مقابلہ کمیشنِ پاکستان کی جانب سے سترہ بڑے نجی اسکول نظاموں کو جو نوٹس جاری کیے گئے ہیں، وہ نہ صرف والدین کی دیرینہ شکایات کی تصدیق کرتے ہیں بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ ملک میں نجی تعلیم ایک ایسے منافع خور کاروبار میں بدل چکی ہے جس میں طالب علم اور ان کے والدین کو ’’بندھے ہوئے صارف‘‘ کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ بڑے اسکول سسٹمز کی جانب سے مہنگی، لوگو شدہ کاپیوں، ورک بکس، یونیفارم اور دیگر اشیائے تعلیمی کو لازمی قرار دینا محض لالچ نہیں بلکہ ایک منظم معاشی دباؤ ہے جس کے ذریعے لاکھوں خاندانوں کو غیر ضروری مالی بوجھ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔مقابلہ کمیشن کی ازخود نوٹس پر مبنی تحقیق کے مطابق ملک بھر سے والدین، سرپرستوں اور متعلقہ حلقوں نے شکایت کی کہ اسکول اپنی فیسوں میں من مانی اضافہ کرتے ہیں، خریداری کے غیر شفاف طریقے اپناتے ہیں اور طلبہ کو ایسے ’’تعلیمی پیکج‘‘ خریدنے پر مجبور کرتے ہیں جن میں لوگو شدہ اسٹیشنری اور یونیفارم شامل ہوتے ہیں۔ والدین کو کھلی مارکیٹ سے عام اور سستے سامان خریدنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی۔ یہی جبر دراصل وہ بنیاد ہے جس پر مقابلہ کمیشن نے یہ کہا کہ ہر اسکول اپنے طالبِ علم پر مکمل منڈی کی اجارہ داری رکھتا ہے، کیونکہ طالب علم ’’زبردستی کے صارف‘‘ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، جسے اسکول کی شرائط نہ چاہتے ہوئے بھی ماننا پڑتی ہیں۔تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ لوگو والی کاپیاں، ورک بکس اور یونیفارم کھلی مارکیٹ میں دستیاب اشیاء کے مقابلے میں دو سو اسی فیصد تک زیادہ قیمت پر بیچے جاتے ہیں۔ یہ قیمتیں صرف غیر ضروری نہیں بلکہ ظالمانہ ہیں، اور ان کی وصولی کا کوئی تعلیمی، انتظامی یا اخلاقی جواز نہیں ملتا۔ مزید یہ کہ کئی اسکول اپنے نامزد وینڈرز کو ہی یہ سامان فروخت کرنے کا حق دیتے ہیں، جس سے ملک کی ہزاروں چھوٹی دکانیں اور ریٹیلرز متاثر ہوتے ہیں۔ اس سے نہ صرف کاروباری مقابلہ ختم ہو جاتا ہے بلکہ والدین کے انتخاب کا حق بھی سلب ہو جاتا ہے۔یہ عجیب تضاد ہے کہ تعلیم جیسے مقدس شعبے کو چلانے والے ادارے خود اس قدر غیر شفاف اور منافع بَر دار کاروباری طریقوں پر عمل کریں۔ تعلیم کا مقصد بچوں کو شعور اور آزادی فراہم کرنا ہوتا ہے، لیکن نجی اسکول اپنے طلبہ کے والدین کو خریداری کے غلام بنا کر ایک ایسی منڈی پیدا کرتے ہیں جہاں قانونِ مقابلہ، صارفین کا حق اور اخلاقی اصول سب پسِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔ مقابلہ کمیشن نے درست کہا کہ جب والدین کے لیے اسکول تبدیل کرنے کے اخراجات، داخلہ کی رکاوٹیں اور ٹرانسپورٹ کے مسائل بڑھ جائیں تو اسکولوں کو من مانی کا اختیار مل جاتا ہے۔ملک میں نجی تعلیم کا حصہ تقریباً نصف ہے، یعنی نصف طلبہ نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر نجی اسکول منافع کی دوڑ میں اخلاقیات کو روند دیں تو معاشرے پر اس کے اثرات تباہ کن ہوتے ہیں۔ مہنگائی سے پہلے ہی نڈھال گھرانوں پر جب لوگو شدہ کتابوں، تکونی بستوں، مخصوص یونیفارم اور مہنگے ’’تعلیمی پیکج‘‘ کا اضافی بوجھ ڈالا جائے تو یہ تعلیم نہیں، بلکہ استحصال ہوتا ہے۔ تعلیم ایک بنیادی حق ہے، لیکن نجی اسکول اسے ایک ایسی سلطنت میں بدل رہے ہیں جہاں بادشاہ اسکول مالکان ہیں اور رعایا والدین و طلبہ۔اس صورتحال کا سب سے تلخ پہلو یہ ہے کہ حکومت اور محکمہ تعلیم برسوں سے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ نہ فیسوں پر قابو، نہ اسکولوں کے تجارتی عمل پر نگرانی، نہ والدین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی عملی نظام۔ مقابلہ کمیشن کی کارروائی نے پہلی بار ان بڑے اسکولوں کو قانون کے دائرے میں لانے کی کوشش کی ہے۔ کمیشن نے ان سترہ اسکولوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ چودہ دن میں جواب دیں، ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی، جو بھاری جرمانوں کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے۔یہ کارروائی وقت کی ضرورت ہے، مگر یہ کافی نہیں۔ یہ مسئلہ صرف قانون شکنی کا نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام کے بگڑ جانے کا ہے۔ تعلیم کو منافع کمانے کے کاروبار میں بدلنے والی سوچ کے خلاف مؤثر قانون سازی ناگزیر ہے۔







