ملتان( قوم ایجوکیشن سیل رپورٹ) ہزاروں طلبہ سے کروڑوں روپے بٹور کر اُن کا تعلیمی مستقبل تاریک کرنے والا زکریا یونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلر کا قریبی سہولت کار سابق ڈپٹی رجسٹرار رجسٹریشن اللہ دتہ عامر ہزاروں طلبہ و طالبات کا مستقبل تباہ کرکے چند لاکھ روپے دے کر تحقیقاتی اداروں کے ضمیر فروش اہلکاروں کو خاموش کروا کر باعزت بری ہو گیا۔ آج وہی شخص دوبارہ کبیر والا میں ایک نیا تعلیمی ادارہ قائم کرکے معصوم بچوں کے مستقبل سے کھیلنے میں پھر سے مصروف ہو گیا ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ پورے ملک میں تعلیمی جعل سازی کے اس مکروہ کردار کو بھی اب اس مفلوج تعلیمی نظام نے اجازت دے کر استاد کا درجہ عطا کر دیا ہے، اس حوالے سے ایک اہم رپورٹ منظرِ عام پر آئی ہے، جو ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم 14 ستمبر 2022 کی روشنی میں مرتب کی۔ یہ تحقیقاتی رپورٹ آئینی درخواست نمبر 134 آف 2012، ملک انیق خطانہ بنام خالد جاوید و دیگر کے کیس میں مرتب کی گئی اور اس کا تعلق بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اس سے ملحقہ کالجوں کے ایل ایل بی پارٹ ون دوسرا سالانہ امتحان 2019 سے متعلق سنگین بے ضابطگیوں سے متعلق ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، جامعہ زکریا اور اس کے الحاق شدہ 40 نجی لاء کالجز میں ہونے والی مالی بدعنوانیوں کے باعث یونیورسٹی کو مجموعی طور پر کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ تاہم سب سے سنگین الزامات ڈپٹی رجسٹرار (رجسٹریشن) مسٹر اللہ دتہ عامر پر عائد کیے گئے، جنہیں اس پورے فراڈ کا مرکزی کردار اور ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا ہے۔ تحقیقات میں شامل افسران، جن میں طارق محمود، معظم علی، محمد عادل اور ڈائریکٹر ایف آئی اے اعجاز احمد شامل تھے، نے تفصیل سے لکھا ہے کہ اللہ دتہ عامر 16 نومبر 2016 سے 14 اپریل 2020 تک رجسٹریشن برانچ میں تعینات رہا اور اس دوران بے ضابطگیوں کی ایک طویل فہرست سامنے آئی۔اے ڈی عامر کی ذمہ داری بطور سیکریٹری الحاق اور ڈپٹی رجسٹرار، الحاق کی مدت میں توسیع کے لیے فائلز کو بروقت پیش کرنا تھا، لیکن اس نے دانستہ طور پر اس میں تاخیر کی تاکہ مخصوص نجی کالجز کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ مزید برآں، اس نے ایک غیر الحاق شدہ ادارے پاکستان اسکول آف لا، پاکپتن کو بھی داخلہ شیڈول جاری کر دیا جو کہ سراسر غیر قانونی اقدام تھا۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اللہ دتہ عامر نے سنڈیکیٹ سے منظوری لیتے وقت اصل معلومات کو چھپایا، اور کالجز کی نشستوں کی اصل تعداد کو مسخ کر کے پیش کیا۔ نجی کالجز نے مقررہ نشستوں سے زائد طلبہ کے نام بھیجے، جنہیں اس نے بغیر کسی تصدیق کے قبول کر لیا۔ یہ اضافی سیٹیں مبینہ طور پر بھاری رقوم کے عوض دی گئیں۔ اس نے رجسٹرار کے ساتھ مل کر، کالجز سے انرولمنٹ ریٹرن وصول کیے لیکن ان کی جانچ پڑتال یا تصدیق کا کوئی عمل شروع نہ کیا۔ کنٹرولر امتحانات نے جب رجسٹریشن برانچ سے ملنے والے ڈیٹا کی بنیاد پر 5169 طلبہ کو امتحانات سے روکا، تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ اللہ دتہ عامر ان غیر قانونی اور نااہل طلبہ کو امتحان میں بٹھانے کے لیے سہولت کاری کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ، جعل سازی کے ذریعے رد و بدل شدہ فیس واؤچرز کو خزانہ برانچ تک بروقت نہیں بھیجا گیا، جس سے مالی معاملات کی شفافیت شدید متاثر ہوئی۔ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ رجسٹریشن، خزانہ اور کنٹرولر آفس کے مابین رابطے کا فقدان بھی اس اسکینڈل کا سبب بنا، لیکن اللہ دتہ عامر نے ان خامیوں کو جان بوجھ کر برقرار رکھا اور بھاری ذاتی مفاد حاصل کیا تاکہ نجی کالجز کو فائدہ دیا جا سکے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میںاس بات کا ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں کہ اللہ دتہ عامر کی قیادت میں یونیورسٹی کو 60 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا اور اعلیٰ تعلیمی نظام کو بدترین کرپشن کا نشانہ بنایا گیا۔اے ڈی عامر جو تعلیمی اداروں کے لیے ایک ناسور کی حیثیت رکھتے ہیں جو نہ صرف اداروں کی ساکھ کو مجروح کرتے ہیں بلکہ طلبہ کے مستقبل، میرٹ، اور نظامِ تعلیم کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان جیسے عناصر کا سخت احتساب اور قانون کے مطابق قانونی کارروائی جاری رکھی جائے۔
