آج کی تاریخ

ترقی کی نئی جہت: معیشت اور فطرت کا ناگزیر رشتہ

ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ “Reboot Development: The Economics of a Liveable Planet” دنیا کے سامنے ایک نہایت تلخ حقیقت رکھتی ہے: دنیا کی 90 فیصد آبادی ایسی زمین پر بستی ہے جو بگڑ چکی ہے، ایسا پانی پیتی ہے جو صاف نہیں، اور ایسی ہوا میں سانس لیتی ہے جو صحت دشمن ہے۔ یہ صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی ترقی کا ہنگامی بحران ہے۔ آلودہ فضا اور پانی، بنجر زمینیں اور تباہ شدہ ماحولیاتی نظام انسانی صحت، پیداواریت اور ذہنی صلاحیت کو روز بروز کھوکھلا کر رہے ہیں۔ یہ عمل خاموشی سے انسانی امکانات کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
غریب اور پسماندہ ممالک میں صورتِ حال اور بھی سنگین ہے۔ وہاں دس میں سے آٹھ افراد بیک وقت تینوں بنیادی ضروریاتِ زندگی — صاف ہوا، محفوظ پانی اور زرخیز زمین — سے محروم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب زندگی کی بنیادیں ہی کمزور ہوں تو ترقی کس خواب کا نام رہے گی؟ یہی وجہ ہے کہ یہ رپورٹ یاد دہانی ہے کہ فطرت کے بحران کو صرف ماحولیاتی زاویے سے دیکھنا ناکافی ہے؛ یہ براہِ راست انسانی زندگی، معیشت اور بقا کا سوال ہے۔
اس تصویر کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ رپورٹ فطرت کو محض مظلوم نہیں بلکہ ایک فعال اتحادی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اگر انسان دانشمندی سے زمین، پانی اور ہوا کا استعمال کرے تو یہی وسائل روزگار پیدا کر سکتے ہیں، معیشت کو بڑھا سکتے ہیں اور ماحولیاتی و معاشی جھٹکوں کے خلاف لچک پیدا کر سکتے ہیں۔ یہاں انتخاب بالکل واضح ہے: وسائل کو لالچ اور بے رحمی سے استعمال کر کے ایک تباہ شدہ مستقبل قبول کیا جائے، یا دانشمندانہ استعمال کے ذریعے ترقی اور فطرت دونوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔
رپورٹ میں جسے “نائٹروجن پیراڈوکس” کہا گیا ہے وہ ہماری بے سمتی کی علامت ہے۔ کھادیں بلاشبہ زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے ضروری ہیں اور اربوں لوگوں کو خوراک دینے میں کلیدی کردار ادا کر چکی ہیں، لیکن ان کا حد سے زیادہ استعمال دریاؤں کو زہر آلود، زمین کو بانجھ اور ماحولیاتی نظام کو بیمار کر رہا ہے۔ اس ماحولیاتی تباہی کی سالانہ لاگت چونکا دینے والی ہے: 34 کھرب امریکی ڈالر۔ مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ حل پیچیدہ نہیں۔ اگر کھاد کے استعمال کو مقامی سطح پر سمجھداری سے منظم کیا جائے تو اس کے فوائد لاگت سے پچیس گنا زیادہ ہو سکتے ہیں اور پیداوار میں اضافہ بھی برقرار رہے گا۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ پائیداری اور پیداواریت ایک دوسرے کی دشمن نہیں بلکہ حلیف بن سکتی ہیں۔
رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ قدرتی وسائل کے مؤثر استعمال سے آلودگی میں پچاس فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ صاف ہوا اور پانی کا مطلب ہے صحت مند آبادی، زیادہ فعال دماغ اور زیادہ محنتی افرادی قوت۔ جنگلات کی بحالی اور مٹی کے بہتر انتظام سے لاکھوں روزگار پیدا ہو سکتے ہیں، خاص طور پر ان ملکوں میں جہاں معیشت براہِ راست زراعت پر انحصار کرتی ہے — جیسے پاکستان۔ جب کسان کی زمین زرخیز ہوگی اور پانی محفوظ ہوگا تو وہ صرف اپنی معیشت ہی نہیں بلکہ قومی معیشت کو بھی سہارا دے گا۔
ورلڈ بینک کی یہ رپورٹ واضح پیغام دیتی ہے: فطرت میں سرمایہ کاری کوئی عیاشی نہیں بلکہ بقا کی شرط ہے۔ یہ کوئی نیا نکتہ نہیں، مگر اس بار اسے معیشت کی زبان میں پیش کیا گیا ہے تاکہ پالیسی ساز یہ سمجھ سکیں کہ ماحول کو نظر انداز کرنے کی قیمت ناقابلِ برداشت ہے۔ کھوئی ہوئی صحت، ضائع شدہ پیداوار اور دم توڑتی انسانی صلاحیتیں دراصل وہ پوشیدہ لاگت ہیں جو ہم ہر دن ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان جیسے ملک، جو پہلے ہی ماحولیاتی آفات کے بوجھ تلے دبے ہیں، کے لیے یہ وارننگ اور بھی شدید ہے۔ حالیہ سیلابوں نے معیشت، کھیتوں اور بستیوں کو تباہ کر کے دکھا دیا ہے کہ ماحولیاتی بحران کا تعلق مستقبل سے نہیں بلکہ حال سے ہے۔ ایسے وقت میں ترقی کا پرانا ماڈل — جس میں فطرت کی قربانی دے کر وقتی معاشی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں — مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اب ترقی کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا: ایسی ترقی جو معیشت کو بھی زندہ رکھے اور زمین کو بھی۔
یہ اب بحث نہیں رہی کہ ترقی اور تحفظ میں سے کس کو ترجیح دی جائے۔ انتخاب بہت زیادہ بنیادی ہو چکا ہے: یا تو ایک ایسا مستقبل قبول کریں جہاں زمین بنجر، پانی زہریلا اور ہوا بیماری کا باعث ہو، یا پھر ایک ایسا راستہ اختیار کریں جہاں فطرت کو ترقی کا محرک بنایا جائے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پاکستان اور دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے فطرت کو ساتھ نہ لیا تو ترقی کا ہر خواب ریت پر لکھی تحریر بن جائے گا، لیکن اگر ہم نے اسے اپنا حلیف بنا لیا تو یہی فطرت ہماری بقا، خوش حالی اور ترقی کی ضامن بن سکتی ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں