڈ پر فضائیہ ہاؤسنگ کی مکین ایک بیگم صاحبہ اپنی بہن سے ملنے ڈی ایچ اے کے فیز 6 گئیں تو وہاں سے بہن کے ہمراہ سبزی لینے چلی گئیں۔ سبزی لے کر بہن کو گھر اتارنے کے بعد جب وہ فضائیہ ہائوسنگ سکیم میں اپنے گھر پہنچی اور ایک کھیرا خراب نکل آیا ڈرائیور کو حکم دیا گیا کہ سرکاری ڈالا واپس لے کر جائے اور کھیرا تبدیل کرکے لائے۔ اور سرکاری ڈیزل پر کھیرے کی یہ تبدیلی 800 روپے میں پڑی۔ ایک اعلی آفیسر نے ملک بھر کے دیگر اہم شہروں کی طرح کراچی میں بھی ایک گھر بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ایک دن بھی اس گھر میں رہ نہ سکے۔ مگر آج سے 8 سال قبل اس گھر میں صرف ساگوان کی لکڑی پر 9 کروڑ خرچ ہوا تھا حتیٰ کہ باتھ روم کے روشندان بھی ساگوان کے تھے جس کے لیے ملائیشیا سے اعلی کوالٹی کی ساگوان منگوائی گئی۔ جن کارپینٹرز نے اس گھر میں دروازے ، الماریاں اور کھڑکیاں بنائیں ان کا تعلق مظفر گڑھ سے تھا اور انہوں مجھے پورا حال دیا کہ بیگم صاحبہ نے کس طرح سے دولت ایسے گھر پر اڑائی جہاں انہوں نے کبھی کبھار قیام کرنا تھا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ دونوں میاں بیوی کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا۔ (جاری ہے)