پاکستان کا تعلیمی بحران کوئی نیا موضوع نہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں یہ بحران اس قدر شدید ہو چکا ہے کہ اسے محض ایک شعبے کا مسئلہ نہیں کہا جا سکتا، بلکہ یہ قومی سلامتی اور بقا کا سوال بن چکا ہے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں دہشت گردی اور بیوروکریسی کی رکاوٹوں نے تعلیمی ڈھانچے کو تباہ کیا۔ عسکریت پسندوں نے سکولوں کو نشانہ بنایا، بچوں کے تعلیمی خواب جلائے، اور ریاست نے جو عارضی اسکول قائم کیے تھے وہ بھی محکمہ تعلیم کی غفلت اور کاغذی کارروائیوں کی نذر ہو گئے۔ اب یہ سکول یا تو بند پڑے ہیں یا حالیہ بارشوں اور طوفانی ریلوں نے انہیں مزید ناقابلِ استعمال بنا دیا ہے۔ لیکن یہ تصویر صرف خیبر کی نہیں؛ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقے بھی یہی کہانی سنا رہے ہیں۔
پاکستان اس وقت دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ بچے سکول سے باہر ہیں۔ چھبیس ملین سے زیادہ بچے کسی باضابطہ تعلیم سے محروم ہیں۔ یہ محض ایک عدد نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی زوال کی علامت ہے۔ ہر وہ بچہ جو سکول نہیں جا رہا، دراصل جہالت، غربت اور معاشرتی محرومی کے ایک ایسے چکر میں پھنس رہا ہے جس سے نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔ ایسے میں، جب دہشت گردی اور قدرتی آفات مزید سکول تباہ کر دیں تو یہ بحران ایک قومی المیہ بن جاتا ہے۔
دہشت گرد گروہوں نے پچھلی دہائیوں میں تعلیمی اداروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔ لڑکیوں کے سکولوں کو جلانا اور اساتذہ کو دھمکانا ان کا بنیادی ہتھیار تھا کیونکہ تعلیم روشن خیالی اور آزادی کی علامت ہے۔ لیکن ریاست نے ان نقصانات کے بعد سکولوں کی بحالی کے لیے پائیدار منصوبہ بندی نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہزاروں بچے آج بھی کھلے آسمان تلے پڑھنے پر مجبور ہیں یا تعلیم سے بالکل کٹ گئے ہیں۔ جب سیلاب جیسی قدرتی آفات آتی ہیں تو صورتحال مزید خراب ہو جاتی ہے۔
رواں برس صرف پنجاب میں دو ہزار سے زائد سکول پانی میں بہہ گئے، خیبر پختونخوا میں چار سو سے زیادہ سکول متاثر ہوئے اور سندھ و بلوچستان میں بھی سیکڑوں سکول زمین بوس ہو گئے۔ لیکن ان سب میں سب سے زیادہ دل دہلا دینے والی صورتحال سرائیکی وسیب کی ہے۔ مظفرگڑھ، علی پور، جلالپور پیروالا، ملتان کے نواحی علاقے، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان وہ خطے ہیں جہاں حالیہ سیلاب نے پورے گاؤں بہا دیے۔ یہاں کے سکول یا تو مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں یا ان کی عمارتیں اس حد تک خستہ حال ہو چکی ہیں کہ بچوں کا وہاں جانا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
سرائیکی وسیب کا تعلیمی ڈھانچہ پہلے ہی کمزور تھا۔ وسائل کی کمی، اساتذہ کی غیر حاضری، ناکافی عمارتیں اور کمزور نصابی سہولیات پہلے ہی بچوں کو معیاری تعلیم سے محروم کر رہی تھیں۔ اب سیلاب نے ہزاروں بچوں کو مکمل طور پر تعلیمی نظام سے باہر کر دیا ہے۔ علی پور اور جتوئی کے دیہات میں بچے کھلے میدانوں اور کیمپوں میں بیٹھے ہیں۔ ان کی کتابیں اور یونیفارم پانی میں بہہ گئے، اور وہ ذہنی طور پر بھی شدید صدمے سے دوچار ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جو اگر ابھی سنبھالی نہ گئی تو ہمیشہ کے لیے تعلیم سے کٹ جائے گی۔
بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت نے ان متاثرہ اسکولوں کی فوری بحالی کے لیے کوئی واضح منصوبہ نہیں دیا۔ مقامی انتظامیہ کی توجہ زیادہ تر سڑکوں اور کھیتوں کی مرمت پر ہے جبکہ تعلیمی ادارے ایک بار پھر نظر انداز ہو رہے ہیں۔ اگر خیمہ سکول، عارضی کلاس رومز اور کتابوں کی فراہمی فوری طور پر نہ کی گئی تو سرائیکی وسیب کے ہزاروں بچے سکول چھوڑ کر مزدوری پر مجبور ہو جائیں گے۔
ریاستی بیوروکریسی اس بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ خیبر کے پری فیبریکٹڈ سکولوں کا بند پڑا رہنا یا سرائیکی علاقوں میں متاثرہ اسکولوں کی مرمت نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ نیت اور نظام کی ناکامی ہے۔ جب سکول قائم کیے جا سکتے ہیں تو انہیں فعال کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ لیکن جب محکمہ تعلیم ہی رکاوٹ بن جائے تو پھر بچوں کا مستقبل کون سنوارے گا؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں تعلیمی ایمرجنسی کا باقاعدہ اعلان کریں۔ متاثرہ علاقوں میں خیمہ سکول اور کمیونٹی کلاسز قائم کی جائیں، مقامی اساتذہ کو فوری تعینات کیا جائے اور بچوں کو کتابیں اور اسٹیشنری فراہم کی جائے۔ ساتھ ہی سکولوں کی تعمیرِ نو کو ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جائے تاکہ یہ بچے مستقل محرومی کا شکار نہ ہوں۔
یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ تعلیم دشمنی دراصل ریاست دشمنی ہے۔ دہشت گرد جب سکول جلاتے ہیں تو وہ ایک نسل کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلتے ہیں۔ لیکن اگر حکومت اپنی نااہلی سے سکول بحال نہیں کرتی یا سیلاب زدہ علاقوں میں عارضی تعلیمی مراکز قائم نہیں کرتی تو یہ بھی اسی جرم میں شریک ہے۔
پاکستان کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ اپنے بچوں کو جہالت کے اندھیروں میں چھوڑ دے گا یا علم و ہنر کی روشنی میں آگے بڑھائے گا۔ اگر آج ہم نے سرائیکی وسیب، خیبر اور دیگر متاثرہ علاقوں کے بچوں کو سنبھالا نہ دیا تو آنے والے برسوں میں یہ محرومیاں انتہاپسندی، غربت اور سماجی بگاڑ کی صورت میں پوری قوم کو بھگتنی پڑیں گی۔
ریاست اور معاشرے دونوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ تعلیم کو قومی ترجیح بنائیں۔ یہ صرف ایک وزارت یا بجٹ کی لائن نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کا تعین ہے۔ سرائیکی وسیب کے سیلاب زدہ اسکولوں سے لے کر خیبر کے دہشت زدہ تعلیمی اداروں تک، ہر جگہ ایک ہی سوال گونج رہا ہے: کیا ریاست اپنے بچوں کو تعلیم کا حق دے سکے گی؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں نہیں، تو پھر ہماری قومی ترقی اور بقا کا خواب بھی ایک سراب ہی رہے گا۔
